لیجے، فیض صاحب کو ایک ایسا گھر مل گیا جہاں صرف ان پر ہی تحقیق نہیں کی جائے گی بلکہ ادبی اور ثقافتی سر گر میوں کے فروغ کے لئے بھی وہاں بہت سے کام کئے جائیں گے ۔ فیض صاحب کے نواسے عدیل ہاشمی نے اعلان کیا ہے کہ فیض صاحب کے ایک پرستار نے ماڈل ٹاؤن میں اپنا دو ڈھائی کنال کا مکان اس مقصد کے لئے وقف کر دیا ہے ۔ یہ اونچی اونچی چھتوں، بڑے بڑے کمروں، کشادہ ہال اور کھلے بر آمدوں والا پرانا مکان ہے ۔ اس گھر میں فیض صاحب کے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی تمام تحریریں ، ان کے ا ستعمال میں آنے والی چیزیں اور ان پر لکھے جانے والے مقالے اور کتابیں تو رکھی ہی جائیں گی لیکن اس کے ساتھ اسے ایک ثقافتی مرکز بھی بنا دیا جائے گا ۔ خدا کرے جیسا اعلان کیا گیا ہے ویسا ہی کام بھی ہو۔ کیونکہ فیض صاحب کے انتقال کے بعد ان کے نام سے جو یادگاری لیکچر شروع کئے گئے تھے وہ زیادہ دن نہیں چل سکے تھے ۔ یہ لیکچر مختلف علمی ، تحقیقی اور سائنسی مو ضوع پرہوتے تھے ۔ اور پروفیسر کرار حسین اور پروفیسر عبدالسلام جیسی نابغہ ء روزکارہستیوں نے یہ لیکچر دیئے تھے ۔ اب اگر اس” فیض گھر“ کی وساطت سے یہ سلسلہ پھر شروع کر دیا جائے تو یقینا بہت بڑا کام ہو گا ۔ اورچونکہ اس مرکز کا تعلق سر کار دربار سے نہیں ہو گا اس لئے یہ بھی امید ہے کہ ثقافتی سرگرمیوں کے لئے بھی یہاں وہ پابندیاں نہیں ہوں گی جو سرکاری اداروں میں ہو تی ہیں ۔یہاں آزادی کے ساتھ ڈرا مے اور موسیقی وغیرہ میں نئے نئے تجربات کئے جائیں گے ۔لیکن اس کے لئے بہر حال سرمایہ کی ضروت ہو گی۔ یوں تو فیض صاحب کے چاہنےء والے بہت ہیں اور ان میں صاحب ثر وت بھی کچھ کم نہیں ہیں مگر پھر بھی یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں فیض میموریل لیکچرز کی طرح یہ گھر بھی سرمایہ کی کمی کا شکار نہ ہو جائے ۔ اسے آپ میری طرف سے فیض گھر کے لئے سرمایہ فراہم کرنے کی ایک اپیل سمجھ لیجے ۔
ویسے تو جہاں تک ثقافتی سر گر میوں کا تعلق ہے جب سے عطا ء الحق قاسمی نے الحمرا آرٹس کونسل کا انتظام سنبھالا ہے وہاں بھی یہ سر گرمیاں تیز ہوگئی ہیں ۔ انہوں نے ڈرامہ اور موسیقی وغیرہ کے لئے ممتاز ادیبوں اور فن کاروں کی کمیٹیاں بنادی ہیں جو اس سلسلے میں نئے نئے پروگرام بنا رہی ہیں ۔ ایک کمیٹی خاص طو رسے یہ طے کر نے کے لئے بنائی گئی ہے کہ بزرگ فن کاروں او ر مو سیقاروں کی قد رافزائی اور ان کی مالی امدا د کیسے کی جائے ۔ اس کے علاوہ سنجیدہ اور معیاری اسٹیج ڈرامہ زندہ کرنے کے لئے وہ نامور ڈرامہ نگاروں کے پرانے ڈرامے دوبارہ اسٹیئج کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں ۔سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں معیاری اورطبع زاد اسٹیج ڈرامہ پیدا ہی نہیں ہو سکا ہے ۔ مغربی ڈراموں کے تر جمے تو بہت کئے گئے ہیں اور کراچی میں اب بھی کئے جا رہے ہیں مگر بانو قدسیہ کے سوا معیاری اورطبع زاد اسٹیج ڈرامہ اور کوئی نہیں لکھ سکا ۔ ایک زمانے سے کہا جا رہا ہے کہ نئے ڈرامہ نگار پیدا کرنے کے لئے مغربی ملکوں کی طرح یہاں بھی ڈرامہ ورکشاپ کئے جائیں ۔ڈرامہ لکھنے والے ڈرامہ لکھ کر لائیں اوربا نو قدسیہ، شعیب ہاشمی ، کمال احمد رضوی اورثمینہ احمد جیسے پختہ لکھنے والے اور ڈرامہ اسٹیج کرنے والے ان کی رہنمائی کریں ۔ان سب کی محنت اور مشورے سے جو ڈرامہ پیدا ہو گا وہ واقعی معیاری ہو گا ۔ یہ کام الحمرا آرٹس کونسل کے علا وہ فیض گھر میں بھی کیا جا سکتا ہے ۔ کام بہت ہیں صرف پہل کرنے کی ضروت ہے ۔اب آپ کلاسیکی موسیقی کو ہی لے لیجے ۔یوں لگتا ہے کہ یہ فن پاکستان میں تو جیسے ختم ہی ہو جائے گا ۔بڑے بڑے کلاسیکی موسیقاروں کے گھرانوں سے بھی جو نوجوان نکل رہے ہیں وہ پاپ موسیقی کی طرف ہی جا رہے ہیں ۔ کل پاکستان موسیقی کانفرنس ہی ایک ایسا ادارہ ہے جس نے اس فن اور اس کے فن کاروں کو تھوڑا بہت سہارا دے رکھا ہے ورنہ اسے کوئی پوچھتا ہی نہیں ۔ البتہ اس شہر لاہور میں چند صاحب دل اور صاحب نظر شخصیتیں ایسی ہیں جو کلاسیکی موسیقی اور موسیقاروں کی حو صلہ افزائی کرتی رہتی ہیں۔ مگر وہ بھی دو چار ہی ہیں ۔ ان میں ایک حارث نورا نی بھی ہیں جو اپنے خرچ پرپاکستان کے علاوہ ہندوستان سے بھی اچھے اچھے کلاسیکی گانے والے بلاتے رہتے ہیں ۔چند مہینے پہلے انہوں نے ہمارے اپنے استادفتح علی خاں کو بلا یا تھا اورپچھلے ہفتے ہندوستان سے ایک مغنیہ کو بلا یا ۔ منجری کلیکر ممبئی کے قریب ناسک کی رہنے والی ہیں ۔ شکرہے وہ ممبئی کے واقعے سے پہلے ہی لاہور آ گئی تھیں ورنہ اس واقعے کے بعد پورے ہندوستان پر جو بوکھلاہٹ اور پاگل پن سوا ر ہو گیا ہے اس کے بعد تو یہ امید ہی نہیں تھی کہ وہ یہاں آ بھی سکتیں۔
بہر حال ،منجری نے مشکل سے مشکل راگ گاکر یہ ثابت کر دیا کہ کسی بھی فن میں پختگی حا صل کرنے کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہے ۔تیس بتیس سال کی عمر میں بھی استادوں والی پختگی حاصل کی جا سکتی ہے ۔یہی کام ہمارے نوجوان بھی کر سکتے ہیں بشرطیکہ ان کی پوری حو صلہ افزائی کی جائے ۔
اب ادب اور فنون کا ذکر ہو رہا ہے تو یہ بھی ذکر ہو جائے کہ فخر زماں نے اکادمی ا دبیات میں جاتے ہی اسے ایک بار پھر اپنے خاص انداز میں فعال کر دیا ہے۔ فعال سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے ادبی کانفرنسوں کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے ۔ چنانچہ پہلی جو دو روزہ کانفرنس ہو رہی ہے اس کا موضوع ” ادب اور امن “ ہے ۔اصل میں فخر زماں ہنگامہ خیزسر گر میوں کے آ دمی ہیں ۔ وہ کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہتے ہیں۔ افتخار عارف یہ گر نہیں جانتے اس لئے ادیبوں کا طبقہ ان سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھا۔اس طبقے کو محفلیں اور کانفرنسیں چاہئیں۔خیر، افتخار عارف بھی مقتدرہ قومی زبان میں واپس چلے گئے ہیں۔ ان کے لئے وہاں بھی بہت کام ہیں ۔لگتا ہے پروفیسر فتح محمد ملک کے کانوں میں پہلے ہی اس کی بھنک پڑ گئی تھی اس لئے کہ وہ مقتدرہ چھوڑ کر بہت پہلے اسلامی یو نیورسٹی چلے گئے تھے ۔ اورہاں ، فخر زماں نے آتے ہی ایک کام تو یہ کیا ہے کہ جن ادیبوں کو دوہزار روپے ماہانہ وظیفہ مل رہا تھا ان کا وظیفہ پانچ ہزار روپے کر دیا ہے ۔ اس کے علاوہ ان کا ارادہ ایک ادبی ٹی وی چینل شروع کرنے کا بھی ہے ۔بہت اچھا خیال ہے ۔ مگر میرا مشورہ یا خیال یہ ہے کہ اس چینل کو صرف ادب تک ہی محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس میں دوسرے فنون لطیفہ بھی شامل کئے جائیں۔ اس میں جہاں ادبی مذاکرے اور مبا حثے ہوں وہاں ڈراموں، مصوری اور کلاسیکی اور لوک موسیقی کے پروگرام بھی ہوں ۔ کلاسیکی موسیقی زندہ رکھنے اور کلاسیکی گانے والوں کی حو صلہ افزائی کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے ۔ لیجے ،میں اصغرندیم سید کو تو بھولے ہی جا رہا ہوں۔ انہوں نے لاہور میوزیم کا ڈائریکٹر بننے کے بعد جن پروگراموں کا علان کیا ہے اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اب وہ میو زیم آثار قدیمہ کا ہی نہیں رہے گا بلکہ اسے آ ثارجدیدہ کا بھی میوزیم بنا دیا جائے گا۔ یعنی اسے میوزیم کے جدید تقاضوں سے بھی ہم آہنگ کر دیا جائے گا۔خوشی کی بات ہے کہ ادب اور ثقافت کے معاملے میں اب نئی نئی سرگر میاں شروع ہونے والی ہیں ۔ بس دعا کیجئے کہ خدا ہمیں دھماکے کرنے والوں سے محفوظ رکھے ۔ لیکن ان کا مقابلہ بھی فنون لطیفہ کے فر وغ سے ہی کیا جاسکتا ہے ۔