• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی انتخابات کی کوریج کے دوران جب نیویارک کی گلیوں اور بازاروں سے رپورٹنگ کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی نعروں پرمیری رپورٹ نشر ہوئی اورمیں نے یہ کہا کہ وہ مسلمان ملکوں کے خلاف امریکہ میں داخلے کی پابندیاں بھی لگا سکتا ہے اورصحت کے حوالے سے سابق صدر اوباما کے اوبامہ کیئر پروگرام کو بھی ختم کر سکتا ہے بلکہ دنیا بھرمیں دفاعی اور تجارتی معاہدوں سے بھی نکل سکتا ہے تو وہیں پر کھڑے کھڑے مجھے کچھ دوستوں کی کالز موصول ہوئیں کہ آپ شاید امریکہ کو جانتے نہیں کیونکہ دنیا کے حالات اور خود امریکہ میں مسلمانوں کی مستحکم قانونی حیثیت ڈونلڈ ٹرمپ کو ایسا نہیں کرنے دے گی بلکہ انہوں نے کہا کہ شاید مسٹر ٹرمپ مسلمانوں کے بارے میں اپنے انتخابی وعدے اور نعرے واپس لے لیں گے کیونکہ امریکہ وہ ملک ہے جو اپنی سرحدوں کے اندر نہیں رہتا بلکہ وہ اس وقت کئی ملکوں اور خطوں میں جنگیں لڑ رہا ہے جہاں پر اسے مسلمانوں کی خیرسگالی اور ہمدردی درکار ہو گی۔ تاہم وہی ہوا۔ نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر چارج سنبھالا اور سات مسلمان ملکوں کے لوگوں پر یہ کہتے ہوئے ان کی امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دی کہ اب امریکہ میں وہی داخل ہوگا جو امریکہ سے پیارکرے گا۔ اس صورتحال نے دنیا بھرخصوصاً امریکہ میں موجود مسلمانوں کو کسی حد تک پریشان اور غیریقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے امریکہ میں یہ مسلمان چھوٹے اور بڑے گروپوں کی صورت میں تو موجود ہیں تاہم ان کی امریکی سیاست اور نئی صورتحال میں کوئی ایک مشترکہ آواز سامنے نہیں آئی۔ وہ ابھی اس بارے میں کوئی مشترکہ لائحہ عمل بھی طے نہیں کر پائے اور شاید ابھی پوری طرح حالات کو سمجھ بھی نہیں پائے کہ خود امریکہ میں اہم عہدوں پر فائز سابق اور موجودہ اہم عہدیداروں نے نئے امریکی صدر کے اقدامات کی مزاحمت شروع کر دی ہے جس کی اتنی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ پاکستانی اخبارات میں جس طرح سابق وزیرخارجہ میڈیلین البرائٹ کا بیان سامنے آیا ہے وہ بہت کچھ سمجھنے کے لئے کافی ہے جن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے مسلمانوں کو دیگر امریکیوں سے الگ سے رجسٹر کرنا شروع کیا تو وہ احتجاجاً اپنے آپ کو مسلمان کے طور پر رجسٹر کرائیں گی۔ یہ شاید مسلمانوں کے حوالے سے ایک اہم ترین آواز ہے اور یہ بھی سب امریکیوں کو معلوم ہے کہ وہ اکیلی نہیں بلکہ ایسے بہت سے لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں۔ امریکی معاشرے میں جس طرح امریکی صدرنے مذہب کے نام پر امتیاز برتا ہے اس نے انہیں خود بہت سارے امریکیوں کے لئے اجنبی بنادیا ہے، وہ ان سارے امریکیوں کے لئے اجنبی ہیں جو اپنے بیچوں بیچ ایک مسلمان خاتون کو ٹائمز اسکوائر میں برقع میں بے بی کارٹ کو لے جاتے ہوئے دیکھتے رہے اور انہیں کچھ نہیں ہوا۔ کسی نے اس خاتون پر نہ جملہ کسا، نہ اسے روکا حالانکہ اس کے ارد گرد موجود تمام لوگ جو جو کچھ پہنے ہوئے تھے ان کے بیچ یہ خاتون بالکل ایک اجنبی تھی لیکن وہ بھی ان کے بیچ موجود رہی۔
