• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایکشن سے بھرپور فلم کے مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے گردش کررہے ہیں لیکن ہماری بصارت اور بصیر ت کا یہ عالم کہ ہمیں نہ کچھ دکھائی دے رہا ہے اور نہ سجھائی، چنانچہ ہم نتائج، جو بہت مبہم نہیں، نکالنے سے گریزاں ہیں۔ جو کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہورہا ہے، وہ صرف ایک بحران نہیں، لفظ بحران اپنی وقعت کھو چکا۔ درحقیقت ہماری مختصر سی تاریخ انواع و اقسام کے چھوٹے بڑے، ہر رنگ کے، بحرانوںسے ہی عبارت ہے، لیکن موجودہ صورت ِحال اس ’’معمول‘‘ سے کہیں بڑھ کر ایک ایسے بحران کی شکل اختیار کرچکی ہے جس میں وزیر ِاعظم نواز شریف، عمران خان اور جنرل راحیل کا انفرادی مقدر ایک ثانوی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
ایک حوالے سے عمران خان کے احتجاج سے اس بریک ڈائون کا اظہار ہوتا ہے، لیکن اس کی اصل روح انتخابی مینڈیٹ رکھنے والی حکومت، جسے ملکی معاملات چلانے ہیں، اور ملک کے سب سے طاقتور ادارے، اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پائی جانے والی کشمکش ہے۔ آئینی اتھارٹی اور ریاست کی دفاعی تلوار باہم متحارب لیکن محض بھرم رکھنے کے لئے محاذآرائی کا تاثر دینے سے گریزاں۔ یہ کہنا الفاظ کا زیاں ہوگا کہ موجودہ حالات میں فوج سویلین اتھارٹی کے سامنے سرخم کردے۔ ایک مثالی آئینی صورت ِحال تو یہی بنتی ہے، لیکن حقائق کی دنیا کچھ اور ہے۔ پاکستان امریکہ یا برطانیہ نہیں، یہ انڈیا بھی نہیں، ہماری تاریخ اظہر من الشمس ہے کہ دنیا کے معمولات یہاں کام نہیں دیتے ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ کو اُن کی مسلح افواج نے قائم نہیں رکھا ہوا ہے، لیکن آئی ڈی ایف( اسرائیلی ڈیفنس فورسز) کے بغیر اسرائیل قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ یہودی ریاست طاقت اور تشدد کی بنیاد پر قائم کی گئی تھی، چنانچہ اس کے بقاکی ضمانت جمہوریت نہیں بلکہ فوجی طاقت ہے۔ چاہے وکلا اور گفتار کے غازی جو مرضی نعرے لگاتے رہیں، پاکستان کو بھی اس کی اسٹیبلشمنٹ نے، نہ کہ کاغذ کے کسی ٹکڑے نے، قائم رکھا ہوا ہے۔ آپ فوج کو منظر نامے سے نکال دیں، اسے کمزور یا عدم استحکام سے دوچار کردیں، تو پاکستان کسی بیرونی جارحیت کے بغیر داخلی طور پر ہی بلقان جیسے حالات سے دوچار ہوجائے گا۔ یہ ایک افسوس ناک اور تلخ مفروضہ ہے، لیکن بدقسمتی سے یہی سچائی ہے۔ تاہم اس پر شرمند ہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ بہت سے دیگر ممالک بھی فوج کی طاقت کے بغیر اپنا وجود قائم رکھنے سے قاصر ہیں۔ روس اس کی ایک واضح مثال ہے۔ اس کی فوج کمزور ہوچکی تھی، چنانچہ بورس یلسٹن کے دور میں روسی جمہوریت نے ملک کو اتنا نڈھال کردیا تھا کہ مغرب اس سے توہین آمیز لہجے میں بات کرتے ہوئے کسی خاطر میں نہ لاتا، لیکن روس نے اپنا کھویا ہواعالمی مرتبہ اُس وقت حاصل کیا جب اس کی فوج طاقتور ہوتی گئی۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی کو 1989ء میں ’’Tiananmen Square‘‘میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں نے کمزور کردیا تھا۔