• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں تشدد اور عدم برداشت کی جو لہر چلی ہے ، وہ اہل دانش کے لئے انتہائی غمزدہ صورتحال کا تقاضا کرتی ہے۔ نریندر مودی کی سرکار بننے کے بعد ان کے پچھلے رویئے کو دیکھ کر خیال تھا کہ اب شاید مرکزی حکومت میں آنے کے بعد ان کی سیاست کا انداز بدل جائے گا اور وہ اپنے آپ کو صحیح نمائندہ سمجھیں گے، مگر ان کا سلوک اپنے مخالفین کے ساتھ بجائے نرم پڑنے کے سخت ترین ہوتا جارہا ہے، جس کے اشارے مختلف مواقع پر مل چکے ہیں۔ پاکستانی فنکاروں اور ادیبوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس نے ہندوستانی سیاست اور جمہوریت اور سیکولر ازم کو دھندلا دیا ہے، وہ لوگ جو ہندوستانکو ایک سیکولر اور کھلے ذہن کا ملک سمجھتے تھے انہیں بھی اب ان کے جمہوری نظام سے نفرت ہونے لگی ہے۔میری یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہندوستانی سرکار کے نمائندے اور ان کی پارٹی کے عہدے دار حالات کو صحیح تناظر میں کیوں نہیں دیکھتے۔ ہے معاملے میں ان کا رویہ بہت ہی جارحانہ ہے، انہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ دنیا پر ان حرکات کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں۔ آج کل حالات اس طرح تیزی سے آگے بڑھ رہےہیں کہ ایک منٹ میں میڈیا پر دکھایا جانے والا واقعہ لمحوں میں پوری دنیا دیکھ لیتی ہے ۔ بھارتی حکومت کے کارندوں کو یہ معلوم نہیں کہ اب دوغلی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ جب پاکستان بن رہا تھا اور اس کی تحریک برصغیر میں زوروں پر تھی اس وقت قائداعظم محمد علی جناح نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ یہ دونوں قومیں جن کا کلچر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ مذہبی اعتقادات مختلف ہیں، اکٹھے نہیں چل سکتے۔ قائداعظم، علامہ اقبال اور دیگر مسلم رہنمائوں نے اسی یقین کے ساتھ تقسیم کا فارمولا قبول کرلیا کہ اس لکیر کے کھینچنے کے بعد دونوں ملکوں کے عوام خوش دلی کے ساتھ رہیں گے مگر ہندوستان کی مختلف سیاسی قیادتوں نے اس فارمولے کو تہہ دل سے قبول نہیں کیا، ویسے تو وہاں کی قیادت مختلف اقلیتوں کے خلاف کمربستہ رہتی مگر اس کا سب سے بڑا نشانہ مسلمان ہی بنتے ہیں۔ تقسیم کے بعد ہندوستان میں آٹھ ہزار ہندو مسلم فسادات ہو چکے ہیں۔ویسے تو دیگر اقوام کے لوگ بھی سکون سے نہیں رہ سکتے مگر گرجا گھروں پر بھی حملے ہوئے، انہیں آگ لگائی گئی ، اس کے علاوہ دیگر اقلیتوں پر بھی جبر اور ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ پاکستان کا قیام اسی ذہنیت کی وجہ سے مطالبہ کی بجائے تحریک بن گیا اور آج بھی ہندوستان کے دانشور حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا قیام کانگریس اور دیگر ہندو جماعتوں کے رویوں کی وجہ سے مطالبہ بنا۔ فسادات کا سب سے بڑا مرکز نریندر مودی کا صوبہ گجرات ہے، ان فسادات کی تصاویر پاکستانی اخبارات میں بھی شائع ہوچکی ہیں، یہ سب وہ واقعات ہیں جن کی خبریں اخبارات اور دنیا کے چینلوں پرآچکی ہیں۔پاکستان نے بھارت کو جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنےکی پیشکش کی جو بھارتی حکومت نے نہیں مانی، پاکستان نے اپنے تنازعات پُرامن طور پر طے کرنے کیلئے معاہدے کئے، مگر کسی ایک معاہدے پربھی ہندوستان کی حکومت نے عمل نہیں کیا، بلکہ غرور اور تمکنت کے انداز میں ہمیں جواب دیئے گئے۔ نہری پانی کا معاہدہ اقلیتوں کے حقوق کا معاہدہ اور دیگر بہت سے معاہدے کئے گئے مگر بھارتی حکومت نے ان معاہدوں کی تکمیل کی پروا نہیں کی، اب ہندوستان میں ’’ مسلم انڈیا‘‘ کی تحریک چل رہی ہے کیونکہ مسلمان اقلیت کو اور دیگر اقلیتوں کو جب انصاف نہیں ملے گا توپھر مطالبے تحریک کی شکل اختیار کرجائیں گے اس لئے اس تحریک کو بھی مسلم انڈیا کی تحریک کہا جارہا ہے۔ بھارتی سیاستدان اپنے پڑوسی عوام پر خوف طاری رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
قومیں جب مایوسی کی حد تک پہنچ جاتی ہیں پھر ان کے افراد موت سے نہیں ڈرتے اقلیتوں کے ساتھ ہونے والا سلوک اب بین الاقوامی میڈیا پر بھی دکھایا جارہا ہے۔ بھارتی طرز سیاست تشدد پر مبنی ہے۔ پاکستان دشمنی کی آڑ میں کرکٹ میچ اور دیگر اہم معاہدوں پر بھی عمل نہیں ہو رہا ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت اور اس سے بیشتر حکومتیں دنیا کو یہ باور کرا رہی ہیں کہ ہم ایک امن پسند ملک ہیں، مگر صورتحال اگر یہی رہی تو شاید تیسری جنگ عظیم کی بنیاد اسی خطے میں پڑے، ہمارے یہاں جب بھی بھارت سے آنے والے پارلیمانی دانشوروں، صحافیوںکا خیرمقدم کیا گیا ہے، اس سے بھارت کو سبق سیکھنا چاہئے۔ پاکستان امن چاہتا ہے اور مسئلہ کشمیر کو بھی امن کے ذریعے ہی حل کرنا چاہتا ہے ، اگر یہ خواہش پوری نہ ہوئی تو پھر شاید معاملات کو حل کرنے کا طریقہ جنگ ہی ہوگا۔
تازہ ترین