• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا مسئلہ انتہا پسند نہیں معتدل مزاج طبقےہیں

انتہا پسندی،زبان سے نفرت اور فرقہ واریت جیسے امراض جن سے ہم بخوبی واقف ہیںپاکستانی معاشرے میں اعتدال پسندی کا نتیجہ ہیں۔پاکستان جس افراتفری کا شکار ہے وہ کسی مولوی ،عالم یا کسی مذہبی رہنما کی پھیلائی ہوئی نہیں ہے ۔سیاست اور طاقت کبھی مولوی کے تحت نہیں رہی۔لائوڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہوئے وہ شور شرابے اور پریشانی کا ذمہ دار ضرور رہا ہے اور اب بھی ہے لیکن قومی پالیسیوں کے پیچھے کبھی اس کا ہاتھ نہیں رہا۔یہ استحقاق اور اجارہ داری مولوی یا مذہبی جماعتوں کی نہیں بلکہ انگریزی بولنے والوں کی ہے جو کہ پاکستان کے اصل حکمران ہیں۔آج پاکستان کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے ؟ فوج ،سول سروس ،سیاسی طبقے ،کاروباری سیٹھ اور امیر و کبیر طبقے کے ہاتھ میں،اس صف میں جہادی کہاں کھڑے ہیں؟
کاکول اور کوئٹہ اسٹاف کالج کی ٹرینڈ آرمی کمانڈ نے ہمیں جہادی اسلام کے ثمرات دئیے ہیں۔انہوں نے ہی قوم کو افغان جنگ میں داخل کیا ۔آج بھی آپ کا واسطہ ایسے جنرلز اور ذہین ڈپلومیٹس سے پڑ سکتا ہے جو قسم کھائیں گے کہ پاکستان کا مذہبی تبلیغ میں کردار جو کہ امریکی ڈالرز اور عرب ریالز کی بدولت قائم رہا ،اشد ضروری تھا کیونکہ افغانستان کے بعد پاکستان کی باری ہے اور یہ کہ سوویت بحیرہ عرب کے گرم پانیوں پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ان بے معنی خیالات کا اظہار کرنے والے جنرلز پاکستان کے مسائل سے غافل اور افغانستان کی آزادی کے بارے میںزیادہ جانتے ہیں۔مولوی اور مدرسے کا طالب علم اس صورت حال میں پیدل سپاہیوں کی مانند تھے۔انہوں نے بڑے مقاصد یا پالیسیوں کو ترتیب نہیں دیا۔بندوقیں ،رقم اور میزائل کہیں اور سے آتے تھے۔یہ مجاہدین صرف اس عقیدے کی پیروی کرتے تھے کہ وہ شہید ہو کر جنت میں جائیں گے۔
نامور علما اکرام قرارداد مقاصد کی حمایت میں ضرور بات کرتے ہیں لیکن اس کے لکھاری وہ نہیں ہیں۔یہ کارنامہ لیاقت علی خان کی قیادت میں قومی اسمبلی کے ممبرز کا تھا جنہوں نے پورازور لگا کر اس کی مداح سرائی کی تھی اور اسمبلی کی ہندو اقلیت کے احتجاج کی جانب ان کی توجہ نہ ہونے کے برابر تھی۔یہ سب اس کے بر عکس تھا جس کا وعدہ قائد اعظم محمد علی جناح نے 11ستمبر کے روز اپنی تقریر میں کیا تھا۔غیر متوقع طور پر سب سے زیادہ ٖفصیح اور قابل تقریر اس دن سر ظفر اﷲ خان کی تھی جو عقیدے کے لحاظ سے احمدی تھے۔کیا اس کو بنیاد بنا کر قرار داد کو رد نہیں کیا جا سکتا تھا۔مذہبی مبلغ ہمیں سیٹو یا سینٹو معاہدے کی طرف نہیں لے کر گئے،یہ امریکہ کے دفاعی معاہدے تھے جس کے اشتیاق میں پاکستان اس کا ممبر بن گیا۔بھارت کا خوف بھی اس کی اہم وجہ تھا اور اس کے بارے میں واضح ہو نے کی ضرورت ہے کہ ریاست کا قیام مذہبی طبقےنے نہیں کیا ۔یہ کام سب سے زیادہ تعلیم یافتہ،مہذب ،روشن دماغ اور ذہین طبقے کا تھا جنہوں نے بھارت سے ہجرت کی۔بھارت کے خلاف ان کے بھڑکتے ارادے تھے جنہوں نے اپنے گھر بار اور یادیں وہاں چھوڑ دیں۔یہ درست ہے کہ وہ اپنے خواب یعنی پاکستان پر یقین رکھتے تھے لیکن ہم آخر فرشتوں کی نہیں بلکہ انسانوں کی بات کر رہے ہیں ۔یہ سوچنا مشکل نہیں کہ ان کے سینوںمیں بھی امیدگھات لگائے ہو گی کہ وہ نئی ریاست میں اپنے لیے بہتر کر سکیںگے۔لیکن ہجرت اور تقسیم کے دوران جائیداد کی لوٹ مار نے ان کی امید پر پانی پھیر دیا۔متروکہ جائیداد پر قبضہ کی دوڑ شروع ہوگئی۔ بہت سے لوگ جو بھارت میں مفلس تھے، اس نوزائیدہ مملکت میں جائیداد وںکے مالک بن گئے ۔