وہ مظاہرے جمہوریت اور حقوق کے لئے تھے۔ اگر وہ مظاہرے کامیاب ہوجاتے تو چین کا حشر بھی بورس یلسٹن دور کے روس جیسا ہوتا۔ اُن مظاہروں کو کچل دیا گیا، اوراس کے لئے پیپلز لبریشن آرمی نے کسی آئینی شق کا سہارا نہ لیا۔ مغرب اس واقعہ کو قتل ِعام قرار دیتا ہے، لیکن پیپلز لبریشن آرمی کی اس مداخلت، یا قتلِ عام، ٹینکوں کی نہتے عوام پر فائرنگ قتل ِعام ہی کہلائے گی، کے بغیر آج چین دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت نہ ہوتا۔ میں نے اس سے پہلے بھی ڈیگال کا حوالہ دیا ہے۔۔۔ ’’تلوار ہی دنیا میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے اور اس کی طاقت قطعی ہے‘‘۔ تلوار کی دھار نے ہی سلطنتیں قائم کیں، اسی نے دنیا کا نقشہ تشکیل دیا۔ درحقیقت زبانوں کا ارتقا، علم کا فروغ، تصورات کی آبیاری کے لئے درکار جگہ تلوار نے ہی تخلیق کی۔ اسلامی لشکر کی فتوحات کا ذکر پہلے، اسلامی علوم و فنون کی ترقی اور پھیلائو کا ذکر بعد میں۔
ہم موجودہ جمود تک کیسے پہنچے؟ نوا زشریف کا کہنا ہے کہ وہ ایک منتخب شدہ وزیر ِاعظم ہیں، چنانچہ اُنہیں حکومت کرنے دی جائے۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ اُن پر اعتماد نہیں کرتی،اور اُنہیں قومی معاملات چلانے کے لئے نااہل سمجھتی ہے۔ ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی کہانی نے یہ بحران پیدا نہیں کیا، اس نے صرف ایک برق کش کی طرح برقی رو کا تمام بہائو فوکس کر دیا۔ فوج کے اشتعال کی وجہ یہ تھی، اور اس کے لئے ہمیں آئی ایس پی آر کے لیکچر کی ضرورت نہیں، کہ اگر یہ حکومت اپنے ہی سیکورٹی اداروں کی توہین کرنے سے گریز نہیں کرتی تو کوئی عجب نہیں، یہ کچھ بھی کرگزر سکتی ہے۔ ان کے درمیان خلیج پہلے سے ہی موجود تھی، انگریزی اخبار کی کہانی نے اسے مزید کھلا کردیا۔ تو حماقت کا سفر جاری تھا۔ ڈان کی کہانی حماقت نہیں، اپنے پائوں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف تھی۔ جولیس سیزر کاوہ منظر یاد رکھیں، جب مشتعل ہجوم نے سینا (Cinna) کو پکڑ لیا تو اُس نے کہا وہ سازش کرنے والا سینا نہیںبلکہ شاعر سینا ہے، تو ہجوم میں سے کسی نے چلاّ کر کہا۔۔۔ ’’خراب شعر کہنے پر یہ بھی موت کا حقدار ہے، لٹکا دو اسے بھی پھانسی پر‘‘۔ مجھے یقین ہے کہ اس کہانی کی ذمہ داری پرویز رشید سے آگے کسی اور کے کندھے پر ہے۔ اُسے سزا ملنی چاہئے، لیکن سرکاری راز افشا کرنے پر نہیں بلکہ حماقت پر۔ یونانی ڈرامہ نویس یوریپڈیس کا کہنا یاد رکھیں۔۔۔ ’’جب دیوتا کسی کو تباہ کرنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں تو اُس سے عقل چھین لیتے ہیں‘‘۔ ان نازک لمحوں کے دوران ایسی کہانی کو صرف وہی آگے بڑھا سکتا ہے جو اپنی عقل اور سمجھ سے دستبردار ہوچکاہے۔ کیا اس میں بھی کوئی مشیتِ ایزدی ہے ؟
