• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسعودعلی خاں ، رفیق رجوانہ صاحب سے پُرجوش مصافحہ کے ساتھ کہہ رہے تھے، جنابِ گورنر ! وقت وقت کی بات ہے ۔ یہی گورنر ہاؤس تھا، انگریز کے دور میں جہاں سے مولانا ظفر علی خاں کی نظر بندی اور ’’زمیندار‘‘ کی ضمانتوں کی ضبطی اور بندش کے احکامات جاری ہوتے تھے، اب یہیں مولانا کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے یہ عظیم الشان تقریب منعقد ہورہی ہے(گویا مولانایہاں مہمانِ خصوصی ہیں)‘‘۔مولانا ظفر علی خاں کے پوتے اس تقریب کے اہتمام پر گورنر رجوانہ سے اظہار ِ تشکر کر رہے تھے اور تاریخ کی بے رحم حقیقت کی طرف اشارہ بھی کہ اقتدار ڈھلتی چھاؤں ہے، یہ وہ بے وفا محبوبہ ہے جو کسی ایک کی ہو کر نہیں رہتی۔ مِٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے؟ رفیق رجوانہ کو گورنر ہاؤس کا مکین ہوئے یہ پانچواں مہینہ ہے اور لگتا ہے ابھی تک اُنہوں نے اقتدار کے نشے کو قریب نہیںپھٹکنے دیا۔ قریب سے جاننے والے اختیار اور اقتدار سے اِن کی بے رغبتی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔مسلم لیگ (ن) اور اس کے قائد سے رجوانہ کی وفاداری میں کبھی رتی بھر فرق نہ آیا۔ مشرف دور میں بھی وہ اُسی وفاداری بشرطِ استواری پر قائم رہے اور اسکے عوض اپنی قیادت سے کسی عہدے، کسی فائدے کی تمنا کو گناہ سمجھا۔ کہا جاتا ہے، ایک بار دوست احباب کے اصرار پر انہوں نے بھی مسلم لیگ کے ٹکٹ کیلئے درخواست دے دی لیکن کوئی اور اس کا مستحق قرار پایا تو رجوانہ کو اس پر کوئی ملال نہ تھا۔ وہ خوش تھے کہ چلو، الیکشن کا خرچہ بچ گیا۔ 1998 ءمیں جناب رفیق تارڑ کے صدر مملکت بن جانے پر سینیٹ میں ان کی خالی نشست پر رجوانہ صاحب منتخب ہوگئے۔ وہ اس کا تذکرہ بڑے دلچسپ انداز میں کرتے ہیں، سینیٹ سے اپنے خطاب میں اُن کا کہنا تھا، میں جن صاحب کی جگہ منتخب ہوا، ان کا نام بھی رفیق ہے، وہ بھی جج رہے، میں بھی جج رہا(وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے جج کے منصب ِ جلیلہ تک پہنچے اور میں ایڈیشنل جج کے عہدے سے مستعفی ہو کر وکالت کی طرف آگیا)۔ اب ایوان میں انہی کی نشست سے، انہی کے مائیک پر مخاطب ہوں۔ پارلیمنٹ لاجز میں بھی مجھے انہی کی خالی کردہ رہائش الاٹ ہوئی ۔ اب وہ صدرِ مملکت ہیں لیکن میں اس سے آگے کی خواہش رکھتا ہوں، نہ اِرادہ‘‘۔ اس سال مئی میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کی گورنری کا قرعہ ان کے نام نکل آیا تو ملتان میں مسلم لیگ کے سیاسی مخالفین بھی اس منصب پر، ’’سیاست کے مردِ شریف‘‘کے تقرر کا خیر مقدم کر رہے تھے۔ گورنر ہاؤس کے دربار ہال میں آویزاں سابق گورنروں کی تصاویر کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے اِن کا کہنا تھا، یہ سب لوگ آئے اور چلے گئے، ایک دن میری تصویر بھی ان سابقوں میں شامل ہوجائیگی‘‘۔قیامِ پاکستان کے بعد سررابرٹ فرانسس موڈی دو سال پنجاب کے گورنر رہے۔ پھر عبدالرب نشتر اِن کے جانشین ہوئے، صوبہ سرحد(موجودہ کے پی کے) میں قائد ِ اعظم اور مسلم لیگ کا جانثار ، ’’سرحدی گاندھی‘‘ کے صوبے میں جس نے قائداعظم اور مسلم لیگ کا پیغام ، گھر گھر پہنچانے میں صبح شام ایک کر دیا۔ صوبہپختو نخواکے ریفرنڈم میں ان کا کردار پاکستان کی تاریخ کا زریں باب ہے۔ قائد کی وفات کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی سازشوں میں ان کا دامن اُجلا رہا۔
پاکستان میں موقع پرستی اور مفاد پرستی کی سیاست کے حوالے سے ان سے منسوب یہ شعر ضرب المثل بن گیا؎
نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
لاہور کے اس گورنر ہاؤس میں کس کس دور میں، کیا کیاہوا؟ کس نے کیا گُل کھلائے ، کس نے نیک نامی کمائی اور کس کے حصے میں رسوائی آئی؟ یہ اپنی جگہ ایک دلچسپ اور چشم کشا داستان ہے، کاش! کوئی سیاسی محقق اس طرف بھی توجہ دے۔ 1958ءکے مارشل لاء سے پہلے یہاں جناب مشتاق احمد گورمانی بھی 22ماہ مقیم رہے، سیاسی جوڑ توڑ اور محلاتی سازشوں کے حوالے سے ایک اہم نام، آخری عمر میں جماعتِ اسلامی سے لَو لگالی۔ کالا باغ (میاں والی) کے ملک امیر محمد خاں، ایوب خاں کا باجبروت گورنر کہتے ہیں کہ ایوب خاں کے سیاسی مخالفین کے خلاف جبر کا ہر ہتھکنڈا ان کے نزدیک روا تھا۔
بھٹوصاحب کے نئے پاکستان میں غلام مصطفی کھر پنجاب کا پہلا گورنر بنا، کالا باغ جس کا آئیڈیل تھا، گورنری کے ابتدائی دِنوں میں ہی پولیس کی ہڑتال کا سامنا ہوا( اور اس نے اِسے کامیابی سے کچل دیا) لیکن سمن آباد(لاہور) سے دو یتیم سید زادیوں کے اغوا پر جاوید ہاشمی کی زیرقیادت نوجوانوں کا احتجاج اسکے کرّوفر اور خوف کی حد تک پہنچے ہوئے رعب داب کی دیوار میں پہلا بڑا شگاف ڈال گیا۔ یہ کہانی، خود ’’باغی‘‘ کی زبانی : ’’ہم نے گورنر ہاؤس پر دھاوا بول دیا، دروازے توڑ کر اندر داخل ہوگئے تو صدرِ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو ہمارے گھیرے میں تھے۔ وہ ایک بگھی میں سوار تھے۔ برطانیہ کے وزیرِ خارجہ لارڈ ہیوم بھی ان کیساتھ تھے۔ طالبات کی برآمدگی تک اُنہوں نے اپنے وزیر ممتاز کاہلوں کو ہمارے حوالے کردیا اور طالبات کی برآمدگی کے بعد ہم نے اُنہیں رہا کردیا۔ گورنر ہاؤس پر حملے سے قومی سطح پر حزبِ اختلاف میں جان پڑ گئی۔ دائیں بازو کے صحافیوں اور ادیبوں نے اس پر لکھا کہ ہم نے گرتے ہوئے قلم پھر اُٹھا لئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے اقتدار کا خواب پھیکا ہوچکا تھا‘‘۔
مئی 2008 ءسے جنوری 2011 ءتک سلمان تاثیر کے دور میں بھی گورنر ہاؤس کے شب و روزخاصے ہنگامہ خیز رہے۔ اس میں شہباز شریف کی حکومت کی برطرفی اور گورنر راج کا نفاذ بھی تھا… اور اگست 2013ءسے جنوری 2015 ءتک چوہدری محمد سرور۔ اپنے تیسرے دورِ اقتدار میں میاں صاحب نے کس چاؤ کے ساتھ انہیں یہ منصب سونپا تھا اور ڈیڑھ سال بعد وہ یہ کہتے ہوئے کوچ کر گئے کہ اُنہوں نے پنجاب کے عوام کی قسمت بدلنے کے خوابوں کیساتھ یہ منصب سنبھالا لیکن یہاں اُن کے ہاتھ بندھے رہے۔ تین بار برطانوی پارلیمنٹ کا رُکن ہونے والا سیاست دان اس حقیقت کو نظر انداز کر گیا کہ پارلیمانی نظام میں، عوام کی قسمت بدلنے کا مینڈیٹ گورنر کا نہیں، وزیراعلیٰ کا ہوتا ہے اور اب وہ اسی حکومت کو دھاندلی کی پیداوار قرار دے رہے ہیں جس میں ڈیڑھ سال تک گورنر رہے۔ گزشتہ منگل کی سہ پہر گورنر ہاؤس میں، یہ مولانا ظفر علی خاں پر ڈاکومنٹری کی نمائش تھی۔ 45منٹ کی اس فلم کا اسکرپٹ جناب امجد اسلام امجد نے لکھا اور ان کے ہونہار فرزند ذیشان نے اس کی ڈائریکشن کی۔ یہ مولانا ظفر علی خاں ٹرسٹ کی پیشکش تھی۔ جناب خالد محمود (سابق بیوروکریٹ، پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق سربراہ اور پنجاب کے سابق محتسب) کی زیرصدارت جناب مجیب الرحمن شامی، راجہ اسد علی خاں ، ڈاکٹر شفیق جالندھری اور مقصود بٹ اس ٹرسٹ کی ارواحِ رواں ہیں۔
1906ءمیں ڈھاکہ میں مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس میں شرکت سے لے کر ، تحریکِ خلافت اور تحریکِ پاکستان کے دوران مولانا کیا کیا ہنگامے اُٹھاتے رہے۔ اُن کی تقاریر نے قلوب و اذہان کو جس طرح مسحوراور مسخر کیا ، ان کے ’’زمیندار‘‘ نے قلمی محاذ پر جو کارہائے نمایاں انجام دیئے اور انہوں نے 12سالہ قید کی صعوبتیں جس خندہ پیشانی سے برداشت کیں ،یہ سب کچھ ہماری تاریخ کا شاندار باب ہے۔ قیامِ پاکستان (اور قائداعظم کی وفات) کے بعد وہ ناقدریٔ زمانہ کی مثال بن کر رہ گئے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کی اُردو کانفرنس (1949) میں اُن کی آخری "Public appearance"ہوئی جس میں وہ چند الفاظ ہی کہہ پائےـ :’’ہمارا قافلہ منزل ِ مقصود تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے بعد تمنائے راہ پیمائی تو ہے مگر قوتِ راہ پیمائی نہیں۔ کبھی ہم تماشائی تھے اور دُنیا تماشا۔ اب ہم تماشا ہیں اور دُنیا تماشائی۔ جہاں چڑھتے ہوئے سورج کی پوجا ہوتی ہو، وہاں ڈوبتے ہوئے آفتاب کو کون پوچھتا۔ اور ہم تو ڈوبتے ہوئے ستاروں کی طرح دُنیا پر نظر ڈال رہے ہیں‘‘۔شورش نے لکھا: ’’اِن آخری دِنوں میں وہ زندگی بسر نہیں کر رہے تھے بلکہ زندگی نے انہیں بسر کرنا شروع کردیا تھا اور پھر 29نومبر1956 کو وہ کرم آباد میں فوت ہوئے تو ان کا جنازہ ایک بیٹے ، دو پوتوں ، تین بھائیوں اور چار ملازموں کے کندھے پر اُٹھا‘‘۔ اور اب ظفرعلی خاں ٹرسٹ تاریخ کا قرض اور پاکستانی قوم کی طرف سے فرض ِ کفایہ اداکررہا ہے۔ مولانا کی نایاب کتب کی ازسرِ نو اشاعت اور ان کی شاندار زندگی پر ڈاکومنٹری اسی قرض اور فرض کی ادائیگی کا حصہ ہے۔ ٹرسٹ کے آئندہ اہداف میں ’’زمیندار‘‘ کی گمشدہ فائلوں کی تلاش اور لاہور میں انکے شایانِ شان ایک آڈیٹوریم ، لائبریری اور ریسرچ سینٹر کی تعمیر شامل ہے، جس پر ٹرسٹ کے کارپرداز ان تحسین و تشکر کیساتھ اہلِ خیر کے تعاون کے بھی مستحق ہیں۔
تازہ ترین