بھارت کے ساتھ ہزار سال تک جنگ لڑنے کا نعرہ کسی مذہبی رہنما نے نہیںلگایا تھا،لیکن آکسفورڈاور برکلے جیسے اداروں کے تعلیم یافتہ ذوالفقار علی بھٹو نے ۔ وہ بہت جلد پاکستانی سیاست کے آسمان کا ستارہ بن گئے ۔ درحقیقت یہ ستم ظریفی بھی پاکستان کی قسمت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے کہ یہاں غیر ملکی اداروںسے تعلیم حاصل کرنے والے بھی اپنی جہالت اور تعصب پر قابو نہیں پاسکتے ۔ اس ضمن میں بہت سی مثالیں۔ مولوی اور مدرسوںکے طلبہ کا اس میںکوئی عمل دخل نہیں۔ پاکستان کے بہترین دماغ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے پاس گئے اور اور کشکول بھر لائے ، شاید کبھی نہ توڑنے کے لیے ۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو غیر ملکی مہم جوئی کا شوق ستانے لگا۔ فوجی آمر ، جو ملک میں ہلکی سی مخالفت بھی برداشت نہ کرتے تھے، بیرونی طاقتوں کے سامنے فرماں برداری کی تاریخ رقم کرنے لگے ۔ پاکستان میں انتہا پسندی پھیلانے کا داغ ان کے دامن پر ہی دکھائی دیتا ہے جو متعدل مزاج کہلاتے ہیں۔
معتدل مزاجی کیا ہے ؟یہ سخت اور غیر مقبول فیصلے کرنے سے گریز کا نام ہے ۔ اس کا مطلب بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا، ہوا کے رخ کے ساتھ چلنا، گویا، اسٹیٹس کو کی نازبرداری کرنا،اور حاصل مفاد کو سمیٹنا۔ پاکستان میں صحت اور تعلیم کے شعبے اس قدر کیوں نظر انداز کیے گئے ؟ اس کی وجہ یہ کہ اشرافیہ اعتدال اور لبرل ازم کی چیمپئن تھی، اور اسے ان مسائل کی پروا نہ تھی ۔ اُن کے اپنے اسکول ، کالج اور اسپتال تھے ۔ حکمران اور اشرافیہ طبقہ کو ہلکا سا سردرد ہوا نہیں اور وہ لندن سدھارے نہیں۔ پی آئی اے، کراچی اسٹیل ملز، ریلوے کس نے تباہ کیے ؟ ان کی تباہی میں کسی مدرسے کے طلبہ کا ہاتھ نہیں تھا۔ مذہبی رہنمائوں پر کہانیاں اور لطیفے بنتے رہے ، اُن کے طرز عمل نے لبوں پر مسکراہٹ بکھیری، لیکن وہ لوٹ مارکرنے والے نہیں تھے ۔ لندن سے لے کرپاناما تک بدعنوانی کے جھنڈے گاڑنے والوں کا تعلق معتدل مزاج گروہ سے ہے ۔
یہ بات درست ہے کہ انتہا پسندی یا کلاشنکوف کا اسلام جماعت ِاسلامی کے ڈنڈا بردار دستوں کی ترقی یافتہ شکل ہے ، لیکن وہ لوگ بھی پاکستان کے حکمران طبقوں کی ناکامیوں کی پیداوار تھے ۔ پاکستان کو معاشرے اور ریاست میں تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ یہ جمہوریت کے نام پر ڈاکو راج کے ساتھ کب تک نباہ کرسکتا ہے ؟ایک معتدل نہیں، طاقتور لیڈر کی ضرورت ہے ، ایسا لیڈر جو کم از کم منافقت سے کنارہ کشی کی جرات رکھتا ہو۔
یہ تبدیلی کوئی ایسا شخص لاسکتا ہے جو شدید تصورات رکھتا ہو۔ اس سے مراد تنگ نظر ی نہیں، بلکہ توانا اور متحرک تصورات۔ طالبان کی انتہا پسندی دراصل قدیم اور دقیانوسی تصورات کی دلدل ہے ۔ وہ تنگ نظری کا جھاڑ جھنکار ہیں، پاکستان کو ایسی انتہا پسندی درکار ہے جو جمود کا شکار نہ ہو بلکہ راستہ تلاش کرسکے ۔ وہ آگے بڑھ کر میدانوں کی وسعت، سمندروں کی گہرائی اور پہاڑوںکی بلندی کو چیلنج کرسکے ۔ یقینا ًیہ کام ایک معتدل سوچ رکھنے والے شخص کے بس سے باہر ہوتے ہیں۔ کھوکھلے نعرے لگانے والے معتدل مزاج ہمارا کافی کباڑا کرچکے ۔ اگر شوریدہ سری کو موقع دیں۔ یقیناً دل کے پاس پاسبان ِعقل ہونی چاہیے، ’’لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے۔ اقبال کا شاہین بھی طاقت اور توانائی کی علامت ہے ، لیکن ہم نے اس شاہین کو بھی کرگس کے جہاں سے آشنا کرکے رہائشی کالونیوں کی گزرگاہوں پر بٹھا دیا ہے۔ شاید جرات ِ رندانہ کی پاکستان کو جتنی ضرورت آج ہے ، کبھی بھی نہ تھی۔

.
تازہ ترین