• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالات پُرسکون نظر آرہے تھے،ملک میں استحکام کا تاثر گہرا ہوتا جارہا تھا۔ 26اکتوبر کے زلزلے کے بعد وزیراعظم خیبر پختونخوا کے متاثرہ علاقوں میں پہنچے۔ متاثرین کیلئے ریلیف کو پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بنانے کی بجائے انہوں نے وہی کیا جو ملک کے وزیراعظم (اور قومی لیڈر) کے طور پر انہیں زیبا تھا۔ امریکہ سے واپسی پر وہ لندن میں تھے، زلزلے کی خبر پاتے ہی اپنا قیام مختصر کر کے وطن واپسی کی راہ لی اور اسلام آباد سے شانگلہ جاپہنچے۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک اس روز عمران خان کے دورے میں مصروف تھے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعلیٰ سے مشاورت کے بعد متاثرین ِ زلزلہ کیلئے ریلیف پیکج کا اعلان کریں گے۔ اگلے تین چار ایام میں وزیراعلیٰ، وزیراعظم کے ساتھ تھے اور انہی کی مشاورت کے ساتھ وزیراعظم نے ریلیف پیکج کا اعلان کیا اور اس پر عملدرآمد بھی شروع ہوگیا۔ 31اکتوبرکو ملک کے دو بڑے صوبوں(پنجاب اور سندھ )میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ پنجاب میں تقریباً 4کروڑ آبادی پر مشتمل 12اضلاع میں لڑائی جھگڑے کے معمولی واقعات کے سوا، پولنگ کا دِن بحیثیت ِ مجموعی پُرامن رہا( تین چار اموات، انتخابی مہم کے دوران اور پولنگ کے بعد ہوئیں۔خیبر پختونخوا میں ڈھائی کروڑ کی آبادی پر مشتمل، بلدیاتی انتخابات کے دوران تیس، بتیس لوگ قتل ہوگئے تھے)۔ سندھ کے 8اضلاع میں بھی، خیرپور سانحہ کے سوا، امن وامان کا کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہ ہوا اور اب 19نومبر کو پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی تیاریاں ہیں۔ جمہوریت گراس روٹ تک جارہی ہے۔ 9نومبر کو اسپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب کا مرحلہ بھی بخیروخوبی انجام کو پہنچا۔ حکومتی اُمیدوار سردار ایازصادق 268ووٹوں کے ساتھ دوبارہ منتخب ہوگئے تھے۔ انہیں حکومت کی حلیف جماعتوں اور حزبِ اختلاف کی پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے علاوہ تحریکِ انصاف کی اتحادی، جماعتِ اسلامی اور شیرپاؤصاحب کی قومی وطن پارٹی کی تائید بھی حاصل تھی۔ تحریکِ انصاف کے 4ارکان نے بھی انہیں ووٹ دیا تھا۔ ضربِ عضب کیساتھ، معیشت کی بحالی حکومت کی اوّلین ترجیح ہے۔ اس کیلئے سرمایہ کاری کانفرنسیں ہورہی ہیں۔ 4نومبرکو وزیراعظم نے اسلام آباد میں سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کیا۔6نومبر کووہ لودھراں اور سیالکوٹ میں کسانوں کو امدادی چیک تقسیم کرنے کی تقاریب میں موجود تھے۔وزیراعلیٰ شہبازشریف کی دعوت پر 7نومبر کو لاہور میں منعقدہ انویسٹمنٹ کانفرنس میں چینی اور ترک کمپنیوں کے ساتھ سرمایہ کاری کے 150معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ 10نومبر کو وزیراعظم نے بلّوکی میں گیس سے چلنے والے 1223میگاواٹ منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا۔ ان ہی دِنوں غیر ملکی سربراہوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ بیلاروس کے وزیراعظم آندرے کوبیکوف کی اسلام آباد آمد پر اقتصادی تعاون کے روڈمیپ سمیت18 سمجھوتے طے پائے ۔ تاجکستان کے صدر امام علی رحمان کے دورے میں مشترکہ بزنس کونسل کے قیام سمیت8 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔ 11نومبر کو وزیراعظم کراچی میں دیوالی کی تقریب کے علاوہ پاک بحریہ کی مشقوں میں شریک ہوئے۔
