• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت ایک وسیع و عریض ملک ہے مگر اس کی لیڈر شپ کی اکثریت تنگ نظر ہے۔ جو ہمیشہ اس بنیاد پر سیاست کرتی ہے کہ اقلیتی، فرقوں و برادریوں اور مذہبی اختلافات رکھنے والے لوگوں کو کس طرح دبایا جائے۔ میونسپل الیکشن سے لے کر پارلیمنٹ کے الیکشن تک اکثریتی پارٹی کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں کس طرح دبا کر رکھا جائے انہیں یہ فکر رہتی ہے کہ مسلمان کسی طرح بھی ملک کے نظام حکومت میں دخیل نہ ہوں اور اگر یہ مرحلہ آبھی جائے تو اپنے من پسند افراد کو اقلیتی فرقوں کا نمائندہ بنا کر دنیا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ دیکھو ہم بڑے فراخ دل ہیں۔ نریندر مودی جب برسر اقتدار میں نہیں تھے تو ان کی مزاحمتی پالیسی کشمیر سے ہماچل پردیش تک یہی رہی۔ کبھی بابری مسجد، کبھی گائے کے گوشت کی قربانی کا تنازع اور کہیں قبرستانوں پرجبری قبضے کاتنازع شدت کے ساتھ کھڑا کیا جاتا رہا۔ کشمیر کے مسئلے پرہندوستان کے امن پسند اور انصاف پسند دانشور، اخبار نویس، انسانی حقوق کی ترجمان تنظیمیں خاصی جذباتی اور عالمی رائے عامہ کی ہم نوا ہیں جبکہ ہندوستان اقوام متحدہ میں کشمیر میں استصواب رائے کی تحریک کو قبول کرچکا ہے مگر جب یو این او نے ڈاکٹر گراہم کو اس سلسلے میں نمائندہ بنا کر بھیجا تو انہیں کشمیر میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ ہندوستان کی پرانی قیادت اقوام متحدہ میں اس کا وعدہ بھی کر چکی تھی ۔ اس کے باوجود ہم انڈین کرکٹ ٹیم کے ساتھ میچ کھیلنے کے لئے بے چین ہیں۔ ہمارے اکثر ’’فدائین کرکٹ‘‘ خوشامد سے بھی باز نہیں آتے۔ میں یہ بات دعویٰ سے کہتا ہوں کہ پچھلے دنوں پاکستان دوست بنگلہ دیش لیڈر شپ کو جو پھانسیاں دی گئی ہیں ان کا کوئی جواز نہیں تھاکیونکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق اپنے ملک کی سرحدی حفاظت کے لئے لڑنا اور افواج کی مدد کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں کی اکثریت اندرونی اور بیرونی طورپر آنے والے وقت سے خوفزدہ ہیں اور ان قوتوں کو کچل دینا چاہتی ہے جن سے ا نہیں خطرہ ہے کہ یہ وقت آنے پر پاکستان دوست ثابت ہو سکتی ہیں۔
اخلاقی طور پر حکومت پاکستان پر اور ان کی جماعتوں کے نمائندوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ بین الاقومی طورپر اس مسئلے کی شدت کوواضح کرتے مگر شاید ’’کرکٹ کے غم‘‘ میں گرفتار اکابرین کو فرصت ہی نہیں ملی اور یہ مجاہدین پھانسی پر لٹکا دیئے گئے رہا ہماری سیاسی جماعتوں کا معاملہ وہ صرف ’’جمہوریت کے غم‘‘ میں گرفتار ہیں۔
پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے بنگلہ دیشی رہنمامیرے پاس اس لئے آتے تھےکہ میرا ا بنگلہ دیش کے قیام سے قبل بھی رابطہ تھا میں خان عبدالقیوم خان کے ساتھ ڈھاکہ جاتا رہتا تھا۔ وہاں دھان منڈی میں اس وقت میری شیخ مجیب الرحمٰن ، مسیح الرحمٰن ، مولوی فرید احمد اور دیگر لیڈروں سے ملاقاتیں رہتی تھیں یہ نوجوان جب میرے پاس آئے تو خاصے مایوسی کا شکار تھے۔ اس وقت اسلام آباد ویگن کا کرایہ غالباً دس پندرہ روپے تھامیں ایک بے سرو سامان آدمی ہوں میں بڑے سرمائے سے کسی کی مدد نہیں کر سکتا۔ مگر مجھے افسوس ہوا کہ تمام لوگ اعلیٰ کلاس کے دانشور روزانہ ویگنوں میں سفر کر کے کمیٹی چوک میرے آفس پہنچے تھے اور انہوں نے اعلیٰ حلقوں میں بھی بتانے کی کوشش کی کہ یہ حالات ہیں۔ اس کے تحت مجاہدین بنگلہ دیش کو دار پر لٹکا دیا جائے گا، صحافتی حلقوں نے بھی اس سلسلے میں خبریں بھی شائع کیں مگرکوئی اثر نہ ہوا۔ ہمیں ہندوستان کے عزائم سامنے رکھ کر اپنی پالیسیاں ترتیب دینی چاہئیں اور اگر وہ ہمارے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلنا چاہتا تو ہمیں خوشامدانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ میری اس تلخ آواز کو جو شاید بہت سے لوگوں کو ناگوار بھی گزرے ایک محب وطن آدمی کی آواز سمجھ کر پسند کر لینا چاہئے اور اس مسئلے کو بین الاقوامی طور پر اٹھانا چاہئے۔ ہندوستان ہمیشہ سے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ہٹ دھرمی کا رویہ اختیار کرتا رہا ہے اس نے اپنے پڑوس کی کئی چھوٹی ریاستوں، جزیروں اور علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے جن میں ایک بڑا علاقہ حیدرآباد دکن، جونا گڑھ او دیگر بہت سے شامل ہیں۔
تازہ ترین