• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی دوست اورسابق وزیرپٹرولیم ڈاکٹرعاصم علی کے کئی قصور ہیں ایک تووہ پیپلزپارٹی میں ہیں، دوسرے انہوں نے مبینہ کرپشن کی ہے اورتیسرے وہ خیبرپختونخوا میں پیدا نہیں ہوئے۔ تیسرے قصور تک محدود رہتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگروہ خیبرپختونخوا میں پیدا ہوتے، انہوں نے کرپشن بھی کی ہوتی توپکڑے جانے کے ساتھ ہی جیل سے باہر کے اسپتال میں داخل ہونے کے حقدارٹھہرتے اورپھروہاں جتنا جی چاہتے رہتے۔ خیبرپختونخوا میں آپ چاہے جتنی بھی کرپشن کرلیں، منشیات کا دھندہ کرتے ہوئے پکڑے جائیں یا فورس کے سربراہ کے طورپرغلط اسلحہ خریدنے میں ملوث ہوں پکڑے جانے کے ساتھ ہی آپ کا ٹرائل شروع ہونے سے پہلے ہی آپ کاپہلا حق اسپتال میں داخل ہونا ٹھہرتا ہے اورپھروہ بیماری جوا ٓپ کو لاحق ہونہ ہواس کا علاج شروع ہوجاتا ہے اورآپ اس کے علاج کے لئے اسپتال میں ٹھہرسکتے ہیں۔ ایک طویل فہرست ہے ایسے لوگوں کی جواس وقت بھی کرپشن کے الزامات کے تحت زیرتفتیش ہیں یا جیل سدھارچکے ہیں اوراب بھی یا توجیل میں رہنے کی بجائے اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں یا جیل میں بھی ہیں توشاہانہ طرززندگی گزاررہے ہیں۔ جیل حکام کے بھی کیا کہنے، عام قیدیوں کو مجموعی طورپرخارش ہوچکی ہوان میں کالایرقان پھیل رہا ہو یا انہیںایڈزہورہا ہویہ حکام اورجیل کے ڈاکٹردستیاب نہیں ہوتے ہاں البتہ کرپشن میں پکڑے جانے والے ان ’’خاص قیدیوں‘‘ کو اسپتال ریفرکرنے کی دستاویزات پردستخط کرنے کے لئے وہ ہروقت دستیاب ہوتے ہیں اورپھریہ خاص قیدی جیل سے باہرکے اسپتالوں میں رہتے ہیں جہاں کے کمرے ان کی بیٹھک ، ڈرائنگ روم اورحجروں کی طرح آباد ہوجاتے ہیں ۔جیل کا بھی عجیب قصہ ہے ایک ایک افسراوراہلکارپتہ نہیں کیسے ہرحکومت میں کسی نہ کسی کی اشیرباد سے ایک ہی جگہ تعینات رہتا ہے جہاں پرپیسہ بنانے کی مشین کے طورپروہ نہ صرف خود کماتا ہے بلکہ اوپربھی پہنچاتاہے۔ ایک ایک قیدی کو ملاقات کے بدلے جیل حکام کو کیا دینا پڑتا ہے یہ ایک الگ داستان ہے۔
بات ہورہی تھی ڈاکٹرعاصم کی جنہوں نے اربوں روپے کی مبینہ کرپشن کی ہے ان کو ہمارا مشورہ ہے کہ اپنے وکیل کے ذریعے عدالت میں درخواست دیں اورخود کوپشاورکی سینٹرل جیل میں منتقل کریں، جہاں اسپتال میں داخل ہونے کا ایک ہی پیمانہ ہے کہ آپ نے کرپشن کی ہو یا منشیات کے بڑےا سمگلرہوںجیل میں رہنے کی بجائے پھرآپ مہینوں سالوں اسپتال میں ہی پڑے رہیں۔
