• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اورآخرکارخدا خدا کرکے وہ دن آہی گیا جس کے خوف سے خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو صوبائی اسمبلی کا اجلاس ایک سال سے زیادہ عرصےتک جاری رکھنا پڑا، یہ اجلاس کرکے پارلیمانی تاریخ کی ایک نئی روایت رقم کی گئی جب برسراقتداراتحاد نے اکتوبر2014میں شروع ہونے والے صوبائی اسمبلی کے اجلاس کوکھینچ کھانچ کر ابھی تک جاری رکھا۔ اجلاس کے طوالت کی وجہ مسلسل پارلیمانی کارروائی یاقانون سازی نہیں بلکہ اسمبلی کےڈپٹی اسپیکرنہ ہونا ہے ورنہ جس معمولی معمولی مسئلے پرسارا سال اجلاس شروع ہونے کے ساتھ ہی ملتوی کئے جاتے رہے اس سے ایک بات توبڑی واضح تھی کہ اسمبلی میں موجود لوگوں کے پاس کرنے کا کوئی کام ہی نہیں حکومت اوریہاں تک کہ اپوزیشن بھی اس بات سے بخوبی آگاہ تھی کہ اگراس دوران اسمبلی کاسیشن ختم کیا جاتاہے تواسمبلی قواعدوضوابط کی بنیادپرڈپٹی اسپیکرکے انتخاب نہ کرانے کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتاہے اور یہ صورتحال تحریک انصاف اورصوبائی حکومت کے لئے بدنامی کاباعث ہوگی لیکن آفرین ہے صوبے میں اپوزیشن جماعتوں پرکہ انہوں نے مراعات کے حصول کے پیکج کی طرح اس معاملے پربھی تحریک انصاف کوکھلی ڈیل دئیے رکھی۔ گزشتہ سال یعنی 2014میں سالانہ بجٹ کیلئے منعقد کیے جانے والے جولائی کے اجلاس کے بعد اکتوبرتک کوئی اجلاس منعقد نہیں کیاگیاتھا اورپھرجب اکتوبرمیں یہ اجلاس شروع کیا گیا تواس میں وقفوں پرہی اکتفا کیا جاتا رہا یوں یہ اجلاس ایک سال سے زائد عرصے کے لئے جاری رکھا گیالیکن شاید خودصوبائی حکومت کوبھی اس بات کا احساس نہ تھا کہ بے مقصد دھرنے کی طرح اسمبلی کا یہ طویل ترین اجلاس بھی ایک دن پارلیمانی شرمندگی کی صورت اس کے گلے پڑجائے گا۔تقریباڈیڑھ سال تک ڈپٹی اسپیکرکاانتخاب التواء کاشکارہونے کی وجوہات تواپنی جگہ لیکن اس منظرنامے نے اسمبلی کے وقاراوروقعت کوجس طرح تارتارکیاہے یہ بھی صوبے کی سیاسی تاریخ کامنفی اعزازبن چکا ہے اوررہی سہی کسرحکومت اوراسمبلی چلانے والوں کی لاپروائی اورغیرسنجیدگی نے پوری کردی اسمبلی اجلاس کے ایک دن کاخرچ لاکھو ں روپے رہا لیکن اس عرصے کے دوران چھوٹی چھوٹی باتوں پراجلاس ملتوی کرناروزکامعمول رہا نہ صرف بلائے جانے والے اجلاس معمولی معمولی وجوہات کی بناپرملتوی ہوتے رہے بلکہ تقریبا ہرنشست کا آغاز دئیے گئے شیڈول سے ڈیڑھ دوگھنٹے تاخیرسے ہی ہوتا رہا ۔
اگراس بات کو گستاخی اورکسی سازش کے زمرے میں نہ لیا جائے تویہاں تھوڑی سی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ جس طرح خیبرپختونخوا کے علاوہ باقی ملک میں تحریک انصاف کی قیادت صوبے میں اپنی حکومت کو مثالی قراردیتی ہے اس سے ان علاقوں کے لوگوں کے ذہنوں میں ایک بات توضرورآتی ہوگی کہ خیبرپختونخوا میں توجیسے پرویزخٹک صاحب جیسے روایتی سیاستدان کی قیادت میں پی ٹی آئی نے دودھ اورشہد کی نہریں بہادی ہیں اوروہ لوگ یہ بھی ضرورسمجھتے ہونگے کہ عمران خان کے وژن کو لے کرجولوگ منتخب ہوکراسمبلیوں میں آئے وہ بھی پارٹی ڈسپلن کے حد درجہ پابندہونگے لیکن شاید ان لوگوں کو اس بات کا پتہ نہیں ہوگا کہ صوبے میں جس قدربدنظمی اورخودسری اس جماعت کے ارکان نے دکھائی اوراپنی ہی حکومت کوبعض فیصلوں پرجس طرح ناکوں چنے چبوائے اس کی مثال بھی اس صوبے پرحکومتیں کرنے والوں کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ خود تحریک انصاف کے