• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک شام شہر حلب،جسے انگریزی والے الیپوAleppoکہتے ہیں، دنیا کے مسلسل آباد رہنے والے قدیم ترین شہروں میں سے ہے۔ جس کی تاریخ پانچ ہزار برس پرانی ہے۔ 190مربع کلو میٹر پر آبادحلب کی آبادی2005کی مردم شماری کے مطابق23لاکھ کے لگ بھگ تھی ۔ اگلی مردم شماری2015میں ہونا تھی کہ جنگ نے آلیا۔ بھلے وقتوں میں حلب سیاحوں کی جنت شمار ہوتا تھا ۔ 2007میں راقم کا ادھر سے گزر ہواتھا اور محدود وقت کے باوجود میزبان ہمیں دوجگہوں پر خاص طور پر لے کر گئے تھے ۔ جہاں گئے بغیر، بقول انکے، حلب آنا بے مقصد تھا ۔ اول ،شہر کی مرکزی مسجد، جامع حلب الکبیر‘‘ اور دوسرا حلب کا قلعہ۔ یوں تومسجد کی تاریخ خاصی قدیم ہے۔ موجودہ عمارت گیارھویں سے چودھویں صدی عیسوی کے درمیان تعمیر ہوئی ۔ اسکے عظیم الشان مینار کاسن تعمیر1090عیسوی بتایا جاتا ہے۔حالیہ جنگ نے مینار سمیت مسجد کے کئی حصوں کو خاصہ نقصان پہنچایا ہے تباہی کیلئے راکٹوں اور گرینڈوں کا استعمال ہوا ہے۔ اور جامع حلب الکبیر آجکل بند پڑی ہے، دوسری خاصے کی چیز حلب کا قلعہ تھا جوایک بلند ٹیلے پر واقع ہے اور اس کا شمار دنیا کے قدیم اور بڑے قلعوں میں ہوتا ہے۔ تعمیر کا آغاز تیسری صدی عیسوی میں ہوا اور پھر یکے بعد دیگرے آنے والے حکمرانوں نے حسب ضرورت صدیوں تک جاری رکھا ۔ موجودہ صدی کے آغاز کے ساتھ ہی سرآغا خاں ٹرسٹ نے کثیر سرمائے سے اسکی کنزرویشن کا اہتمام کیاتھا۔ کام ختم بھی نہ ہوا تھا کہ جنگ شروع ہوگئی اور کئے کرائے پرپانی پھر گیا ۔
ان تاریخی عمارتوں ہی کا ذکر کیا، پورے کا پورا حلب، جس کی پرورش یونانی، بازنطینی اور مملکوک تہذیبوں نے صدیوں تک کی تھی، ملبے کا ڈھیر بن چکا ۔ حلب سے ترکی کا بارڈر150کلو میٹر دور ہے۔ اور اس رہگزر کودنیا بھرکے سائیکلٹس کامحبوب روٹ شمار کیا جاتا تھا ۔ گائیڈز کی ہمراہی میں یہ سفر تین دنوں میں طے پاتا اور خوب ہلا گلا رہتا اور میلے کا سماں ہوتا تھا ۔ شہر کے بجٹ ہوٹل بھی دنیا بھر سے آئے سائیکل سواری کےشوقین سیاحوں سے بھرے رہتے تھے ۔ جس زمانے میں ہمارا ادھر سے گزر ہوا تھا ، اس اسپورٹس کے حوالے سے کوئی خصوصی ایونٹ ہورہا تھا ۔ جس میں ہم نے بھی گھنٹہ بھر کیلئے کرائے کی سائیکل پر شرکت کی تھی۔ بھلے وقتوں میں شام کی قومی آمدنی میں سیاحت کا حصہ12فیصد تھا ،جو اب خواب ہوا اور خیال ہوا۔
گزشتہ پانچ برسوں سے شام خوفناک قسم کی جنگ کا شکار ہے۔ تین لاکھ شہری لقمہ اجل بن چکے اور50لاکھ کے لگ بھگ دربدر ہیں۔ آئے روز بمباری ہوتی ہے اور بے گناہ شہری مررہے ہیں۔ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی اطلاعات بھی ہیں اور یوں شامیوں کیلئے ان کا اپنا وطن جہنم بن کر رہ گیا ہے۔ شام میں کون کس کے ساتھ لڑ رہا ہے؟ یہ ایک خاصا پیچیدہ سوال ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہر کوئی باہم دست وگریباں ہے۔ اور صف بندی واضح ہونے کے باوجود واضح نہیں۔ابتدا مارچ2011میں صدر بشارالاسد کے خلاف بغاوت سے ہوئی تھی ۔ جس میں اب دنیا جہاں کی دہشت گرد تنظیمیں اور علاقائی اور عالمی طاقتیں بھی ملوث ہوچکی ہیں۔ روس اور ایران صدر بشارالاسد کے ساتھ ہیں، تو باغیوں کی پشت پناہی داعش، القاعدہ، النصرہ کے ساتھ سات امریکہ بھی کررہا ہے۔ شام میں بڑھتی ہوئی روسی مداخلت ،بالخصوص بحرہ روم میں روسی بحری بیڑےکی موجودگی کے حوالے سے مغرب میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ حلب میں تباہی مچانے والے لڑاکا طیارے اسی بیٹرے سے اڑان بھرتے ہیں ۔تجزیہ نگاروں کے نزدیک روس کی یہ مہم جوئی بلاوجہ نہیں۔ وہ اسے ایک نئی سرد جنگ سے تعبیر کررہے ہیں۔ یہ ایک طرح کی پراکسی وار ہے یا پھر گریٹ گیم ، جس کے ذریعے روس اور امریکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کررہےہیں۔
اس صورت حال پر امریکہ کو گہری تشویش ہے، کیونکہ اس کا بہت کچھ دائو پر لگا ہوا ہے ۔ اگر بشارالاسد اور اسکے اتحادیوں نے میدان مارلیا توامریکہ کی سبکی ہوگی ۔ اسکی مڈل ایسٹ پالیسی پرایک بڑا سوالیہ نشان لگے گا ، اور خطے میں اسکے روایتی اتحادیوں کے مفادات بھی متاثر ہونگے ۔ قر آئن بتاتے ہیں کہ امریکہ کو تو شاید کچھ زیادہ فرق نہ پڑے ، کیونکہ اسکی پالیسیاں اصولوں کے نہیں، مفادات کے تابع ہیں۔ جس کا مظاہرہ یمن میں ہورہا ہے۔ امریکہ وہاں بھی موجود ہے، مگر جھتے بندی مختلف ہے۔ وہاں وہ باغیوں کے ساتھ نہیں، کثیر القومی اتحاد کا حامی ہے۔ جوصدر منصور ہادی کی مدد کررہا ہے۔ مڈل ایسٹ میں دوطرح کی امریکی حکمت عملی کے سبب خطے میں اسکے اتحادیوں کو پریشانی ضرور ہوگی ۔
شام کی جنگ میں سب سے زیادہ تباہی حلب کی ہوئی ہے۔ گلی کوچوں میں بارود کی بوبھری ہوئی ہے اور ہر طرف موت کا راج ہے۔ بے بسی کا یہ عالم کہ زندگی کی بازی ہار جانے والوں کو ٹھکانے لگانے میں بھی دشواری پیش آرہی ہے۔ ان سے بھی بدترحالات ان بدنصیبوں کے ہیں ، جوشدید زخمی ہیں اور گوناگوں بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ ان کی نگہداشت کیلئے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی ہوتی جارہی ہے۔ کیونکہ معالج خود بھی جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں۔ کٹے پھٹے جسم اسپتالوں میں آتے ہیں تو انہیں سمجھ نہیں آتا کہ علاج کہاں سے شروع کریں۔ مگر ایک حالیہ محکمانہ ہدایت نامے نے ان کی مشکل آسان کردی ہے، اور وہ زخمی اعضا بے دریغ کاٹ رہے ہیں۔ کیونکہ علاج کے ذریعے انہیں صحت یاب کرنے کا ان کے پاس وقت ہے اور نہ وسائل۔ مقصد ایک ہی ہے کہ زندگی بچ جائے جو خواہ معذوری کی ہی کیوں نہ ہو زیادہ برا حال بچوں کا ہے، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ حلب میں موجود امراض طفلان کا آخری ڈاکٹر بھی ہلاک ہوچکا قارئین کرام نے کچھ عرصہ پہلے پانچ سالہ شامی بچےاومران کی خون میں لت پت وہ تصویر ضرور دیکھی ہوگی ۔ جس میں وہ بیک اوپن ایمبولینس میں اکڑوں بیٹھا،سفاک زمانے کوحیرت سے دیکھ رہا ہے۔ مغرب سمیت پوری دنیا ننھی سی جان کی اس بے بسی پربہت دکھی ہوئی تھی۔ اور وہ ہفتوں میڈیا کا موضوع رہا اور پھر رات گئی، بات گئی ، والا معاملہ ہوگیا ۔


.
تازہ ترین