• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برادر محترم عطاء الحق قاسمی نے (مقام اور مرتبے میں نہیں، عمر میں بڑا ہونے کے ناطے) عمران خاں کو مشورہ دیا ہے کہ اپنی تقریروں میں وہ اور جو کچھ کہیں مگر کسی سیاستدانوں کو لٹیرا ، ڈاکو اور ا س طر ح کی دوسری گالیاں نہ دیا کریں کہ ا س سے دا ئیں بائیں کھڑے، ان کی پارٹی کے رہنما بہت Embarrassed ہوتے ہیں۔ قاسمی صاحب کے خیال میں خان صاحب کو اپنی ہی پارٹی کے رہنمائوں کو یوں سر عام شرمندہ نہیں کرنا چاہیے۔ جناب قاسمی ایک شریف اور وضعدار آدمی ہیں، اور شریف آدمی دوسروں کو بھی اپنے قیاس کرتا ہے۔ لیکن اول تو اپنے ہا ں کے سیاسی بازار میں Embarrassment شرمند گی یا خجالت جیسا سودا خاصا نایاب ہو چکا۔ ایک آدھ دکان پر ہے اور یہ بھی غنیمت ہے۔ ورنہ اب سیاست کے با زار میں کسی بے اصولی یا غلط بیانی پر شرمندگی کا چلن کہاں؟
اب تو یہ با تیں بھی اے دل ہو گئیں آئی گئی
مثلاً ایک وقت تھا کہ گائوں دیہات میں بھی کسی شخص کی طر ف سے لگایا جانے والا الزام غلط ثابت ہوتا تو وہ کم از کم آ ٹھ، دس دن تک تو گھرسے نہ نکلتا، کسی ضروری کام سے نکلنا پڑتا، تو منہ چھپائے پھرتا، مولا نا ا بوالکلام آ زاد کے بقول، سیا ست کے پہلو میں دل نہیں ہوتا لیکن آنکھ میں شرم ضرور ہوتی تھی۔ سیاسی عمل جاری رہتا تو اعلیٰ سیاسی اخلاقیات مزید فروغ پاتیں، برتر سیاسی ا قدار مستحکم ہوتیں لیکن آمریتوں نے سب کچھ برباد کر دیا۔ آج کی سیاست مختلف ہے اور نئے پاکستان اور نئی سیاست کے علم برداروں نے تو کمال ہی کر دیا۔ وہ الزام لگاتے ہیں، اس کی تکرار کرتے ہیں، یہ غلط ثابت ہوتا ہے تو اس پر کسی ندامت، کسی معذرت، کسی خجالت کا اظہار کرنے کی بجائے اگلے روز ایک اور بے بنیاد الزام بازار میں لے آتے ہیں اور پہلے سے زیادہ گلا پھاڑ کر اس کا اظہار کرتے ہیں ڈیڑھ دو سال تک 35 پنکچروں کے الزام کی تکرار اور آخر میں ’’وہ تو سنی سنائی بات تھی‘‘ نئے پاکستان اور نئی سیاست کے علمبرداروں کی غلط بیانیوں اور کہہ مکرینوں کے بیا ن کیلئے کالم کا دامن تنگ ہے۔ اور یہ جوعطاء بھائی نے کہا کہ عمران خان لٹیرا، ڈاکو، اور اس طرح کی دوسری گالیاں دے کر اپنی ہی پارٹی کے رہنمائوں کو شرمندہ نہ کریں۔ تو عرض ہے کہ اصل میں جسے شرمندہ ہونا چاہئے، اگر وہی شرمندہ نہ ہو تو دائیں بائیں والے شرمندہ کیوں ہوں؟ 30اکتوبر 2011ء کے سونامی جلسے میں انہوں نے موقع پرستوں، ابن الوقتوں چڑھتے سورج کے پجاریوں، مفاد پرستوں، موروثی سیاست کی علامتو ں کیخلاف اعلان جہاد کرتے ہوئے نئے پاکستان کیلئے نئی سیاست اور اس کیلئے نیا خون، نئے چہرے لانے کی بات کی۔ انہوں نے خود کو اور اپنی تحریک انصاف کو تبدیلی کی علامت قرار دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ سارے چہرے ان کے گرد ا ٓنے لگے جن کے خلاف، جن سے نجا ت کے لیے ا نہوں نے تبدیلی لانا تھی۔ اسی پریس کانفرنس میں ایک اخبار نویس کے سوال پر خان نے جواب دیا، کرپٹ معاشرے میں فرشتے کہاں سے لائوں؟ اس کے بعد کیسی شرمندگی، کہاں کی .Embarrasmentاب صرف electable ہونا ضروری تھا، اسکے بعد ادھر آپ تحریک انصاف میں شا مل ہوتے، ادھر آپ کے تمام گناہ معاف۔ ان دنوں ایک سابق مقتدر شخص کا نام بھی سننے میں آتا تھا بڑے چوہدری صاحب نے ڈرائی کلیننگ پلا نٹ کی پھبتی کسی ایک اور لطیفہ بھی مشہور ہوا، گناہوں کا احساس جاگا، ضمیر نے ا نگڑائی لی تو گناہگار ایک بزرگ کے پاس پہنچا اور عرض کیا، حضرت بہت گناہ کر لئے۔ پریشان ہوں کہ اب کیا کروں؟ تحریک انصاف میں شامل ہو جائو، بزرگ نے مشورہ دیا۔ اور وہ جو انٹرا پا رٹی ا لیکشن میں جعلی ووٹر لسٹوں، پیسے کے بےمحابا استعمال، ووٹوں کی خریدوفروخت اور بدترین دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے نیک نام اور ایماندار جسٹس وجیہ الدین کی زیر قیا دت خود خان کے قائم کردہ کمیشن نے ان تمام الزامات کی توثیق کے ساتھ جن چا ر شخصیات کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر پارٹی کی بنیادی رکنیت سے بھی نااہل قرار دیا تھا، وہ آج بھی خان کے نزدیک ترین ہیں اور خان انہیں پارٹی کا عظیم اثاثہ قرار دیتے ہیں۔ انہی میں سے ایک، اب حلقہ122میں نئے پاکستان کیلئے خان کے امیدوار ہیں ۔ اور ادھر خیبر پختونخوا میں گڈ گورننس کی اعلیٰ تر مثال، گزشتہ سال جناب شیر پائو کی قومی وطن پارٹی کو کرپشن کے الزام میں مخلوط حکومت سے نکال باہر کیا گیا (قومی وطن پارٹی کے وزراء اسے مبینہ طور پر بنی گالہ ا ور چیف منسٹر ہا ئو س سے آنے والی فرمائشوں سے انکار کی سزا قرار دے رہے تھے) خان کو دھرنا بغاوت کے دوران کنٹینر پر آفتاب شیر پائو کو کرپٹ ا ور دونمبری قرار دینے میں بھی کوئی عار نہ ہوتی۔ خیبرپختوانخوا کی کولیشن میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی رفاقت اب کمفرٹیبل نہیں رہی خیبر پختوانخوا میں جماعت کو جو وزارتیں ملیں اس پر بھی وہ خوش نہیں تھی۔ بلدیاتی انتخابات میں شکر رنجی اور بڑی اور جماعت نے اپنی سینئر کولیشن پارٹنر پر دھا ندلی کی چمپئن ہونے کا الزام لگا دیا۔ دیر میں صوبا ئی اسمبلی کے حالیہ ضمنی انتخاب میں جماعت اسلامی پیپلزپارٹی کے ہاتھوں وہ نشست کھو بیٹھی جس پر 1970 ء سے اسکی اجارہ داری چلی آ رہی تھی۔ جماعت نے تحریک انصاف کی بے وفائی کو بھی اس کا سبب قرار دیا۔ جماعت سے بڑھتے ہوئے فاصلے تحریک انصاف کو قومی وطن پارٹی کے قریب لے گئے اب اسی قو می وطن پار ٹی کو چار وزارتیں دی جا ر ہی ہیں۔ قاسمی صاحب اپنے مشورے میں ایک اور چیز نظر اندا ز کر گئے یہ کہ خا ن صاحب اپنے سیا سی حریفو ں سے باہر پڑ ی ہوئی دولت وطن لانے کا مطالبہ نہ کیا کریں کہ ان کے پہلو میں چوہدری محمد سرور بھی ہوتے ہیں۔ پنجاب کے سابق گورنر جو ’’دھاندلی کی پیداوار‘‘ اسی حکومت میں ڈیڑھ سال گورنر رہے۔ چوہدری صاحب کوئی چار دہائیاں قبل انگلستان کوچ کر گئے تھے۔ وہاں خوب محنت مشقت کی، پھر اپنے کاروبار کی طرف آئے۔ قدرت مہربان تھی کاروبار جم گیا تو سیاست کا رخ کیا۔ تین بار لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر منتخب ہوئے چوتھی با ر اپنے صاحبزا دے کو منتخب کروایا ا ور خود اہل وطن کی خدمت کے لیے پاکستان لوٹ آئے (بد قسمتی سے پار لیمنٹ کے حالیہ انتخابات میں گلاسکو کی یہ سیٹ ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ چوہدری صاحب کا اربوں کا کاروبار بھی وہیں ہے البتہ پنجا ب کی گورنری کے لیے انہیں دوہری شہریت، عطاصا حب کے بقو ل دوغلی شہریت) سے دستبردار ہونا پڑا۔ میا ں نواز شریف کے صاحبزادے بھی اسی طرح بیرون ملک کاروبار کر رہے ہیں۔ یہ کاروبار انہو ں نے جلاوطنی کے دور میں شروع کیا اور ہم تو سمجھتے ہیں کہ ا پنے ملک میں والد کی حکومت ہو تو بچو ں کو بیرون ملک ہی کاروبار کرنا چاہئے۔
تازہ ترین