بحران کی وجہ متحارب فریقین کے درمیان باہمی نکتے کی غیر موجودگی ہے۔ بدنامِ زمانہ آرٹیکل 58-2Bکم ازکم ایسی صورتحال میں ایک راستہ تو کھلا رکھتا تھا، لیکن ہم نے خالص جمہوریت کے عشق میں نڈھال ہو کر اسے ختم کر دیا۔ اس بفر کی غیر موجودگی میں ہمارے پاس آپشنز محدود ہوگئے ہیں۔ جب ایک حکومت غیر آئینی رویے پر مصر ہو، جیسا کہ پاناما لیکس کی انکوائری سے بھاگنا، اور وہ آئین کی حرمت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ ہو توایسی صورت میں قوم کے سامنے دو میں سے کوئی ایک آپشن بچا ہے، یا عمران خان کا احتجاج، یا پھر ٹرپل ون بریگیڈ کی پیش قدمی۔ اس وقت کسی اور حلقے کی طرف سے مداخلت کا امکان دکھائی دیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ مداخلت فاضل جج صاحبا ن کی طرف سے آئے گی۔ وہ بہت فہم و فراست کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ’’تلوار‘‘ کی قطعی طاقت کا راستہ روکنے کی کوشش میں ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر براہِ راست مداخلت کا خطرہ ہوگا، اور ہم سب جانتے ہیں کہ وہ نقصان دہ ہے۔
تو اس وقت نوشتہ ٔ دیوار کیا ہے؟ پارلیمانی نظام ہمیں راس نہیں، مارشل لاہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوئے، ہمیں ان کے ادغام کی ضرورت ہے۔ ایک طاقتور اور فعال صدر، جس کے پاس 58-2Bکی طاقت ہو، اور اُسے براہِ راست ووٹنگ کے ذریعے منتخب کیا جائے۔ اُس کے پاس سروس چیفس کو نامزد کرنے کے اختیار ات ہوں۔ اور وفاق کے روز مرہ کے معاملات چلانے کے لئے ایک وزیراعظم اور اس کی کابینہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ موجودہ بحران سے کچھ مثبت امکانات سامنے آ جائیں۔ اگر جج صاحبان اور صاحبانِ شمشیر مل کر کام کریں، لیکن اس سے کسی کے خلاف سازش کی بو نہ آئے، صرف قومی مفاد میں ایسا ہو، اور پھر ہمارے سامنے پاناما لیکس راستہ متعین کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
تو کیوں نہ انہیں بنیاد بناکر کارروائی کریں اور ایک نئے آئینی نظام کی طرف بڑھ جائیں۔ عوام کی براہِ راست ووٹنگ سے ایک مقبول صدر کا انتخاب ہو جائے۔ محمد خان جونیجو کے علاوہ ہمارے زیادہ تر وزرائےاعظم آمرانہ رویوں کے حامل ہی ثابت ہوئے ہیں۔ ہمیں ایک بیلنس کی ضرورت ہے تاکہ صدر آمر نہ بن سکیں اور وزرائے اعظم ہر قسم کی لوٹ مار کے لئے آزاد نہ ہوں۔ اگر سیاست دانوں کی بہترین فعالیت ڈان کی کہانی کی صورت آشکارہے تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ایک بار پھر ناکام ہوچکے ہیں۔ چنانچہ یہ تاریکی ہمیں ایک صبحِ نو کا پتہ دیتی ہے۔
نوٹ
(جنگ ایڈیٹوریل کمیٹی کو معزز کالم نگار کی بیشتر آراء سے اتفاق نہیں ہے۔ یہ کالم ان کی ذاتی سوچ کا اظہار ہے جس کا ادارے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس تحریر سے اختلاف کرنے والوں کے لئے یہ صفحات حاضر ہیں۔ وہ اس پر اپنی رائے دے سکتے ہیں)





.
تازہ ترین