اس وقت بھی صوبے میں وہ وزیرجن کوکرپشن میں خود گرفتارکروانے کے دعوے موجودہ حکومت کرتی ہے کافی عرصے سے لیڈی ریڈنگ اسپتال میںزیرعلاج ہیں اورانصاف کی اس حکومت میں انہیں صرف اس لئے اسپتال سے جیل منتقل نہیں کیا جارہا کیونکہ مبینہ طورپر ان سے راضی نامے کی کوششیں جاری ہیں اوراگریوں ہوگیا تووہ بدلے میں زبان بندی پرراضی ہوجائیں گے ۔ وہ بیوروکریٹس بھی اسپتال میں زیرعلاج ہیں جنہیں احتساب کمیشن نے گرفتارکیا تھایہ سب اس لئے اسپتال میں زیرعلاج ہیں کہ جیل میں رہنا ان کومنظورنہیںاوراسی جیل میں ایسے بھی حوالاتی ہیں جنہیں صرف خدمت کے لئے چارچارحوالاتی دستیاب ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ خیبر پختونخوا میں پولیس کے لئے اسلحہ خریداری کےا سکینڈل کے ملزم اوراس وقت کے آئی جی اسی جیل میں ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے دہشت گردوں سے لڑنے والی پولیس کے لئے نہ صرف ناقص اسلحہ خریدا بلکہ ان کے لئے وہ بلٹ پروف جیکٹس بھی خریدیں جن سے گولیاں پار ہوتی رہیں اورسپاہی مرتے رہے۔ یہی اپنے کزن ڈی آئی جی کے نام سے بننے والے ٹرسٹ کے صدربھی رہے جس کے بارے میں شنید ہے کہ وہاں پربھی فنڈزکوغلط طور پر استعمال کیا گیااوراب اس کی بھی تحقیقات ہونگیں۔ ٹرسٹ کے صدرکی کرپشن کے الزام میں گرفتاری کے باوجود گزشتہ مالی سال کے دوران صوبائی حکومت نے کھیلوں کے لئے مختص 75فی صد فنڈز اس ٹرسٹ کوجاری کئے جس کا اعتراف صوبائی حکومت خود اسمبلی میں ایک تحریری جواب میں کرچکی ہے صوبائی حکومت کے اس اقدام نے لوگوں کو حیران کردیا کہ سوالات کی زد میں رہنے والے اس ٹرسٹ کو ہی سارے فنڈز کیوں دیئے گئے۔ ٹرسٹ کی تحقیقات ہوں توشاید اوربھی گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں۔
جیل میں اعلیٰ اورعام قیدیوں کے بیچ کا فرق ختم ہوکے ہی نہیں دے رہا۔ ایسے میں ڈاکٹرعاصم جیسے حوالاتیوں اورقیدیوں کو چاہئے کہ وہ خیبرپختونخوا کی جیلوں میں خود کو منتقل کروائیں اوروی آئی پی قیدی کی حیثیت سے اسپتال کے وی آئی پی رومز میں زیرعلاج ہونے کا استحقاق حاصل کریں۔ اسپتال کے پرتعیش اورامیرلوگوں کی جائے پناہ بولٹن بلاک میں ایک منشیات فروش کئی ماہ تک زیرعلاج رہا اورکسی کی جرات نہ ہوسکی کہ وہ اسے واپس جیل بھیج سکے۔ کیا یہ سب مفت میں ہوتاہے؟ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ سب کو پتہ ہے کہ مٹھی گرم کئے یا وی آئی پی ا سٹیٹس حاصل کئے بغیرایسا ممکن نہیں۔ ایک قیدی یا حوالاتی کتنا عرصہ اسپتال میں رہ سکتا ہے، قانون کیا کہتا ہے وہ توقانون پرعمل کرنے والے جانیں لیکن ایک بات جوسب کو نظرآتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی جیب میں کچھ رقم ہویا آپ کچھ خاص لوگوں کے رشتے داریادوست ہوں بس پھر مزے ہی مزے۔ ایسے میں اگردوسرے صوبوں کے قیدی اورحوالاتی بھی ان پیکجز سے کچھ فائدہ اٹھالیں توکیا مضائقہ ہے۔
تازہ ترین