• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل راحیل شریف کی موجودگی ان کیلئے سوہان ِروح تھی ،اُن کے قدکاٹھ اور عوامی مقبولیت کے سامنے یہ پستہ قامت اور غیر موثر دکھائی دیتے تھے ۔ لہذا اقتدار کا دسترخوان کانٹوں کی سیج بن چکا تھا ۔ تیسری مدت کی وزارت ِ عظمیٰ کے مشروب میں تلخی گھل چکی تھی ۔ اب جنرل صاحب کی روانگی پر خوشی کے شادیانے نہیں تو بھی چہرے پر طمانیت کی طرب انگیزی نمایاں ہوتی، فتح کادلپذیر احساس جاگزیں ہوتا ، اقتدار کی تمکنت لہجے سے کھنکتی، صبر کا میٹھا پھل حلاوت ِ جاں بنتا، جمہوریت کے دوام کی سند ملتی، لیکن یہ کیا؟ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ان کے چہروں پرو ہی اداسی اور افسردگی ڈیرے جمائے ہوئے ہے ۔ شام کو کوئی بھی ٹی وی چینل لگائیں، وہاں لائن آف کنٹرول پر بھارتی شرانگیزی یا حلب کے خونچکاں واقعات یا ٹرمپ کی اپنی انتظامیہ کیلئے کی جانے والی نامزدگی کی خبریں نہیں ملیں گی۔ اس کی بجائے شریف فیملی کے غیر ملکی اکائونٹس میں مبینہ طور پر چھپائے گئے اربوں روپوں پر پریشان کن سوالات اٹھائے جارہے ہیں، رقم کی ترسیل کے ذرائع پوچھے جارہے ہیںاور وزیر ِاعظم کے بچوں کی چکاچوند مالیاتی مہارت پر آفرین آفرین کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔
جب معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہوں، آپ کی ایمانداری پرسوالیہ نشان لگ جائے ،اور قطری شہزادے کی الف لیلیٰ سنجیدگی کے پیکروں کو بھی ’’منور ظریف‘‘ بنا دے تو پھر بھاری بھرکم مینڈیٹ سے آراستہ تیسری مدت کا اقتدار کیا لطف دے گا؟برس ہا برس کی کاوش سے جمع کیے گئے اربوں روپے کس کام کے؟ لندن کی پرآسائش جائیداد کا کیا فائدہ؟اگر آپ بھاری بھرکم دولت رکھتے ہیں، اور اس پر کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس خستہ حال کشتی کے ناخدا سونے سے لدے ہوئے ہیں، تو آپ موجوں کی زد میں کیوں ہیں؟ آپ آرام دہ ، پرسکون زندگی بسر کریں، اور،جہاں تک محاورے کی حد اجازت دے، داد ِ عیش دیں۔ امریکہ کے نومنتخب صدر کو دیکھیں، وہ کسی شرم و قباحت کے بغیر ایک بھرپور زندگی گزارتے ہیں۔ٹرمپ ٹاور کی بالائی منزل پر اُن کی بلا مبالغہ سونے چاندی سے سجی ہوئی رہائش گاہ دیکھیں،اُن کی میامی میں تفریح گاہ پر ایک نظر ڈالیں، وہ کوئی شرم یا جھجک محسوس کیے بغیر ایسی ہی زندگی گزارتے ہیں۔ اُنہیں بل کلنٹن جیسے’’ بیڈ اور بریک فاسٹ کے دائمی مسائل ‘‘ کا بھی سامنا نہیں۔ چاہے وہ (کلنٹن) آرکنساس کے گورنر تھے یا امریکی صدر، اُن کی رسی دراز ہی رہتی۔ اس کی وجہ سے اُن کی بیوی اکثر اُن کے دفاع کیلئے میدان میں موجود ہوتیںاور اپنے شوہر کی دراز دستی کا شکار خواتین پر چڑھ دوڑتیں۔ دوسری طرف ٹرمپ کی تیسری شادی ہے ، اور دنیا جانتی ہے کہ امریکہ کی تیسری خاتون ِ اوّل کی کشش شک و شبہ سے بالا تر ہے ۔
اس کے بعد ایک نظر ہمارے صنعت کار سیاسی چیمپئنز پر بھی ڈالیں۔ اقتدار کی چسکی اور فیکٹریاں یکساں مہارت اور سہولت سے لگاتے جاتے ہیں۔ اگر کوئی پوچھے کہ کیسے تو ’’گفتہ ٔ غالب ایک بارپڑھ کے اُسے سنا کہ یوں‘‘۔ یہ ہیںپاکستان کی تاریخ کے سیاسی نابغہ روزگار۔ تاہم آج پریشان کن سوالات کا سامنا ، اور کوئی جواب نہیں بن پڑا تو قطری شہزادے کو مدد کیلئے آواز دینا پڑی۔ستم یہ کہ حکمران خاندان کی حمایت میں فرستادہ خط دور ِ حاضر کا سب سے بڑا لطیفہ قرار پایا۔ جمالیاتی ذوق رکھنے والے مکتوب ِ قطری کو ظریفانہ ادب کا سرخیل قرار دے سکتے ہیں۔ صاحبزادگان ، حسن اور حسین ، کو ایک طرف رہنے دیں، گو انہیں بھی کیسینو میں کوئی جاتے نہیں دیکھے گا، لیکن صاحبزادی ، جو بہت ذہین اور مہذب اطوار کی مالک ہیں، کو کیا یہ اچھا لگے گا کہ اُن کا نام ہر روز ملکی تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی اسکینڈل، پاناما گیٹ،کی میں زد میں آکر میڈیا میں اچھالا جائے؟