اندرون و بیرونِ ملک ، پاکستان میں استحکام کا تاثر گہرا ہورہا تھا، معیشت کی بحالی کیلئے جو شرطِ اوّل کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس سے اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کیلئے فضا سازگار ہوتی ہے۔ اسی دوران کور کمانڈرز کانفرنس کے اختتام پر آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز نے ایک طوفان سا اُٹھا دیا جس میں گڈ گورننس کے حوالے سے عسکری قیادت کے عدمِ اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ اس سے ایک روز قبل وزیراعظم کی زیرصدارت سیاسی و عسکری قیادت کا طویل اجلاس ہوچکا تھا۔ دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا جائزہ ایجنڈے کا بنیادی نکتہ تھا۔ اجلاس میں جنرل راحیل شریف کے دورۂ امریکہ (16تا19نومبر) کیلئے حکمتِ عملی پر بھی غوروخوض کیا گیا۔ (واشنگٹن سے آمدہ خبر کے مطابق پینٹا گون کا کہنا ہے کہ جنرل راحیل شریف اپنی خواہش پر امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ امریکی محکمۂ دفاع کے حکام پاکستانی سفارتخانے کے ساتھ مل کر جنرل راحیل شریف امریکی حکام کے ساتھ موزوں ملاقاتیں طے کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں)جیسا کہ سیکورٹی کے حوالے سے ایسے اجلاسوں /ملاقاتوں کی تصاویر میں نظر آتا ہے۔ اس اجلاس میں بھی آرمی چیف، وزیراعظم کے ’’مقابل‘‘ تشریف فرما تھے۔ سائیڈ پر ایک صوفے پر وفاقی وزرأ چوہدری نثار،اسحاق ڈار اورمشیر خارجہ سرتاج عزیزاورنیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل ناصر جنجوعہ اورمعاونِ خصوصی طارق فاطمی اور دوسرے صوفے پر چیف آف جنرل اسٹاف جنرل زبیر محمود حیات، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر اور ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل عاصم سلیم باجوہ تشریف فرما تھے۔ نشستوں کی ترتیب بتا رہی تھی کہ سیکورٹی کے حوالے سے اِن میٹنگوں میں، کتاب میں درج پروٹوکول کے برعکس عسکری قیادت کو وزیراعظم کتنی اہمیت دیتے ہیں۔
’’سول ، ملٹری ریلیشن شپ ‘‘ کے حوالے سے وزیراعظم نوازشریف اپنے گزشتہ دونوں ادوار میں بہت حساس رہے ہیں ۔ اسے ’’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کہنا تو شاید درست نہ ہو، لیکن آئین کے مطابق سویلین بالادستی پر وہ ہمیشہ مُصر رہے (اور اس کی قیمت بھی چکاتے رہے ہیں)۔ لیکن اب معاملہ مختلف ہے۔ قوم دہشت گردی کے خلاف حالتِ جنگ میں ہے، تو اس میں فوج کے کردار کی اہمیت کا انہیں بخوبی احساس ہے۔ چنانچہ جنرل کیانی کے باقی ماندہ 9ماہ میں وہ اِن کیساتھ قریبی رابطے میں رہے اور جنرل راحیل شریف کیساتھ بھی وہی معاملہ ہے۔ گزشتہ رات’’جیو‘‘ پر اعزاز سید بتارہے تھے کہ 6جون 2013کو وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھانے کے بعد، اِس سال مئی تک جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف سے وزیراعظم کی 62ملاقاتیں ہوئیں(ان میں سے صرف20میں وزیردفاع بھی موجود تھے)۔ تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ انہوں نے وزارتِ دفاع بھی اپنے پاس رکھی تھی کہ پرائم منسٹر ہاؤس اور جی ایچ کیو براہِ راست رابطے میں رہیں، احمد فراز کے الفاظ میں، کیوں اتنے حجابوں میں ملیں؟ وہ تو سپریم کورٹ نے ایک کیس میں اگلی پیشی پر وزیردفاع کو بھی بلانے کی بات کی تو یہ ذمہ داری وزیرپانی و بجلی خواجہ آصف کے سپرد کردی گئی۔
کہا جاتا ہے، سول ، ملٹری ریلیشن شپ جتنی خوشگوار اور باہم اعتماد پر مبنی اب ہے، اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کا تقرر ایک اہم معاملہ ہوتا ہے، جس کیلئے تین افسران کا پینل پرائم منسٹر کو بھجوایا جاتا ہے۔ پرائم منسٹر چاہیں تو کسی چوتھے کو بھی یہ ذمہ داری سونپ سکتے ہیں۔ کہاجاتا ہے، جنرل ظہیرالاسلام کے جانشین کے طور پر وزیراعظم کا انتخاب جنرل رضوان اختر ہی تھے(اس کیلئے تین کے پینل کی ضرورت ہی نہ پڑی)۔ سیکورٹی کے معاملات بہتر انداز میں نمٹانے کیلئے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کے طور پر جنرل ناصر جنجوعہ کا انتخاب بھی وزیراعظم کا اپنا ہے،ورنہ عسکری قیادت تو انہیں NUST کا سربراہ بنانے کا فیصلہ کرچکی تھی۔ اس منصب پر ’نان انجینئر‘‘ کے تقرر کیلئے NUST کے چارٹر میں تبدیلی بھی کر دی گئی تھی لیکن بلوچستان میں جنرل ناصر جنجوعہ کی کارکردگی کے معترف اور مداح وزیراعظم انہیں اپنا نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بنانے کا فیصلہ کرچکے تھے(ہمارے بعض دوست اس کیلئے ’’ماڈل ٹاؤن کنکشن کی کوڑی بھی لاتے ہیں)۔ پرائم منسٹر سیکریٹریٹ میںجنرل ناصر جنجوعہ کا دفتر اسی فلور پر ہے جہاں وزیراعظم بیٹھتے ہیں(جناب عرفان صدیقی کا دفتر بھی اسی فلور پر ہے)۔
سیاسی و عسکری قیادت میں قریبی رابطے ، باہم اعتماد اور مسلسل مشاورت کے باوجود آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں ’’گڈ گورننس‘‘ کے حوالے سے ریمارکس پر حیرت، کوئی ایسی بے جا نہ تھی۔ اس پر کسی ردعمل کا اظہار کرنے کی بجائے سول قیادت کی خاموشی بہترہوتی؟ ہماری حقیر رائے بھی اس کے حق میں ہے لیکن سول قیادت شاید عجیب مخمصے سے دوچار تھی۔ وہ ایک عرصے سے فوجی قیادت کے ’’تھلّے‘‘ لگے ہونے کے طعنے سنتی آرہی تھی اور بدمزہ نہ ہوئی تھی۔ ایک تجزیہ کار تو ’’بہادرشاہ ظفر‘‘ کی پھبتی بھی کستے رہے۔ اب’’گڈگورننس‘‘ کے حوالے سے ریمارکس شاید نااہلی کا الزام تھے اور یوں بات’’بہت زیادہ‘‘ ہوگئی تھی۔ (It was too much) سو، سول قیادت نے اپنی پوزیشن واضح کرنا اور اس کے ساتھ آئینی حدود کا احساس دِلانا ضروری سمجھا لیکن اس میں الفاظ کے چناؤ میں حد درجہ احتیاط ملحوظ ِ خاطر رہی۔ کیا ہمارے دانشور دوست، چائے کی پیالی میں طوفان کو سیلِ بلاخیز بنانے سے گریز کرینگے؟
تازہ ترین