• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بعد اب پنجاب اور سندھ میں بھی بلدیاتی انتخابات کا آغاز ہوگیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوران وہ دھماچوکڑی مچی کہ الامان الحفیظ (ایک جگہ تو صوبائی وزیر بیلٹ بکس اُٹھا کر بھاگ نکلے) چنانچہ درجن بھر اضلاع کے لئے سینکڑوں پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ انتخابات کرانے پڑے۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور جہاں پی ٹی آئی ہوتی ہے، وہاں ’’دھاندلی‘‘ نہیں ہوتی چنانچہ ہم اِسے بد امنی اور بدنظمی کہہ لیتے ہیں جس کا سبب، پورے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کا ایک ہی روز انعقاد بتایا گیا کہ نچلی سطح تک ہزارہا پولنگ اسٹیشنوں پر نظم و ضبط برقرار رکھنا کوئی آسان کام نہ تھا۔
اس تجربے کے پیش نظر پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات مرحلہ وار کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ لاہور پہلے مرحلے میں آتا ہے ، جہاں پاکستان تحریکِ انصاف کو آغاز میں ہی ایک سنگین صدمے نے آلیا۔ یہاں تک کہ لندن میں اپنے بچوں سے ملنے گئے ہوئے ، عمران خاں بھی بدمزہ ہوئے بغیر نہ رہے ا ور درجہ بدرجہ سرزنش کا آغاز ہوگیا۔ چیئرمین نے تحریکِ انصاف (نصف پنجاب) کے آرگنائزر چوہدری محمد سرور سے باز پرس کی، وہاں سے بات رُکن قومی اسمبلی شفقت محمود اور پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف محمود الرشید تک اور یہاں سے یونین کونسل 107 کی چیئرمین شپ اور وائس چیئرمین شپ کے لئے تحریکِ انصاف کے اُمیدواروں کو شوکاز نوٹس تک پہنچی جنہوں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی واپس لے کر خواجہ احمد حسان کی بلامقابلہ کامیابی کی راہ ہموار کی تھی۔ خواجہ حسان، خادمِ اعلیٰ کی سیاسی ٹیم کے نہایت قابلِ اعتماد رفقاء میں شمار ہوتے ہیں۔ میاں صاحب کی 1997 ء والی حکومت میں وہ لاہور کے لارڈ میئر تھے، 12اکتوبر99کے بعد قید و بند کی صعوبتوں کا اُنہوں نے بڑی ہمت اور جرأت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ مشرف دور میں،2001کے ’’بلدیاتی‘‘ انتخابات میں سرکاری مشینری کی بھرپور مداخلت کے باوجود وہ سرکاری اُمیدوار کو ہرا کر لاہور کے سب سے بڑے ٹاؤن، ’’داتا گنج بخش‘‘ کے ناظم منتخب ہوگئے۔ ظاہر ہے، مشرف کو یہ بات گوارا نہ تھی۔ اکتوبر 2002 کے عام انتخابات کے بعد پنجاب کی صوبائی حکومت چوہدریوں کے ہاتھ آگئی۔ لاہور کے اہم ترین ٹاؤن کی نظامت پر نوازشریف کے وفادار کی موجودگی ان کے لئے بھی قابلِ قبول نہ تھی۔ خواجہ حسان کی وفاداری خریدنے کے لئے انہوں نے کیرٹ اینڈ اسٹک کا ہر حربہ آزمایااور بالآخر 2003ءمیں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ان سے نجات حاصل کر لی گئی۔
خواجہ احمد حسان اب صوبائی حکومت کی متعدد ’’اتھارٹیز‘‘ کے نگران ہیں۔ گمان غالب ہے کہ لاہور کی لارڈ میئر شپ کے لئے وزیراعلیٰ کا انتخاب بھی وہی ہوں گے،یونین کونسل کی چیئرمین شپ جس کے لئے پہلی (لازمی) سیڑھی ہے اوریہاں ان کا بلامقابلہ انتخاب مسلم لیگ(ن) کو ہر محاذ پر ٹف ٹائم دینے کے بلند وبانگ دعوے کرنے والی تحریکِ انصاف کے لئے شرمندگی کا باعث ہے۔
یہ یونین کونسل پی ٹی آئی کے رُکن قومی اسمبلی شفقت محمود اور پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف محمود الرشید کے حلقے میں آتی ہے۔ شفقت محمود تو خیر سیاسی و انتخابی جوڑتوڑ کے آدمی نہیںلیکن محمود الرشید تو اس میدان کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ حیرت ہے وہ مسلم لیگ(ن) کے اہم ترین اُمیدوار کے مقابلے میں ایسا اُمیدوار نہ لاسکے، جو مضبوط قدموں کے ساتھ کھڑا رہتا۔ تحریکِ انصاف میں محمود الرشید کا مخالف گروپ ، اس حوالے سے ’’مک مکا‘‘ کی کئی گفتنی وناگفتنی کہانیاں بھی عام کر رہا ہے۔ ادھر سیاسی ناقدین کے خیال میں خواجہ حسان کی بلامقابلہ کامیابی محض ایک حلقے کا معاملہ نہیں، یہ الیکشن میکنزم کے حوالے سے تحریکِ انصاف کی صلاحیت کے سامنے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اور یوں بلدیاتی انتخابات شاید تحریکِ انصاف کے لئے کوئی اچھی خبریں نہ لائیں۔