ہماری تاریخ کبھی بھی رنگ برنگے ایکشن ڈراموں سے تہی داماں نہ تھی۔ ہمارے وزرائے اعظم کو گولی مار کر ہلاک یا اقتدار سے محروم کیا گیا، آرمی چیفس بڑے تزک واحتشام سے آئے اور پھر اُن کا یوں بینڈ بجا کہ فرار ہوتے ہی بنی۔ پاکستان مغرب کے ساتھ فوجی معاہدوں میں شریک ہونے کی بیماری کو گلے لگابیٹھا، اسلام کا یہ قلعہ افغان جنگوں کا سہولت کار اور گزر گاہ بن گیا۔ یہ فہرست طویل ، لیکن پاناما گیٹ جیسا شاہکار کوئی اور کہاں؟کیا کسی اور پاکستانی وزیر ِاعظم یا حکمران خاندان کی پروفائل ہمارے موجودہ حکمرانوں کی سی وی کا عشر عشیر بھی تھی؟ دبئی کی ’گمنام اسٹیل مل‘ ، قطر میں پھیلا پراپرٹی بزنس، بالکل ہتھیلی پر اُگتی سرسوں جیسا،مے فیئر کے فلیٹس، جن پر نظر نہ ٹھہرے، اور پھر قلزم کی گہرائی اپنے سینے میں سموئے ہوئے سمندر پار اکائونٹس،کیا کہنے کاروباری مہارت کے ۔ ذرا زمین پر پائوں ٹکیں تو صاحبزادگان سے عرض کی جائے کہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر پاکستان کی جاب مارکیٹ میں یا کاروباری دلدل میں پائوں رکھیں تو صلاحیتیں کھلیں۔
1999 ء میں مشرف کے شب خون کے فوراً بعد بڑے صاحبزادے نے بی بی سی کے ٹم سبسطین کو بتایا تھا کہ وہ ایک طالب ِعلم ہیں اور مے فیئر فلیٹس میں بطور کرائے دار رہتے ہیں، اور کرائے کی یہ رقم پاکستان سے آتی ہے ۔ لندن یا برطانیہ میں زیر ِ تعلیم شاید ہی کوئی اور طالب ِ علم اتنی مہنگی جائیداد میں رہتاہو ۔عقل چکراجاتی ہے کہ اس صاحب ِعلم و دانش نے تعلیم سے فارغ ہوتے ہوئے کاروباری دنیا میں ایسا جال پھیرا کہ سب کچھ پُن کر رکھ دیا ۔ کئی ملین پائونڈز کا کاروبار انگلی کے اشارے پر کھڑا ہوگیا۔ اگر پاکستان کو مہینوں،بلکہ ہفتوں میں خوشحالی کا سفر طے کرنا مقصود ہے تو موصوف کی خدمات مستعار لینی ہوں گی، ورنہ تو دیومالائی داستانوں میں پارس کے پتھرکے ساتھ لوہے کو سونے میں تبدیل کرنے میں بھی قدرے دیر لگتی ہے ۔
پنجاب کے خادم ِ اعلیٰ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان کا احتجاج، دھرنے اورمارچ نہ ہوتا تو پاکستان ترکی یا چین بن چکا ہوتا۔ درست، لیکن یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ اگر پاکستان پرایماندار حکومت ہوتی تو ہی پاکستان کو درست راہ پر گامزن کیا جاسکتا تھا۔ یا پھر ہوسکتاہے کہ وہ قوم کی تعمیر و ترقی میں ایمانداری اور سچائی کو کار ِ حاصل سمجھتے ہوں۔ایک اور حب الوطنی پر مبنی اعتراض یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم اس اسکینڈل کے پس ِ منظر میں نیلسن، نیسکول ، مینروا اور دیگر مغربی نام سن رہے ہیں، حالانکہ ہمارے حکمران سرزمین ِ مقدس کے ساتھ جذباتی عقیدت رکھتے ہیں۔ صوم وصلوۃ کے پابند حکمران رمضان کا آخری عشرہ مقامات مقدسہ میں گزارنا خود پر فرض کرچکے ہیں۔ لہٰذاضروری ہے کہ مغربی ناموںسے گریز کرتے ہوئے عربی تاریخ سے نام منتخب کیے جائیں۔ واپس پہلے سوال کی طرف آئیے، اربوں روپوں کا کیا فائدہ اگر ریاست پر حکومت کرنے والی اشرافیہ کا دامن داغدار دکھائی دے رہا ہے ۔ گھبراہٹ میں خاندان کے افراد کی طرف سے سامنے آنے والے مختلف بلکہ متضاد بیانات سن کر انسان سوچتا ہے کہ اگر انہیں کتابی صورت دے دی جائے تو بہت آرام سے بیسٹ سیلر کا درجہ حاصل کرلے گی۔ ٹی و ی پر ان متضاد جوابات کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔ جہاں تک قطر کے شہزادے کا تعلق ہے تو اگر اُسے علم ہوتا کہ پاکستانی میڈیا میں وہ کس طرح ہنسی کا نشانہ بن چکے ہیں تو خط لکھنے سے پہلے ہزار با ر سوچتے۔

,
تازہ ترین