• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی 27 دسمبر کو دہشت گردی کا شکار ہونے والی اپنی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کی 8 ویں برسی ان حالات میں منارہی ہے ، جب پیپلز پارٹی پر خود دہشت گردوں کی سرپرستی اور معاونت کرنے کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں ۔ کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کا رخ پیپلزپارٹی کے لوگوں کی طرف ہو گیاہے اور پیپلز پارٹی اس صورت حال کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنےکےلیے محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے جا رہی ہے ۔27 دسمبر 2007 ء کو دہشت گردی کے ذریعہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا اور ٹھیک 8 سال بعد اسی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں آج پیپلز پارٹی نشانےپرہے ۔ یہ بات پاکستان کے سیاسی مستقبل کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے ۔ یہ حالات کیوں پیدا ہوئے کہ جو سیاسی جماعت پاکستان میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار رہی ، دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں سب سے زیادہ اس کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے ، جس پر صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ ( اسٹیبلشمنٹ ) کو بھی غور کرنا چاہیے لیکن اس سوال پر غور کرنےسےپہلے ذہنوں میں ابھرتا ہوا ایک انتہائی تشویش ناک سوال معروضی جواب کا طالب ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کا رخ کس طرف مڑ گیا ہے؟ محترمہ بے نظیر بھٹونے پاکستان کو بحرانوں سے نکالنےکےلیے اپنی جان قربان کر دی ۔ان کی8 ویں برسی کے موقع پرسب لوگوں کو مذکورہ بالا سوالات پر سنجیدگی سے غور کرناچاہیے ۔پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے اسباب کیا ہیں اور اس کے تانے بانے کہاں جا کر ملتے ہیں ، اس کی وضاحت محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ’’ مفاہمت ‘‘ میں کر دی تھی ۔ وہ لکھتی ہیں کہ ’’ پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز جمہوریت کے تعطل سے ہوا ۔ ۔۔ مشرف حکومت اور ایک غیر ملکی مسلم حکومت دونوں نے مجھے بتایا تھا کہ چار خودکش بمبار اسکواڈ وطن واپسی پر مجھے قتل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ ان میں طالبان رہنما بیت اللہ محسود ، اسامہ بن لادن کے ایک بیٹے حمزہ بن لادن ، لال مسجد کے عسکریت پسندوںاور کراچی کے ایک عسکریت پسندگروہ کے بھیجے ہوئے اسکواڈ شامل ہیں ۔ ۔۔ میں نے جنرل مشرف کے نام ایک خط لکھا ۔ میں نے انہیں بتایا کہ اگر عسکریت پسندوں نے مجھے قتل کر دیا تو یہ حکومت میں موجود عسکریت پسندوں کے ہمدردوں کی بدولت ہو گا ، جو میرے شبہے کے مطابق مجھے ختم کرکے اس خطرے کو ختم کرنا چاہتےتھے ، جو اقتدارپر پرویز مشرف کی گرفت کو میری طرف سے لاحق تھا ۔ کراچی کے قلب میں ایک جم غفیر مسرت اور سرشاری کے عالم میں عوام کی طاقت کا جشن منا رہا تھا ۔ اچانک سڑکوں کی روشنیاں ہلکی ہوئیں اور بجھ گئیں ۔ ‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی ان چند لائنوں میں بین السطور یہ بات کہہ دی ہے کہ مذکورہ بالا دہشت گرد ایک فوجی آمر کی حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے کام کر رہے تھے اور ان کے خلاف آپریشن محض ایک دکھاوا تھا ۔ اپنی اسی کتاب میں وہ ایک اور جگہ لکھتی ہیں کہ ’’ جس طرح بین الاقوامی عوامل ضیاء الحق کی آمریت کی بنیادیں مضبوط کرتے رہے ، بالکل ویسے ہی ایک نسل کے بعد انہی بین الاقوامی عوامل نے مشرف کی آمریت کی بنیادیں مضبوط کیں ۔ ‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بین السطور عالمی سامراجی قوتوں،پاکستان کی غیر جمہوری قوتوں اور دہشت گرد گروہوں کے شعوری اور لاشعوری گٹھ جوڑ کی وضاحت کی ہے اور انہوں نے دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ ان سب کا مقصد مختلف ہو سکتا ہے لیکن ایجنڈا ایک ہے ۔ ان سب کے اہداف بھی یکساں ہیں ۔ دنیانےدیکھا کہ عالمی سامراجی طاقتوں ، پاکستان کی غیر سیاسی قوتوں اور دہشت گردوں کا ہدف جمہوری خاص طور پر ترقی پسند ، روشن خیال اور لبرل جمہوری قوتیں رہی ہیں ۔محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی زندگی میں ہمیشہ یہ بات کہتی رہی ہیں کہ پرویز مشرف کے دور میں دہشت گردوں کے خلاف جو ہوا ، اس کے نتیجے میں دہشت گرد پہلےسے زیادہ مضبوط ہوتے گئے اور ترقی پسند جمہوری قوتیں کمزور ہوتی گئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو دہشت گردی کا شکار نہ ہوتیں اور زندہ ہوتیں تو وہ خود یہ سوال بہتر طریقےسے کر سکتی تھیں کہ کیا موجودہ آپریشن بھی پرویز مشرف دور کے آپریشن کا تسلسل ہے ؟
تازہ ترین