• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بابائے ملت کی وفات کے بعد جمہوریت کا جو حشر ہمارے سیاسی ناخدائوں نے کیا وہ تاریخ کے گوشوں میں لمحہ لمحہ محفوظ ہے۔ مشرقی پاکستان اسمبلی میں دوران اجلاس ڈپٹی اسپیکر شاہد علی خان کو قتل کردیا گیا۔ مغربی پاکستان میں قرآن کریم کے حاشیے پر وفاداری کا دستخط کرتے ہوئے ممبران اسمبلی نے خلاف ورزی کی مخدوم زاہ حسن محمود نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے جمہوریت کی جس قدر پامالی اس دور حکومت میں کی گئی کہ عوام نے الامان والحفیظ کہا۔ غرض جمہوریت کے متوالوں نے جمہوریت کے نام پر عوامی حقوق کا جو استحصال کیا وہ اس زمانے کے اخبارات اور تاریخ کے گوشوں میں محفوظ ہے۔ مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ نورالامین ایک معمولی طالبعلم سے الیکشن ہار گئے مغربی پاکستان میں یہ حالات اس سے مختلف نہ تھے ریپبلکن پارٹی جس کو اس وقت کے صدرا سکندر مرزا نے تخلیق کیا تھا سیاسی اراکین اسمبلی نے راتوں رات اس میں شرکت اختیار کر لی اور وہ صاحب جنہوںنے قیام پاکستان کے وقت قومی پرچم کو سلامی دینے سے انکار کر دیا تھا انہیں مغربی پاکستان کا وزیراعلیٰ منتخب کر لیا گیا۔ یہ تمام تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ میں لکھتے وقت کوشش کر رہا ہوں کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو اور واقعات کو دیانتداری سے نئی نسل تک پہنچا دیا جائے۔ کیونکہ جمہوریت کے علمبرداروں نے اس ملک کو اس المناک انجام تک پہنچا دیا کہ پاکستان کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا تھا۔ سیاستدانوں کی بے ضابطگیاں عروج پر تھیں کہ مجبوراً مشرقی اور مغربی پاکستان میں جمہوریت کا بستر لپیٹ دیا گیا۔ قوم نے سکھ کا سانس لیا۔ سیاستدانوں کی اکثریت نے اپنے خلاف الزامات کا سامنا نہیں کیا۔ چند اہم ترین سیاستدانوں کے علاوہ کسی نے بھی ان الزامات کا سامنا نہیں کیا اور ملک میں مارشل لا نافذ کردیا گیا۔قوم کو سنائی گئی اس وقت دو چیزیں بڑی مشہور ہوئیں ایک ا سمگلر اور ایک ڈاکو۔ اتنا سونا نکلنے کے بعد سونے کے دام سوا سو روپیہ تولہ سے گھٹ کر نوے روپے تولہ رہ گئے مگر آج تک اس مال غنیمت کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ اسی زمانے میں محبت خان ڈاکو اور بوبت ڈاکو بھی بہت مشہور ہوئے غیر سیاسی حکومت نے بہت کوشش کی کہ حالات کو درست سمت میں لے آیا جائے مگر سیاستدانوں نے ان قوتوں کو گھیر لیا اور ان کی کوششیں ناکام ہو گئیں پھر خود ساختہ ناخدائوں نے ان کی اصلاحات کو بھی ناکام بنا دیا اور صدر ایوب خان کو قائد اعظم کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کے خلاف کھڑا کر دیا اور قائد اعظم کی ہمشیرہ کو دھاندلی سے انتخابات میں شکست دے دی گئی۔ معلوم نہیں کہ سونے کا معاملہ مصنوعی تھا یا حقیقت اور آج تک پتہ نہ چل سکا۔ پاکستانی عوام آج بھی اس سونے کی تلاش میں ہیں پتہ نہیں وہ سونا کہاں چلا گیا؟ تھا بھی یا نہیں اور پاکستانی عوام جمہوریت کی تلاش میں بھی ہیں جو ہمارے سیاسی ناخدائوں نے قوم کو پچھلے نصف صدی سے دکھا رکھی ہے ملک میں آج بھی جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم سے سچ بولا جائے کہ ہم کس مرحلے سے گزر رہے ہیں یہ قوم سچ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔پاکستانی عوام آج بھی اپنے جسم کا آخری قطرہ ملک اور قوم کو دینے کے لئے تیار ہیں پہلے اپنی صفوں میں تو جمہوریت لائیے کیونکہ عوام کہتے ہیں کہ ہمارے سیاسی ناخدا ’’پدرم سلطان بود‘‘ سے تو باہر نکلیں پھر جمہوریت بھی آجائیگی ملک میں کرپشن، ملاوٹ، بدیانتی، لا اینڈ آرڈر کی پامالی ایک عام سی بات ہے ہمارے سیاسی ناخدا اپنے شاندار محلوں سے نکل کر سچائی کی تلاش میں ان کے غریب محلوں، گلیوں اور گندے جھونپڑوں پر نظر ڈالیں عوام آج بھی صاف پانی، اصلی اور معیاری دوائوں اور زندگی کی آسائشوں سے محروم ہیں۔ جب قوم سکھی ہو گی تو پھر وہ جمہوریت کے بارے میں سوچے گی کہ جمہوریت کا فائدہ چند بڑے گھرانوں کے علاوہ کسی اور تک پہنچتا دکھائی نہیں دیتا۔
کرپشن سڑکوں، چوراہوں اور لگژری عمارتوں تک آپہنچی ہے اس کو دیکھنے کے لئے کسی دوربین کی نہیں بلکہ کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں۔ جب ہمارے قومی رہنما پچاس پچاس گاڑیوں میں ’’ہٹو بچو‘‘ کی صدائیں لگاتے ہوئے اور علاج کے لئے لندن کا سفر کرتے ہیں تو پھر مساوات محمدیؐ کا کیا تصور رہ جاتا ہے۔ میں نے ایک زمانے میں جب غلام اسحٰق خان وزیر خزانہ تھے وہ انتہائی ایماندار، دیانتدار شخص تھے اقتصادی کونسل میں جس کے وہ چیئرمین تھے ایک میٹنگ میں شرکت کی انہیں یہ کہہ کر اٹھتے ہوئے دیکھا کہ قومی اقتصادی کونسل میں لوگ اپنے کینو اور خربوزے کی قیمتیں مقرر کروانے کے لئے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ جن میں اکثریت سیاسی ناخدائوں کی ہوتی ہے کوئی ملک اور قوم کی بات نہیں کرتا نہ کوئی قومی ترقی کا پلان لے کر اجلاس میں آتا ہے۔ غلام اسحٰق خان انتہائی دیانتدار اور بااصول شخص تھے ’’اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر‘‘۔ میری ان سے کئی دفعہ ملاقات ہوئی جب انہوں نے ایوان صدر چھوڑا تو ایک بریف کیس میں چند جوڑے کپڑے لے کر رخصت ہو گئے۔
تازہ ترین