• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب تک فضا میں ولولہ انگیز بجلیاں دوڑرہی تھیں، ہر کوئی جوش سے وارفتہ تھا، لیکن اب دریا اتر چکا، عمران خان کی دارالحکومت بند کرنے کی دھمکی کے ساتھ وابستہ جذبات سردپڑ چکے ۔جوش و جذبات کو اس حد تک ہوا دینے کے بعد پی ٹی آئی کے حامی کیمپ پرمایوسی کی دھند چھانا فطری امر تھا ، وہ ڈرامائی تبدیلیوں کی توقع کررہے تھے ، لیکن واقعات کا دھارا بدل گیا۔ اور اب حکومت خوشی سے شادیانے بجاتے ہوئے سرشار ، اس کے لائوڈ اسپیکرز کی نقابت کے کیا کہنے۔عمران اور ان کے حامیوں پر استہزا کی سنگ باری جاری، طنزیہ کلام کے دفتر سیاہ، تنقید کی توپیں آتش بدہن۔
اگر جوش کے اسپ ِ تازی کو قدرے لگام دینا اور دوسری طرف سے مایوسی اور بے کلی کی چادر کو اتار پھینکنا ممکن ہو تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ان گرم و سرد جذبات کی ضرورت نہیں۔ یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی وہ مقصد حاصل نہیںکرسکی جس کے لئے نکلی تھی۔ حکومت اپنی جگہ پر موجود ، بلکہ اس کے رجائیت پسند اسے پہلے سے بھی زیادہ مضبوط دیکھ رہے ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کو بھی جنگی تجربہ حاصل ہوا ہے ۔ اس کے حامیوں نے اس طرح لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا سامنا کب کیا تھا؟مشکلات کے باوجود اس کے کارکن اپنے قائد کی رہائش گاہ، بنی گالہ کے اردگرد موجود رہے ۔
مجھے وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب مشرف دور میں نواز شریف اسلام آباد آئے۔ پی ایم ایل (ن) نے اپنے کارکنوں کو اسلام آباد ائیر پورٹ پر جمع ہونے کا کہا۔ میں نے ایئرپورٹ کے قریب کسی جگہ پر رات بھر ٹھہرنے کا انتظام کرلیا، لیکن اگلی صبح جب ایئرپورٹ کے گیٹ کی طرف گیاتو وہاں پی ایم ایل (ن) کے کارکنوں کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہ تھا۔ یہ درست ہے کہ اسلام آباد کی طرف آنے والے راستے بند کردئیے گئے تھے ، لیکن پی ایم ایل (ن) کی طرف سے کسی نے ان رکاوٹوں کو عبور کرنے کی نیم دلی سے کوشش بھی نہ کی ۔ چنانچہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اُنھوں نے پی ایم ایل (ن) سے کہیں بہتر جنگ لڑی ہے ۔ دراصل موجودہ حکمران پارٹی ہمیشہ سے ہی ریاستی طاقت کی جماعت رہی ہے ،ا سٹریٹ پاور دکھانے کی صلاحیت کبھی بھی اس کا خاصہ نہیں تھی۔ مشرف کے پورے دور میں ایسا کوئی لمحہ دیکھنے میں نہیں آیا جب پارٹی کچھ لوگوں کو جمع کرسکی ہو۔ اُن سے اپنے مضبوط گڑھ لاہور میں ایک تنکا بھی دہرا نہ ہوا، مال پر ایک سو آدمی بھی نہ نکلے ۔
بایں ہمہ، اسلام آباد بند کرنے کا عمران خان کا نعرہ ایک تزویراتی غلطی تھی، اس سے گریز کیا ہوتا۔ آپ ایک چیلنج کرتے ہیں پھر اسے پورا کریں، نہیں تو سبکی ہوگی۔ دارالحکومت کو بند کرنے کی دھمکی ایک چیلنج تھاجس نے حکومت کو ضروری اقدامات اٹھانے پر مجبور کردیا ۔ لیکن اس میں ناکام رہنے پر بھی پی ٹی آئی کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیںکیونکہ آپ جو بھی کہہ لیں، پاناما لیکس کا معاملہ تو عدالت ِ عظمیٰ میں چلا گیا ۔ حکمران خاندان معاملے کو سپریم کورٹ تک جانے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کررہا تھا۔ ہم نہیںجانتے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا لیکن شریف فیملی کو کچھ سوالوں کا جواب تو دینا ہوگا۔ جو بھی ہو، پاناما الزامات اپنی جگہ پر موجود ہیں، چنانچہ حکومت کے پاس خوشی کے شادیانے بجانے کی کوئی وجہ نہیں۔
پی ایم ایل (ن) خوشی سے بے حال تھی ، لیکن آپ دیکھ سکتے ہیں ، بقول ساحر ’’ دل کی دھڑکن میں تواز ن آچلا ہے ، خیر ہو‘‘، یقینا جب آپ پر بدعنوانی، اثاثے چھپانے ، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ جیسے الزامات ہوں تو رخش ِ دل کو لگام دینی ہی پڑتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو سکون کا سانس لینے کا ایک موقع مل گیا، لیکن یہ کہنا التباسی رجائیت ہوگی کہ خطرہ ٹل چکا۔خدشے کے خطر ہونے کے ڈر سے ابھی ان کے لبوں پر بھرپور مسکراہٹ سیم بر نہیں ہوئی، اور پھر عمران خان نے بھی کوئی بن باس تھوڑی اختیا رکیا ہے ۔ سپریم کورٹ میں سماعت شروع ، توکوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ سپریم کورٹ میں یہ سماعتیں کیا رخ اختیار کریں گی۔ کچھ ذہین وکلاکا کہنا ہے کہ معاملہ اتنا سہل نہیں، نیز یہ کافی وقت لے گا۔ کچھ دیگر ذہین وکلا کی بات سنیں تو اُ ن کا کہنا ہے کہ یہ بالکل دوٹوک اور سیدھا ساد ا معاملہ ہے ۔ لندن فلیٹس کی ملکیت کا تو جھگڑا نہیں، ہاں نوازشریف اپنی ملکیت کی تردید کررہے ہیں، لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کررہا ہے کہ ان کے تینوں بچے اس جائیداد سے مستفید (beneficiaries)ہیں۔ ایسے وکلا کا کہنا ہے کہ اس معاملے کا فیصلہ مہینوں میں نہیں، دنوں میں ہوجائے گا۔ چنانچہ اس کیس پر وکلا کی رائے منقسم ہے ۔
اب حالات مختلف ہیں۔ ماضی میں بات اور تھی جب بیرونی حالات اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے دکھائی دیتے تھے ۔ یقینا ذوالفقار علی بھٹو ٹرائل اور سزا کا فیصلہ کرتے ہوئے اُس وقت کی سپریم کورٹ نے کسی کی مرضی کو مقدم جانا۔ یہی وجہ ہے کہ ناقدین آج بھی بھٹو کی پھانسی کو ’’عدالتی قتل ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد جب جنرل ضیا الحق نے محمد خان جونیجو کو برطرف کردیا تو سپریم کورٹ نے اُنہیں بحال نہ کیا۔ اسی سپریم کورٹ سے بے نظیر بھٹو کو کوئی ریلیف نہ ملا جب صدر غلام اسحاق خان نے اُن کی حکومت کو برطرف کردیا۔ تاہم جب غلام اسحاق خان نے نواز شریف کا تختہ الٹا تو اُنہیں ریلیف مل گیا۔ حالات ایک جیسے ، لیکن نتائج مختلف۔ آج مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ حالات آج بھی مختلف ہیں۔ سپریم کورٹ قطعی طور پر آزاد، آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کررہی ہے ، کوئی ’’پیغام رساں ‘‘ مشکوک قسم کے پیغامات کی ترسیل کرنے کی جرات نہیں رکھتا۔ اسی لئے میں نے کہا کہ اس منصفانہ اور غیر جانبدار عدالت میں اس کیس کا کوئی بھی نتیجہ نکل سکتا ہے ۔اگر ماضی جیسے حالات ہوتے تو سپریم کورٹ لمبی تاریخیں دے سکتی تھی، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی فیملی، جن کے خلاف درخواستیں ہیں، کو بہت سخت ٹائم ٹیبل کا سامنا ہوگا۔ چنانچہ پی ٹی آئی کی جدوجہد کوناکامی سے تعبیر کرنا غلط ہوگا۔ اگر عمران خان اس مسئلے پر دبائو نہ ڈالتے ، اگر وہ اسے زند ہ نہ رکھتے ، اگر وہ احتجاج اوراسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکی نہ دیتے (اس سے قطع نظر کے دھمکی کا فوری ردعمل مایوس کن تھا) تو کیامعاملہ یہ رخ اختیار کرتا؟
کیا فاضل عدالت درخواستوں کی سماعت کرتی؟ موجودہ اوردیگر بہت سے ایشوز پر یہ پی ٹی آئی ہی ہے جس نے ملک میں کسی اپوزیشن کی موجودگی کا بھرم قائم رکھا ہوا ہے ، اور یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں۔ بھٹو کی پارٹی ، جو کبھی عظیم الشان سیاسی جماعت ہوتی تھی، کی طرف دیکھیں۔ عمران خان نے خورشید شاہ کو ’’ڈبل شاہ ‘‘ کا لقب دے رکھا ہے ۔ اگر شاہ صاحب کی کارکردگی دیکھیں ، ان کے گرم وسرد، زیادہ تر سرد، بیانات کو دیکھیں تو اس لقب میں کسی قدر سچائی توجھلکتی ہے ۔ ذوالفقارعلی بھٹو بھی اپنے مخالفین کو لقب دینے کے ماہر تھے ۔ 1970 ء کے انتخابات کے دوران اُنھوں نے ایئرمارشل اصغر خان کو ’’آلوخان‘‘ اورخان عبدالقیوم خان کو ’’ڈبل بیرل خان‘‘ قرار دیا تھا۔ عمران خان نے بھی اسی روایت کو زندہ کرتے ہوئے نوا زشریف کو ’’پاناما شریف ‘‘، اور اُن کے برادر ِ خورد ، خادم ِاعلیٰ کو ’’سرکس شریف‘‘ اور ’’شوباز شریف ‘‘کے القابات سے نوازا ہے۔ عمران پہلے جیسے مبتدی مقرر نہیں رہے ، اب اُن کا فن ِتقریر نکھرتا جارہا ہے ، اور موثر انداز میں عوام سے باتیں کرنا سیکھ گئے ہیں۔ چاہے فوجی آمریت ہویا سویلین، پاکستان کو یک جہتی نظام راس نہیں۔ من مانی پر اکسانے والے آمرانہ رویے ہمارے خون میں شامل ہیں۔ ایک مستحکم سیاسی نظام کے لئے ایک مضبوط اپوزیشن کا ہونا لازمی ہے ۔ ہم شروع میں پی ٹی آئی کا مذاق اُڑایا کرتے تھے لیکن اس نے بہت سی منازل طے کرلی ہیں۔ اب یہ ملک کی ایک مضبوط اپوزیشن پارٹی ہے۔ نتیجہ جو بھی نکلے، یہ پاکستانی سیاست کے پاور ہائوس، پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کے مقابلے پر خم ٹھونک کر میدان میں موجود ہے۔


.
تازہ ترین