• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں پیرس میں جو حملے ہوئے اس کی شدید مذمت تو تمام حلقوں نے کی ہے مگر خاص طور پر مسلمان ملکوں اور ان کے عوام نے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان میں بھی اظہار ہمدردی کیا گیا ہے کیونکہ اسلام اس کی جازت نہیں دیتا کہ بے گناہوں کو اس طرح مار دیا جائے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ پالیسیاں بنانے والے حکومتی افراد سے تواختلاف ہوسکتا ہے مگر مظلوم عوام کا کیا قصور ہے کہ انہیں مار دیا جائے۔ اس حرکت سے نہ مسلمانوں کی کوئی خدمت ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان کے لئے یورپی عوام کے دلوں میں کوئی نرم گوشہ پیدا ہوسکتا ہے۔ ابھی مسلم امہ امریکہ کے نائن الیون جیسے بے مقصد حملوں کی زد سے اور اس کے اثر سے باہر نہیں نکل سکی کہ ایک اور چیلنج سامنے آ گیا ہے۔ مسلمان پہلے ہی مخالفانہ پروپیگنڈے کی زد میں تھے کہ اب مسلمانوں کے خلاف ایک اور ہتھیار ان لوگوں کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اس تازہ واقع نے مسلم عوام کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے نتائج نائن الیون سے بھی زیادہ بھیانک ہوں گے۔ مجھے یقین ہے دنیا کے بیشتر اسلامی ملکوں میں مسلمان عوام اس حرکت سے بہت زیادہ ناراض ہیں حالانکہ چند لوگوں کی حرکت ہے مگر نتیجہ یہ نکلے گا کہ اسلام دہشت گردوں کا مذہب ہے۔ اس حرکت کو کسی حالت میں بھی مسلمانوں، انسانیت کے علمبردارو ں نے پسند نہیں کیا۔ اس واقع سے سب سے زیادہ متاثر مسلم ملکوں کے عوام اور خصوصاً پاکستان ہوا ہے کیونکہ یہ دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔
نائن الیون کے بعد مسلمان ملکوں کے عوام بہت مشکلات کا شکار تھے جبکہ پاکستان عملی طور پر مشکلات کا شکار ہوگیا۔ ملک میں شدید دھماکے ہوئے ۔ ضروری ہے کہ یورپ اور مسلم ممالک کے دانشور، تجزیہ نگار ان مسائل کے حل کی کوشش کریں جن کی وجہ سے دہشت گردی کو عروج حاصل ہورہا ہے۔ میں یہ بات یقین سے کہتا ہوں کہ پاکستانی قوم نے اس سلسلے میں بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ بلاشبہ او آئی سی اور دیگر مسلم تنظیموں نے اجتماعی طور پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا جبکہ مسلم دنیا کے دانشوروں، ادیبوں اور فکری صلاحیت کے حامل رہنمائوں نے منظم طور پر کوئی عملی تجویز نہیں دی۔ صرف احتجاج کا طریقہ اپنایا ہے۔ طاقتور ملکوں میں یہ احساس ہونا چاہئے کہ فلسطین میں ہزاروں لوگ مر رہے ہیں اور مسلمانوں کی عظیم ا کثریت شدید بے چینی میں مبتلا ہے۔ جو پالیسی بھی بنائی جائے مسلم امہ کے عوام کے جذبات کو اور ان کے مسائل کے حل کو اوّلیت دی جائے۔ فرانس کے معصوم عوام کا خون بہانے کو کسی طورپسندیدہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اب دہشت گردی اور امن کے درمیان ایک حدِفاصل کھینچ دی گئی ہے، پاکستانی عوام امن کی راہوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگر مغربی ملکوں کو بھی عالم اسلام کے اہم مسائل کو حل کرنا چاہئے ۔ اقوام متحدہ میں کسی بھی مسلمان ملک کی اہم ترین جگہوں پر کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر دنیا کے مسائل بڑھیں گے کم نہیں ہوں گے۔ مغربی ملکوں کے رہنمائوں کو اپنی روش میں تبدیلی لانا ہوگی اور اسرائیل کو بھی حد میں رکھنا ہوگا کیونکہ ان معصوم افراد کا کوئی قصور نہیں جو اس سانحے میں مارے گئے ہیں۔ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے تمام دنیا کو اپنی سوچ میں تبدیلی پیدا کرنا ہوگی تب ہی آتش و آہنگ کی بارش ختم ہوگی ورنہ یہ وبا تمام دنیا میں پھیل سکتی ہے اور دنیا تیسری عالمگیر جنگ کا شکاربھی ہوسکتی ہے۔ یاد رہے اسلام امن و سکون کا مذہب ہے ، غلط تشریح کرکے اسے نقصان نہ پہنچایا جائے۔
تازہ ترین