• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ستمبر کا مہینہ گزر رہا ہے ، حالات کس رخ جارہے ہیں اس کا علم ان قوتوں کو ہے جو دفاع پاکستان کی ذمہ دار ہیں اور شہیدوں کا خون دفاع وطن کیلئے مسلسل پیش کر رہی ہیں۔ کرپشن کی داستانیں گلی محلے اور جھونپڑیوں سے لے کر ذرائع ابلاغ کے حلقوں تک پہنچ رہی ہیں۔ ہمارے سیاسی قائدین اور حکمراںلندن، دبئی میں بیٹھ کر اپنے آپ کو کرپشن سے محفوظ رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، مگر شاید انہیں معلوم نہیں کہ اگر یہ سرزمین ان کی وجہ سے کسی خوفناک مشکل میں گھر جاتی ہے تو ان کا حشر کیا ہوگا ۔ اس سے بیشتر پاکستان توڑنے والوں کا انجام بھی انہیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ اگر اس سرزمین کوان کی حرکتوں کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچا تو وہ بھی عوام کے غیض و غضب سے بچ نہیں سکیں گے۔ یہی بات بالکل سچ ہے، پاکستان کے غریب عوام جو نان شبینہ کو محتاج ہیں، جن کے گلی محلے بیماریوں کے مسکن ہیں، جنہیں زندگی کی کوئی سہولت میسر نہیں ایسے لوگ جب گھبرا کر انقلاب کی جدوجہد شروع کرتے ہیں تو پھر کوئی ’’ نورا‘‘ بچ نہیں سکتا۔ سیاسی جماعتیں عوام کی صفوں سے نکل کر امراء کی صفوں میں شامل ہو چکی ہیں کیونکہ ان لوگوں کا طرز زندگی غریب عوام سے یکسر مختلف ہے۔ ہمارے اکثر سیاسی راہنما اور اکابرین لندن اور دوبئی آرائش کدوں میں زندگی گزار رہے ہیں انہیں چھینک بھی آجائے تو وہ سیدھے لندن کے کسی اسپتال میں داخل ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے خالق ایماندار اور سچے سیاستدان قائداعظم نے یہ کہہ کر شدید بیماری کے باوجود نئے جہاز میں سفر کرنے سے انکار کردیا تھا کہ وہ غریب قوم کے مالی وسائل خرچ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ حتی کہ کراچی ائیرپورٹ سے شدید بیماری کے باوجود پرانی ایمبولینس میں سفر کرنے کو ترجیح دی اور اسی میں دم توڑ دیا ، یہ قربانی کی عظیم مثال تھی، میں دعوے سے یہ بات کہہ سکتا ہوں تحریک پاکستان کے اکثر راہنمائوں کا یہ ہی سچ کا معیار تھا۔ قائداعظم کے پاس خان عبدالقیوم خان پنجاب کے گورنر ہائوس میں بیٹھے تھے کہ بجلی چلی گئی، بہت کوششوں کے باوجود بجلی نہ آسکی یہ دونوں عظیم رہنما اسی حالت میں ڈیڑھ گھنٹے تک بیٹھے رہے۔ اس وقت قائداعظم نے فرمایا کہ پاکستان کے قیام کے وقت ہمارے پاس چھ الیکٹرک انجینئر اور ایک انگریز چیف انجینئر موجود ہے جو پورے ملک میں پھیلے ہوئے عوام کی مشکلات دور کرنے میں مصروف ہے اور یہ کہہ کر اپنی شیروانی کے بٹن کھول دئیے کہ شاہد میری قوم کو وقت سے پہلے آزادی مل گئی ہے اور میں اس انقلاب کی تکمیل نہیں کر سکوں گا یہ ہمارے عظیم راہنمائوں کا طرہ امتیاز تھا، کہ وہ ہمیشہ’’ سچ‘‘ بولتے تھے، آج کی صورتحال یہ ہے کہ سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والے کو بڑا سیاستدان کہا جاتا ہے ہر روز بدلتے ہوئے بیانات سے وہ اپنے آپ کو عظیم ترین اور انقلابی رہنما سمجھتا ہے۔ بلاشبہ پاکستانی قوم بڑے مضبوط اعصاب رکھتی ہے گزشتہ ساٹھ سال میں لوگوں کی سازشوں اور نالائقیوں کے باوجود زندہ ہے، اور دنیا میں سراٹھا کر چل رہی ہے۔اس قوم میں ایسے نایاب لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو عالمی معیار کے سائنسی اور علمی طاقت کے مالک سمجھے جاتے ہیں، بہت سے اہم ترین کرپشن کے معاملات اور ناانصافیوں کے باوجود قوم کے اعصاب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، حال ہی میں سن 1965ء کی جنگ پر جو پروگرام پیش کئے گئے ہیں ان سے قوم میں قوت مدافعت کا اعلیٰ ترین معیار قائم ہوا ہے۔ ہماری دفاعی قوتوں نے جو پروگرام پیش کئے ہیں اس سے پاکستانی قوم کو مزید طاقت اور حوصلہ ملا ہے۔ باقی رہا سیاستدانوں کی آپس کی جنگ کا تعلق تو میں دیانتداری سے کہہ سکتا ہوں کہ اس میں قوم کی بھلائی کا کوئی پروگرام نہیں ہے ، ملک میں کرپشن اور لوٹ مار کرنے والے نہ پہلے پاکستانی قومیت پر یقین رکھتے تھے نہ اب یقین رکھتے ہیں۔ انہیںاس چمن کے شگوفوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کے نام پر کوئی اختلاف نہیں، قوم بھی یہی چاہتی ہے مگر چند بڑے ناموں کو سہارا دینے کیلئے عوام کی اکثریت تیار نہیں، البتہ قوم ان نام نہاد قائدین سے جو جمہوریت کیلئے لڑتے رہتے ہیں اور اس کی آڑ میں اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں بیزار ہیں۔ ایسے لوگ جو مخبریاں کرکے سیاست کرتے ہیں اور اپنے رنگین بیانات سے قوم کو خوفزدہ کرتے ہیں وہ بیک وقت حکمرانوں اور قوم کو مختلف پیشن گوئیاں کرکے دہشت زدہ کرتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ’’ ہم ہی ہم ہیں تیری محفل میں کوئی اور نہیں‘‘ حالانکہ ان کی سیاست اور کامیابی کا کوئی تعلق پیشن گوئیوں سے نہیں ہے، وہ ہوا میں تیر چلاتےرہتے ہیں کوئی تو لگے گا۔
ایک بات مجھے کہنی ہے کہ خدا کے واسطے ہمارے اکابرین ملک سے باہر بیٹھ کر محلوں میں سیاست کرنے کی بجائے پاکستان کے غریب عوام کے درمیان سیاست کریں کیونکہ اب پاکستان کے غریب عوام ان کے اس لگژری سفر اور شاندار طرز زندگی کو کرپشن قرار دیتے ہیں جو صورتحال کرپشن کی ہرسطح پر نظر آرہی ہے اگر یہ ہی صورتحال برقرار رہی تو پھر عوامی حاکمیت ختم ہوسکتی ہے یہی بہت بڑا سچ ہے، اسے قوم کے رہنمائوں کو مان لینا چاہئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ لوگ گدھے اور کتے کا گوشت کھا رہے ہیں، اگر یہ ہی حال رہا تو انجام گلستان کیا ہوگا۔ کیا ہم خدائی قہر سے بچ سکتے ہیں۔ سوچ لیجئے ضروری ہے کہ اب قوم کے سامنے سچ بول کر اپنے گناہوں کا اعتراف کریں اور خدا کی خوشنودی حاصل کریں۔
تازہ ترین