ایک وقت تھا کہ بھٹو اور ان کی پیپلز پارٹی کے مقابلے میں سیاسی و انتخابی اتحاد بنا کر تے تھے۔ تو کیا اب نوازشریف اور ان کی مسلم لیگ اس مقام پر ہے؟گزشتہ دِنوں لاہور میں پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر منظور وٹو کی دعوت پر اپوزیشن جماعتیںایک ہی چھت کے نیچے جمع تھیں جن کی نمائندگی اِن کی اعلیٰ سطحی قیادت کر رہی تھی۔ مثلاً جماعتِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل نواز گنڈا پور، سنی اتحاد کونسل کے وائس چیئرمین جوادالحسن قادری اور جے یو پی کے پیر اعجاز ہاشمی، اس میں ایک اہم اور دلچسپ ترین بات پاکستان تحریکِ انصاف کی موجودگی تھی، جس کے لئے تحریک کے وسطی پنجاب کے آرگنائزر چوہدری محمد سرور تشریف لائے تھے جو11مئی 2013 کے انتخابات (جنہیں آج وہ دھاندلی زدہ قرار دیتے ہیں)کے بعد قائم ہونے والی مسلم لیگی حکومت میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر رہے۔تبدیلی اور شفافیت کی دعویدار تحریکِ انصاف کا پیپلزپارٹی کے ساتھ ’’اتحاد‘‘ ؟ جس کے ساتھ ’’مک مکا‘‘ پرعمران خان مسلم لیگ(ن) کو صبح شام مطعون کرتے رہتے ہیں لیکن وہ اِسے ’’اتحاد‘‘ قرار نہیں دیتے، ان کے بقول یہ ’’سیٹ ایڈجسٹ منٹ ‘‘ ہے( اور ’’ایڈجسٹمنٹ ‘‘تو وہ ایم کیو ایم کے ساتھ بھی کرتے رہے ہیں)۔کراچی کے جلسے اسی ایڈجسٹمنٹ کا نتیجہ تھے۔ واقفِ راز ہائے درونِ خانہ جاوید ہاشمی کے بقول، ان جلسوں کے پُرامن اختتام پر کپتان باقاعدہ فون کر کے شکریہ ادا کرتے۔ ڈاکٹر فاروق ستار اِسے ’’گنجائش اور سہولت‘‘ کا نام دیتے تھے۔
’’اصول پسندی‘‘ کے بلند بانگ دعوے اپنی جگہ ، لیکن عمران خاں کی 19سالہ سیاست پر نظر ڈالی جائے تو وہ عملیت پسندی(Pragmatism) میں کسی بھی سیاستدان سے کم نہیں۔ 1996 میں تحریکِ انصاف کے قیام کے وقت اُنہوں نے مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت سبھی جماعتوں کو فرسودہ، کرپٹ اور اسٹیٹس کو کی حامی قرار دیتے ہوئے عوام کو صاف ستھری، ایماندار اور دیانتدار نئی قیادت فراہم کرنے کا نعرہ لگایا۔ 1997کے انتخابات کے بعد نوازشریف کی (دوسری) حکومت قائم ہوئی تو 1999 میں ’’نواز ہٹاؤ‘‘ ون پوائنٹ ایجنڈے کے ساتھ،وہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں پیپلزپارٹی سمیت ان ہی سیاسی جماعتوں کے شانہ بشانہ تھے۔ مشرف دور میں اے آرڈی قائم ہوئی تو عمران انہیں ’’چوروں کا اکٹھ ‘‘ قرار دے رہے تھے، اِن کے بقول مشرف کو، جن سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی اور اس کے ساتھ ریفرنڈم میں مشرف کی پُرجوش حمایت۔
میاں صاحب کی جلاوطنی کے دِنوں میں، ہم بھی ایک اخبار میں ملازمت کے باعث جدہ میں مقیم تھے۔ ایک سہ پہر ہم نے کپتان کو سرور پیلس میں شہبازشریف سے ملاقات کرتے دیکھا۔ (وہ شہباز صاحب کی طرف سے شوکت خانم کے لیے 25لاکھ زکوٰۃ کی فراہمی پر شکریہ ادا کرنے آئے تھے) 2007 میں لندن میں نوازشریف کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں بھی انہوں نے پرجوش شرکت کی۔ اس موقع پر قائم ہونے والے نئے اتحاد اے پی ڈی ایم میں بھی وہ شامل تھے۔ 2008 کے انتخابات کے بعد بھی اِن کی سیاست کے رنگ ڈھنگ نرالے تھے۔ مارچ 2014 میں اُنہوں نے نوازشریف کو بنی گالہ کے غریب خانے پر مدعو کیا اور چند ہی ہفتوں بعد دھرنا بغاوت پر تُل گئے۔ ان سطور کو عمران خاں پر تنقید نہ سمجھا جائے، ہم تو محض یہ کہنے کی جسارت کر رہے ہیں کہ اصول پسند کپتان، عملیت پسندی میں کسی سے پیچھے نہیں۔
تازہ ترین