• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مولانا ابوالکلام آزاد نے جو ہندستان میں نیشنلسٹ مسلمانوں کے لیڈر تھے اور قیام پاکستان میں مسلمان قوم کی جدوجہد کو مناسب خیال نہیں کرتے تھے وہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے نکتہ نگاہ کو مناسب اور صحیح سمجھتے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب ’’آزادی ہند‘‘بہت مقبول ہوئی مولانا نے اپنی کتاب میں بہت سے اہم واقعات سے پردہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب کے تیس صفحات پروفیسر ہمایوں کبیر جو ان کے سیکرٹری بھی تھے کے ذریعے لاکر میں رکھ دیئے اور یہ نصیحت کی کہ ان کی وفات کے بعد انہیں کھولا جائے پچیس سال بعد خیال کیا جاتا ہے کہ مولانا نے لکھا تھا ان صفحات میں کہ اگر تعصب اور مذہبی انتہاء پسندی یہی فضاء برقرار رہی تو ہندوستان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔ یہ تیس صفحات بھارت میں یہ خیال عام ہے کہ حکومت نے تبدیل کر دیئے ہیں بہرحال یہ ابھی تک ایک راز ہے اور اس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ وزیراعظم اور ڈاکٹر کرن سنگھ صدر ہوں گے یہ بات مولانا نے آئین کی دفعہ 370میں لکھی ہے جو اس بات کی دلالت کرتی تھی کہ کشمیر میں رائے شماری ہوگی اور کسی غیر کشمیری کو وہاں جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ کو وزیراعظم اور گورنر کو صدر کہاجائے گا۔ اسی طرح شیخ عبداللہ وزیراعظم اور ڈاکٹر کرن سنگھ صدر ہو گئے، ساتھ ہی ہندوستانی قیادت نے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کی پارٹی کو جو اس وقت آر ایس ایس (RSS) کہلاتی تھی اشارہ دے دیا کہ وہ اس کے خلاف تحریک کا آغاز کردیں اور اس وقت کے صدر ڈاکٹر شاما پرشاد مکرجی نے اس تحریک کا آغاز کردیا۔ پورے ہندوستان سے ہزاروں رضاکار ڈاکٹر مکرجی کی قیادت میں کشمیر چل پڑے جن میں موجودہ وزیراعظم نریندر مودی بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر شاما پرشاد مکرجی جو ہندوستان میں فرقہ پرست جماعت آر ایس ایس کے علمبردار تھے سری نگر جیل میں بیماری سے مر گئے، ان کی موت کا الزام شیخ عبداللہ پر لگایا گیا یہ کشمیریوں کے خلاف ایک بڑی سازش تھی۔ شیخ عبداللہ کو گرفتار کر کے دو ہزار میل دور کوڈی کینال پہنچا دیا گیا، ان کے منشی بخشی غلام محمد کو کشمیر کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ ایک طویل نظربندی کے بعد ہندوستان نے کشمیر کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے شیخ عبداللہ کو پاکستان بھیجا اور انہیں اس شرط پر راضی کیا گیا کہ وہ پاکستانیوں کو خودمختار کشمیر پر راضی کرلیں گے۔ اسی دوران بخشی غلام محمد کو کشمیر کا وزیراعظم بنا دیا گیا۔ میں بحیثیت جنرل سیکرٹری کونسل مسلم لیگ اور خواجہ محمود احمد منٹو ایڈووکیٹ بحیثیت صدر پاکستان مسلم لیگ شیخ عبداللہ سے ملے اور ان سے کشمیر کے مسئلے پر بات چیت کی۔ راولپنڈی میں انہوں نے ایک جلسہ عام سے خطاب بھی کیا، جس میں راولپنڈی کے شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ شیخ عبداللہ کا زبردست استقبال کیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے خود ایئر پورٹ پر ان کا استقبال کیا دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈر بھی ان سے ملے۔ اسی دوران ہندوستان میں پنڈت جواہر لعل نہرو وزیراعظم ہندوستان دہلی میں انتقال کر گئے۔ یہ تمام حقائق شیخ عبداللہ کی کتاب ’’آتش چنار‘‘ اور اس سے ملتی جلتی باتیں مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی لکھی ہیں۔
کشمیر کو اپنے ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کردیا۔ شیخ عبداللہ اپنا مشن ادھورا چھوڑ کر جواہر لعل نہرو کی وفات پر واپس ہندوستان چلے گئے۔ کشمیر کا مسئلہ ایک دفعہ پھر لٹک گیا۔ یو این او نے ڈاکٹر گراہم کو ہندوستان پاکستان کے دورے پر بھیجا مگر کانگریسی قیادت نے لعل بہادر شاستری وزیراعظم کی قیادت میں پاکستان پر حملہ کردیا اور کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں رہا۔ہمارے یہاں کشمیر کے مسئلے پر اتنی توجہ نہیں دی گئی اور کشمیر کمیٹی کے قیام نے کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا۔ اب کشمیر میں کشمیریوں کی تیسری نسل تحریک آزادی کشمیر چلا رہی ہے۔ میں دعویٰ سے یہ بات کہتا ہوں کہ کشمیر میں بین الاقوامی طور پر ہندوستان یہ جنگ ہار چکا ہے اور کشمیر کی آزادی ناگزیر ہوچکی ہے۔ پاکستانی پرچم نے تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی روح پھونک دی ہے مقبوضہ کشمیر میں نئی نسل ایک نئی تاریخ مرتب کر رہی ہے آزادی کی تحریک نے انگڑائی لی ہے ہندوستان کی آٹھ لاکھ فوج کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبا نہیں سکتی تاریخ کا فیصلہ اٹل ہے فرانس نے الجزائر میں ڈچ حکومت نے انڈونیشیا میں اور امریکہ نے ویتنام میں یہ تجربے کرکے دیکھ لئے ہیں۔
فرانس نے تو الجزائریوں کے خلاف اپنی چھاتہ بردار فوج بھی اتار دی تھی مگر اسے آزادی دینی پڑی۔ میں پاکستان اور کشمیر کے سیاسی رہنمائوں سے گزارش کروں گا کہ وہ بین الاقوامی طور پر صرف کشمیر کمیٹی پر اکتفا نہ کریں بلکہ تمام اہل قلم، دانشور اور بین الاقوامی فورموں پر اثرانداز ہونے والے رابطوں کو تیز کریں، یہ یقین سے بات کہہ رہا ہوں کہ ہندوستانی قیادت مسئلہ کشمیر کو زیادہ دیر تاخیری حربوں کے ذریعے دبا نہیں سکے گی۔ اب کشمیر کے مسئلے پر کتابوں میں، دانشوروں کے ذریعے کشمیریوں کی حمایت میں آزادی کا تصور اجاگر ہو رہا ہے۔
تازہ ترین