لوگوں نے پرویزخٹک صاحب پراقرباپروری اورپسند ناپسند کے الزامات لگائے اورصوبے کی برسراقتدارجماعت کے اندر ہم خیال گروپ کے نام پرفارورڈ بلاک بنا وہ بھی اسی جماعت کا خاصہ بنا، نہ صرف یہ بلکہ پارٹی کے اپنے ہی ایک ایم پی اے جاوید نسیم نے وزیراعلیٰ پرکرپشن کا الزام لگا کر گوخٹک گوکا نعرہ لگایااورصوبے میں پارٹی کے کندھے پرچمکنے والے اسٹارزمیں ایک اوراضافہ کردیااس اقدام اورسینیٹ میں ووٹ بیچنے کے الزامات کے تحت جاوید نسیم کوپارٹی سے نکالابھی گیا لیکن بعد میں مشکوک اندازمیں اسے دوبارہ پارلیمانی سیکرٹری بنادیاگیاجواس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پارٹی نے صلح کرلی ہے۔ یہ وہ وجوہات تھیں جوتحریک انصاف کو اس خوف میں مبتلارکھے رہیں کہ وہ اتحادیوں کے ساتھ مل کرمطلوبہ اکثریت رکھتے ہوئے بھی ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کرانے سے ڈرتی رہی کیونکہ اسے خدشہ لاحق تھا کہ کہیں اسے اپنے ہی ایم پی ایزپوری طرح ووٹ نہ دیں اورپارلیمانی تاریخ کا یہ بدترین اعزاز بھی اس کے حصے میں آئے کہ وہ برسراقتدارہوتے ہوئے بھی یہ انتخاب ہارگئی۔ اس نے اپنے لوگوں کو راضی رکھنے کے لئے پارٹی کے سادگی کے نعرے کو آگ میں جھونک دیا اوراس مقصد کے لئے اس نے اسمبلی میں موجود اپنے اراکین کی اکثریت کو وزارتیں دیں انہیں معاون خصوصی اورمشیربنایا اورجورہ گئے انہیں نوازنے کے لئے پارلیمانی سیکرٹریوں کی فوج بنالی وہ توبھلا ہوآئین میں اٹھارویں ترمیم کا جس کی روسے ایک حکومت ایک حد سے زیادہ وزیر، معاون اورمشیرنہیں رکھ سکتی ورنہ پتہ نہیں اورکیا کرکے تحریک انصاف کی حکومت روایتی سیاست کرنے والوں کو بھی بہت پیچھے چھوڑدیتی اوریہ اعزازبھی اپنے نام کرجاتی کہ اس کے سارے اراکین اسمبلی قومی خزانے کو شیرِمادرسمجھ کرہڑپ کرنے والے بن چکے۔ کسے یاد نہیں کہ تحریک انصاف نے پروٹوکول اورمراعات کے لینے کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنائے رکھا اورایسا کرنے پرملک کی دیگرسیاسی جماعتوں کو موردالزام ٹھہرتی رہی کہ وہ ملک کے وسائل لوٹنے اوراپنوں کو نوازنے کے ذمہ دارہیں لیکن تحریک انصاف نے تواپنے کردارسے ان "بُری "جماعتوں کو بہت پیچھے چھوڑدیا۔ تحریک انصاف نے نہ صرف اس صوبے میں اس کے اندرسے اصلاح کے نام پربننے والے پریشرگروپ میں سے لوگوں کو توڑنے کے لئے انہیںوزیربنایابلکہ اسی قومی وطن پارٹی سے اتحادپربھی مجبورہوئی جسے اس نے ایک وقت میں کرپشن کا الزام لگا کربڑی تحقیرسے حکومتی اتحاد سے نکال دیا تھا۔ تحریک انصاف نے اپنی کمزوریوں پرپردہ ڈالنے کے لئے صوابی سے منتخب ہونے والے صوبے کے سینئروزیرشہرام خان ترکئی کی جماعت کوگزشتہ دنوں اپنے آپ میں ضم کیااوراس کے بعد اس کی جان میں کچھ جان آئی کہ اب کہ وہ شاید اپوزیشن اوراپنے ہی کچھ ناراض اراکین کے انتقام سے بچ سکے اس لئے اس نے مزید شرمندگی سے بچنے کے لئے آخرکارڈپٹی اسپیکرکے انتخاب کے لئے 22دسمبرکی تاریخ دے ڈالی۔ لیکن بات یہیں پرختم نہیں ہوتی کیونکہ تحریک انصاف اب بھی پوری طرح بچ نہیں پائی کیونکہ جماعت کے اندرسے ہی اب بھی ڈپٹی اسپیکرکے خالی عہدے کے حصول کے لئے کئی امیدوارسامنے آچکے ہیں تاہم اجلاس کی غیرضروری طوالت اورعوام کا پیسہ لوٹنے کے کام میں تحریک انصاف اکیلی ہی ذمہ دارنہیں بلکہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی مفاہمت کے نام پراس سارے عمل میں حکومت کا پورا ساتھ دیا اور اپنا پورا حصہ وصول کیا۔
تازہ ترین