• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ دسمبر کا مہینہ ہے، کاروباری دنیا میں کاروباری سال کا آخری مہینہ25 دسمبر کو مسیحی برادری کا سب سے بڑا تہوار کرسمس ڈے ہوتا ہے جسے غریب سے غریب عیسائی بھی اپنی مالی حیثیت کے مطابق منانے کی کوشش کرتا ہے۔ کچھ غیر مسیحی بھی اس کو بطور فیشن منا لیتے ہیں۔ ڈیوڈ اسٹار، کرسمس ٹری، اس کو سجانے کا سامان، جہاں بجلی ہو وہاں اس کے لئے رنگین ننھے ننھے قمقمے سجاوٹ کے لئے چرچ جانے کے لئے نیا لباس، جوتے وغیرہ اگر اپنے لئے میسر نہ ہوں تو چھوٹے بچوں کے لئے لازمی قرار دیئے جاتے ہیں۔ سانتا کلاز کی طرف سے اہل خانہ اور بچوں کو تحفے یا کھلونے، کھانے میں پڈنگ، کیک یا مٹھائی۔ آنے والے مہمانوں کی تواضع، صاحب ثروت اصحاب تو اس دن نیا فرنیچر، ٹی یا ڈنر سیٹ، چادریں، تولئے جیسی اشیا خریدتے ہیں۔ یوں کاروبار خوب چمکتا ہے۔ 25 دسمبرکو یوم قائد اعظم منایا جاتا ہے اور جلوس نکلتے ہیں۔ اس مرتبہ 24 دسمبر کو عید میلادالنبی (بارہ ربیع الاول) منایا جائے گا۔ تقسیم سے قبل مسلمان خواتین ’’بارہ وفات‘‘ پر فرینی، زردہ یا کوئی اور چیز تیار کرتی تھیں اور عزیزوں اور محلے داروں میں تقسیم کرتے تھیں، گھر گھر میلاد کی محفلیں ہوتی تھیں ۔ گھر والیاں اور عزیز و اقارب شریک ہوتے تھے اور خود ہی سیرت پر مضمون اور نعتیں پڑھتے اور دُعا خوانی کرلیا کرتے تھے، اختتام پر شیرینی ضرور تقسیم کی جاتی تھی۔ کسی انجمن یا محب رسول کی جانب سے عید میلاد بڑے پیمانے پر بھی منائی جاتی تھی جہاں علماء تقریر یں کرتے اور نعت خواں نعتیں اور دُر ود و سلام پیش کرتے تھے۔ بعض شہروں میں بڑی سادگی سے جلوس نکالا جاتا تھا۔ اب تو تقریباًہر شہر اور بڑے قصبے میں جلوس نکلتے ہیں جن میں شتر اور گھڑ سوار کی ٹولیاں، اسکوٹر سواروں کے دستے، ٹرکوں پر نعت خوانوں کے گروہ نعت خوانی کرتے نظر آتے ہیں۔ جھنڈوں اور جھنڈیوں کی بہار ہوتی ہے، عوام کلمے کے جھنڈے اپنے گھروں پر لگاتے ہیں۔ مٹھائی، پھل، دودھ اور شربت فروشوں کی عیدہوجاتی ہے۔اگر اس ہفتے بازاروں کا چکر لگایا جائے تو تیار شدہ ملبوسات اور جوتوں کی دُکانوں پر 20 فیصد، 30، 40 یا 70 فیصد رعایت کے بڑے بڑے بورڈ نظر آئیں گے۔ اخباروں میں بھی اسی قسم کے اعلانات کی کثرت دکھائی دے گی۔ موجودہ دسمبر تو ایک خاص موقع ہے مگر ہمارے ہاں پورے سال سیل کا چکر لگا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں سیل کا طوفان دوسری بہت سی رسوم و رواج کے ساتھ مغربی تقلید کی صورت میں آیا مگر ہم نقل بھی صحیح طور پر نہیں کرسکے۔مغربی ملکوں میں سب سےبڑی سیل دسمبر میں ہوتی ہے۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ کرسمس کے تہوار پر کم آمدنی والوں کو رعایت سے ضروری اشیا فراہم ہو جائیں جبکہ ہمارے ہاں عیدالفطر اور عید الاضحٰی پر چیزیں مہنگی کردی جاتی ہیں۔ مغربی ملکوں میں بڑے بڑے اسٹور اور دُکانیں دسمبر میں اپنی سال بھر کی فروخت کا جائزہ لیتے ہیں۔ جس سامان کی فروخت تخمینوں کے مطابق نہیں ہوتی اس کو الگ کر دیتے ہیں کیونکہ غیر مقبول اشیا کو اسٹاک میں رکھنا سرمایہ کاری کے اصول کے خلاف ہے اگر اس پر کوئی نفع نہیںمل رہا تو اس سے جان چھڑا لینا ہی دانش مندی ہے۔ یوں بعض وقت بعض اچھی اور قیمتی اشیا سستے داموں مل جاتی ہیں۔ دوسرے بعض اشیا سال بھر میں اپنا رنگ و روپ کھو دیتی ہیں۔ بعض کپڑوں، لباسوں کو کیڑا لگ جاتا ہے، بعض میں معیاری نقص ہوتا ہے، سیل کے ذریعے ایسی چیزوں سے چھٹکارا حاصل کرلیا جاتا ہے۔ وہاں عوام کو سیل پر اعتماد ہوتا ہے وہ بڑے اسٹوروں کی سالانہ سیل کا انتظار کرتے ہیں اور مایوس نہیں ہوتے۔ راقم کو واشنگٹن میں دسمبر میں ایک بڑے اسٹور کی سیل دیکھنے کا اتفاق ہوا، اس کی جانب سے سیل کی تاریخ کا اعلان کیا گیا۔ وہاں اسٹور بر وقت 9 بجے کھلتے ہیں۔ میں جلدی جلدی ناشتہ کرکے دس بجے کے قریب وہاں پہنچا۔ یہ تیار ملبوسات کی سیل تھی۔ مگر مجھے خریدار بھی زیادہ نظر نہیں آئے اور ہینگروں پر قمیص، پتلون، سوٹ، ٹائیاں، چیسٹر وغیرہ بھی کم نظر آئے۔ میں نے ایک ملازم سے صورتحال کی واقفیت چاہی۔ اس نے مجھے ایک غیر ملکی سمجھتے ہوئے کہا کہ یہاں سیل کی صبح 2 بجے سے خریداروں کی لائن لگ جاتی ہے اور جیسے ہی اسٹور کا دروازہ کھلتا ہے یہ ہال میں آکر اپنی پسند کا مال چُن لیتے ہیں۔ آپ بہت دیر میں آئے ہیں۔ میں نے ایک اور سوال کیا کہ بھگدڑ میں کوئی زخمی نہیں ہوتا تو اس نے کہا لائن اسی نظم و ضبط سے آگے بڑھتی ہے۔ پھر بھی مجھے دو پتلون پانچ ڈالر میں مل گئیں۔ ان کے پائنچے کٹے ہوئے نہیں تھے۔ کائونٹر پر بتایا گیا کہ درزی بیٹھے ہیں وہ بیس منٹ میں ان کو آپ کے ناپ کے مطابق کردیں گے اور50 سینٹ فی پتلون اُجرت ہوگی۔ میں ان کو بغیر کٹوائے لے آیا۔ چند ہفتوں بعد عید آرہی تھی، میں ان کو ٹھیک کرانے محلے کی دُکانوں پر لے گیا۔ ہر ایک نے پانچ ڈالر فی پتلون کا مطالبہ کیا اور کم از کم ایک ہفتے میں دینے کو کہا، بہرحال میری مشکل میری لینڈ لیڈی نے آسان کردی جو باقاعدہ درزن تھی۔ جہاں تک سیل میں 20/15 فی صد کی رعایت کا تعلق ہے تویہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ چلر اور تھوک قیمتوں میں فرق ہوتا ہے اور اس طرح فروش کار کو کوئی خسارہ نہیں ہوتا مگر 50 اور 70 فی صد میں صرف 50 اور 30 فی صد والی بات پلے نہیں پڑتی اور اگر واقعی انہیں 30/50 فی رقم ادا کرنے پر اشیا دستیاب ہوجاتی ہیں تو وہ عوام کا استحصال کررہے ہیں، بلکہ اس کو دھوکے اور فریب سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور عوام کو ان جھوٹی سیلوں کے چکر میں نہیں آنا چاہئے ویسے ملک میں سیلز کو منظم ہونا چاہئے اور ہر وقت دکان پر سیل کے نوٹس سے عوام کو ترغیب دینے کی کوشش کا رواج ختم ہونا چاہئے۔ یہ ذمہ داری کاروباری انجمنوں کی ہے۔
تازہ ترین