ڈونلڈ ٹرمپ شاید ان امریکیوں کی بھی نمائندگی نہیں کرتے جن کا تعلق نیویارک کے اس علاقے سے ہے جہاں جنوبی ایشیا کے ممالک کے لوگ آباد ہیں۔ اس علاقے میں شناخت کے لئے ایک اسٹریٹ بھارت اور دوسری بنگلہ دیش کے نام سے منسوب ہے تو ان کے بیچوں بیچ ایک سٹریٹ ایسی بھی ہے جو پاکستان کے حصے میں آئی ہے۔ تاہم پاکستانیوں نے اپنے حصے میں آنے والی اسٹریٹ کا نام پاکستان اسٹریٹ کی بجائے ڈائیورسٹی پلازہ رکھا جہاں پر ہر کوئی جغرافیہ، رنگ نسل اور مذہب کے امتیاز کے بغیر آ سکتا ہے اور یہ سب آتے بھی ہیں اور اس سڑک کی شامیں ہمیشہ مختلف ملکوں کے لوگوں سے آباد رہتی ہیں یہاں ارد گرد کی آبادیوں کے تمام لوگ اس شخص کو جانتے ہیں جو پاکستانی اور بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھی آغا صالح محمد ہیں اور یہ ڈائیورسٹی پلازہ چلا رہے ہیں۔ وہ سب ان کو آغا صاحب کے نام سے پکار پکار کر سلام کرتے تھے جس سے اندازہ ہوا کہ وہ سب ان کو کتنا اپنا سمجھتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں۔ ہماری ان سے ملاقات اپنے پاکستانی صحافی دوست کے ذریعے ہوئی۔ وہیں ہمیں اے این پی کے ایک اہم رہنما بھی ملے۔ ہمیں یہیں پر کچھ اندازہ ہوا کہ پاکستانی ان انتخابات کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ ان سب کا خیال تھا کہ اگر مسٹر ٹرمپ صدر بنے بھی تو وہ یہ سب خصوصاً مسلمانوں کے خلاف اقدامات سے گریز کرتے ہوئے دنیا میں امریکی مفادات کو بچائیں گے۔ مسٹرٹرمپ توشاید ان امریکیوں کی بھی نمائندگی نہیں کرتے جن کی اجازت سے جب میں نے ان کے لان میں نماز پڑھنی چاہی تو دونوں میاں بیوی نے اپنے گھر کے کارپٹ کا ایک صاف ٹکڑا کچھ اس انداز میں دوران نماز میرے سامنے بچھایا کہ دونوں نے اس کا ایک ایک کونہ پکڑا ہوا تھا اور وہ خاموشی سے آ رہے تھے تاکہ میری نماز نہ ٹوٹے۔ یہ تو امریکی سوسائٹی میں پائے جانے والے وہ لوگ ہیں جن کے عمل اور کام نئے صدر سے بالکل میل نہیں کھاتے لیکن دوسری جانب کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان جنہیں نئے صدرکی پالیسیوں سے خطرہ ہے وہ بالکل محفوظ ہیں وہ ہے امریکہ کا وہ قانون جو امریکیوں کو مذہب اور رنگ ونسل کے نام پرامتیاز سے روکتا ہے اور اگر وہ اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو وہ ساری زندگی کے لئے جیل بھی جا سکتے ہیں۔ نئے صدر زیادہ سے زیادہ امریکہ میں مسلمانوں کی نگرانی بڑھا سکتے ہیں لیکن اگرخود یہ مسلمان قانون پرعمل کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں تو وہ بالکل محفوظ ہیں اور انہیں دیگر ملکوں آئرلینڈ، روس اور جرمنی وغیرہ کے شہریوں کی طرح وہ سارے حقوق حاصل ہیں جس کی وجہ سے وہ ہرقسم کے امتیاز سے محفوظ ہیں۔ ہاں جن کو خطرہ ہو سکتا ہے اور وہ کسی اقدام کی زد میں آ سکتے ہیں وہ سارے وہ ہیں جو قانون کی زد میں آتے ہوں، ایسے میں ان مسلمانوں کو مسٹر ٹرمپ سے زیادہ اپنے اعمال سے خطرہ ہو سکتا ہے جن کے لئے بہتر یہ ہوگا کہ وہ قانون کو توڑنے سے گریز کریں۔ مسلمان کتنے کمزور ہو سکتے ہیں، کے سوال کے جواب میں ایک پاکستانی مسلمان کا جواب بڑا اہم تھا کہ جب میرے دل میں خود کوئی چور نہیں تو مجھے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے مجھے امریکہ نے شہریت دے کر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ میں نے بھی ملکی قوانین اور قواعد پر عمل کرکے اپنے کام سے امریکہ کو بہت فائدہ پہنچایا ہے۔ ایسے میں مجھے ٹرمپ کی پالیسیوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

.
تازہ ترین