• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنے مقصد پرآنے سے پہلے ان حالات پرروشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں جو دنیا بھرکے اندازوں کوروندنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہائوس کے حقدار بننے کے بعد بنے۔ پوری دنیا اورخصوصاًیورپ ابھی حیران اورپریشان ہے کہ ان کااتحادی امریکہ ان کے ساتھ کئے گئے تجارتی معاہدوں سے نکل جائے گااورکیا نئے صدرحقیقتاً نیٹوکا مزید خرچہ برداشت کرنے سے ہاتھ اٹھانے جار ہے ہیںاس خوف کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے پاس دل کے بہلانے کے لئے ایک آسرابھی ہے کہ شاید مسٹرٹرمپ اپنے پیش روئوں کے نقش قدم پرچلیں اوراپنے انتخابی وعدوں اور نعروں کی بجائے ـ"زمینی حقائق" کوسمجھیں اور سی آئی اے اورپینٹاگان کی دی ہوئی بریفنگزکی بنیاد پرانہیں پالیسیوں کو جاری رکھے جوان سے پہلے کے صدورنے رکھیں، دوسری پریشان قوم امریکہ میں رہنے والے مسلمان خصوصاً ان ممالک (پاکستان، شام وغیرہ)کے لوگ ہیں جہاں پراندرونی حالات یا امریکی کیمپ میں ہونے کی بدولت دہشت گردی ہورہی ہے ان کو بھی سانپ سونگھ چکا ہے کہ کیا ڈونلڈٹرمپ اپنے انتخابی نعرے کے مطابق ان کے امریکہ میں مزیدداخلے اوررہائش پرپابندی لگائیں گے اور پہلے سے یہاں موجود ان ممالک کے شہریوں کو نکالنے کے ارادوں کو عملی جامہ پہنائیں گے یا نہیں۔
لیکن ان سب میں شایدسب سے زیادہ بری حالت خلیجی ممالک کے لوگوں کی ہے جو اپنے تحفظ کے لئے امریکہ پرتکیہ کرتے ہیں وہ بھی سوچ رہے ہیں کہ کیا نئے امریکی صدران کے بارے میں بھی اپنی پالیسی بدلنے جارہے ہیں۔ بیرونی عناصر کے علاوہ امریکی شہریوں کے اپنے خدشات بھی ہیں کہ کیا مسٹرڈونلڈ ٹرمپ ان سے موجودہ صدرباراک اوباما کے دئیے ہوئے صحت کے پروگرام کوواپس لے لیں گے یاوہ امریکیوں کی پتلی ہوتی حالت کو دیکھ کراس فیصلے پرعملدرآمد سے دستبردارہوجائیں گے ۔ مسٹرڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ابھی بہت سارے سوالوں کا کوئی جواب اورصدربننے کے بعد کی نئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی جولوگوں کی پریشانیوں کو مزید ہوادے رہا ہے۔
پاکستان کے اندرتولوگوںکو بس ٹرمپ کی مخالفت اورہیلری کی بعض پالیسیوں میں نظرآنے والی اپنی بچت کی حد تک ہی ہیلری کی ہارکا افسوس تھا تاہم امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں کی حالت قدرے مختلف ہے وہ امریکہ میں بس چکے ہیں ان کی نئی نسل یہاں پروان چڑھ رہی ہے مسلمان ممالک کے مقابلے میں انہیں اوران کے بچوں کویہاں زیادہ شخصی آزادیاں اورحقوق حاصل ہیں ان کے پاس امریکہ ہی میں رہنے کے علاوہ اورکوئی آپشن نہیں اس لئے وہ اب مسٹرٹرمپ کی جیت کے بعد کی صورتحال میں اپنے لئے نئی صف بندی اورمنصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اس سب کچھ کی ایک جھلک گزشتہ شب واشنگٹن میںپاکستانی نژاد امریکی صحافی قاسم یوسفزئی کے گھرمنعقدہ ایک بیٹھک میں ملی جس میں پاکستانی امریکی پختون شہریوں کی تنظیم پشتون امریکن کمیونٹی ایسوسی ایشن کی زیادہ تر قیادت موجود تھی یوں تو ایسوسی ایشن کے زیادہ تراراکین کا تعلق خیبرپختونخوا اورفاٹا سے ہے تاہم اچھی بات یہ تھی کہ اس میں نان پشتون یعنی لاہورکے پنجابی بھی موجود تھے پوری تقریب میں کوئی ایسا رنگ غالب نہیں تھا جس سے اندازہ لگ سکے کہ یہ صرف پختونوں کی کوئی بیٹھک ہے سب پاکستانی ہونے کے ناتے امریکہ میں اپنے مستقبل کے بارے میں شریک گفتگوتھے۔ ان کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا صدرتسلیم کرکے اب اس سمت آگے بڑھ رہے ہیں کہ نئے حالات میں کیسے زیادہ سے زیادہ اپنے ہم وطنوں کے مفاد کا تحفظ کیا جاسکے ایک خالص جمہوری ماحول تھا جس میں موجود تمام لوگ انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرچکے ہیں ان میں ہرکوئی پاکستان سے تعلق کومقدم رکھ رہا تھا تاہم وہ امریکہ کو اپنے وطن کے طورپرتسلیم کرچکے ہیںاوراس کی ہراچھائی اوربرائی کواپنی ہی اچھائی اوربرائی سمجھتے ہیں۔
تھوڑا سا یہ بھی بتاتا چلوں کہ امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں کی حالت دیگرممالک خصوصا ًاپنے ہی مسلمان خلیجی ممالک میں رہنے والے اپنے ہم وطنوں سے کافی بہترہے، ان مسلمان ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کو چالیس چالیس سال بعد بھی کفیل کے ایک اشارے پرملک سے نکال دیا جاتا ہے اورانہیں اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی غیرملکی شہری کے طورپرٹریٹ کیا جاتا ہے جبکہ امریکہ میں رہنے والے ان پاکستانیوں کو ایسا کوئی خوف لاحق نہیں۔ جس محفل کا میں حصہ تھا اس میں امریکی یونیورسٹیوں کے اساتذہ، زرعی سائنسدان، کاروباری شخصیات، آئی ٹی پروفیشنلزاورصحافی بیٹھے تھے جن میں سے سب کا اپنا اپنا گھراورکافی بہترقسم کی گاڑیاں ہیں جبکہ دیگرممالک میں شاید انہیں کم ہی اپنا گھرخریدنے کا حق دیا جاتا ہے۔
کوئی کچھ بھی کہے لیکن میرے ساتھ پشاورمیں کم تنخواہوں پر کام کرنے والے میرے صحافی ساتھی آج کافی اچھے صحافتی اداروں میں نہ صرف کام کررہے ہیں بلکہ فیئرمقابلے کی فضا ملنے پران میں سب سے آگے جانے کی جدوجہد بھی کررہے ہیں اورکچھ تواس میں کامیاب بھی ہوچکے ہیں ان کے بیچ بیٹھے بیٹھے دل میں ایک ہوک سی اٹھی کہ کیوں نہ یہ سب پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے معاشرے کی خدمت کرسکتے لیکن پھرملک میں جاری کرپشن، اقربا پروری اورنفسانفسی کے عالم میں خود ہی خیال آیا کہ یہ اگروہاں ہوتے بھی توکیا ہوتے؟
یہ ہے ان سب کی حالت جومختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں تاہم جوذرا کم بہترکام کررہے ہیں ان میں ٹیکسی ڈرائیورکا کام کرنے والے بھی بڑی حد تک مطمئن ہیں۔
ان لوگوں کی بیٹھک کا حصہ ہوتے ہوئے مجھے بڑا اچھا لگ رہا تھا کہ وہ سب امریکہ میں مسٹرٹرمپ کے انتخاب کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں میں شرکت کا نہیں بلکہ پورے جمہوری ذہن کیساتھ اس بات پرغورکررہے تھے کہ کیسے نئے صدرکے انتخاب کے بعد وہ اپنی اس اکثریت کو جوخود شریف شہری ہیں جن کا جرائم اوردہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں کواس اقلیت کی حرکتوں کے اثرات سے بچاسکیں جواپنے مقاصد کیلئے کام کرتے ہیں۔

.
تازہ ترین