• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخی طور پر ہمارا دشمن مشرقی سرحدوں سے حملہ آورہوتا رہاہے، ہماری تین بڑی جنگیں مشرقی سرحد پر ہی لڑی گئیں لیکن اب دشمن اپنے نئے ڈاکٹرائن کے مطابق مغربی سرحد سے پاکستان پر حملہ آور ہو رہا ہے۔اس مرتبہ جنگ کی نوعیت اور طریقہ کار مختلف ہے بدقسمتی سے دماغ اور پیسہ دشمن کا ہے جبکہ ہتھیار ہمارے اپنے لوگ ہی ہیں یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ ہمارے لوگ اس پاک سر زمین پر بارود بن کرکیوں تباہی پھیلا رہے ہیں۔کون سی پالیسیاں اور عوامل ہیں جو ان کو دہشت گرد بنا رہے ہیں۔ 1979ء میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا جس کا مقصد ہمیں یہ بتایا گیا کہ روس پاکستان کے گرم پانیوں پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے جس کے لئے جہاد ناگزیر ہے تب امریکہ ، یورپ سمیت عرب دنیا نے جہاد کے نعرے کو بلند کیا اور اس کے لئے ہر طرح کے وسائل بھی مہیا کیے اس وقت جہاد ایک مقبول نعرہ تھا روس کے خلاف افغانستان میں جہاد کرنے کے لئے ناصرف پاکستان بلکہ عرب دنیا سے لوگ بھی جایا کرتے تھے۔ افغانستان میں اس جہاد کے باعث روس نا صرف پسپا ہوا بلکہ کئی حصوں میں بکھر گیا۔ جیسے ہی روس افغانستان سے شکست کھانے کے بعد واپس گیا تو امریکہ سمیت اس کے اتحادی ممالک نے اپنی پالیسی میں یو ٹرن لیتے ہوئے ان مجاہدین اور جہادیوں کو تنہا چھوڑ دیا جنہوں نے روس کو شکست دینے میں مرکزی کردار ادا کیا اس فاش غلطی سے افغانستان میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ کئی سال تک یہ مجاہدین آپس میں لڑتے رہے بالآخر طالبان کی شکل میں ایک تحریک کا آغاز ہوا جس نے پورے افغانستان کو فتح کر کے اپنی حکومت قائم کی ۔ اس تحریک نے جتنا عرصہ بھی افغانستان میں حکومت کی امن و امان کی صورتحال انتہائی بہتر رہی اس حکومت کو پاکستان سمیت عرب دنیا نے تسلیم کیا جبکہ امریکہ نے بھی ان سے تعلقات استوار کرنا شروع کر دیئے۔ 9-11 کے بعد افغانستان پر امریکی فوج نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہو ااور افغانستان میں حامد کرزئی کی ایک کمزور حکومت قائم ہوئی جس کی پورے افغانستان پر کبھی بھی حکومت نہ رہی۔ یہ وہ دور تھا جب ہمارے دشمن بھارت نے افغانستان میں اپنے پنجے گاڑنا شروع کیے اور پاکستان سے ملحقہ علاقوں میں اپنے سفارتخانے قائم کیے جن کا مقصد صرف پاکستان کے خلاف ایسے دہشت گرد تیار کرنا تھا جو بھارت کی جنگ پاکستان میں لڑ سکیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔مجھے قوی یقین ہے کہ افغانستان میں برسر پیکار داعش کو مضبوط کرنے اور اسکی جڑیں پاکستان تک پھیلانے میں بھی بھارت بھرپور معاونت کر رہا ہے ۔ پاکستان میں ضرب عضب کے بعد بہت امن آیا ۔ ضرب عضب میں دہشت گرد یا تو مار دیئے گئے یا افغانستان بھاگ گئے ۔ افغانستان میں چھپے ان دہشت گردوں کو ہر طرح کی معاونت بھارت فراہم کرتا ہے اس کا اظہار ان کے کئی سابقہ فوجی افسران بھی کر چکے ہیں۔ بھارت کسی صورت پاکستان کو مضبوط اورمستحکم نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ بھارت کا ڈاکٹرائن ہے کہ مضبوط اور مستحکم پاکستان کشمیر کی آزادی میں اہم کردار ادا کرے گا لہٰذا پاکستان کو اندر سے کمزور اور معاشی طور پر غیر مستحکم رکھنا بھارت کے مفاد میں ہے ان حالیہ دہشتگردی کے واقعات کا مقصد پاکستان میں دوبارہ لوٹنے والے امن اور معاشی استحکام کو سبوتاژ کرنا ہے۔ پاکستان چین دوستی کی علامت سی پیک منصوبہ بھارت کو کسی صورت قبول نہیں اور میں اپنی متعدد تحریروں میں لکھ چکا ہوں کہ بھارت اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے ہر ممکن اقدام کرے گا اسی طرح جیسے ہی پاکستانیوں کے لئے ایک خوشی کی خبر آئی کہ وطن عزیز میں پاکستان سپر لیگ کا فائنل کھیلا جائے گا تو بھارت نے پاکستان میں کرکٹ کی دوبارہ بحالی کو روکنے کے لئے عملی اقدامات شروع کر دیئے اور چاروں صوبوں میںحالیہ دہشت گردی کے واقعات اسی مقصد کے حصول کی ایک کڑی ہے۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ پاکستان سپر لیگ کی انتظامیہ، ٹیمیں اور خاص طور پر غیر ملکی کھلاڑیوں نے پاکستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے باوجود لیگ کا فائنل پاکستان میں کھیلنے کے عزم کو دہرایا ہے ۔ حکومت پاکستان اور پاکستان آرمی نے بھی لیگ کی انتظامیہ اور غیر ملکی کھلاڑیوں کو فول پروف سیکورٹی دینے کی یقین دہانی کروائی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ دشمن جتنے مرضی حربے استعمال کر لے پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں ہو کر رہے گا انشاء اللہ۔
پاکستان میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کے فوراً بعد ہماری سول اور فوجی قیادت نے جس طرح بھرپور ایکشن اور رد عمل کا مظاہرہ کیا ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اور شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ہماری بہادر افواج نے افغان سرحد کے اس پار پاکستان مخالف قوتوں اور دشمن کو سبق سکھایا ہے۔ میری اطلاعات ہیں کہ پاکستانی عسکری قیاد ت نے افغانستان کو پاکستان میں حملے کرنے والے دہشت گرد گروہوں کی ایک لسٹ فراہم کی ہے اور ان کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا مگر افغان حکومت نے ان کے خلاف کارروائی سے معذرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جن علاقوں میں یہ گروہ اور دہشتگرد ہیں وہاں ہماری حکومت کی رِٹ موجودنہیںاِس جواب کے بعد ہماری افواج نے ان دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا اور ایک بھرپور رد عمل دیتے ہوئے 100 سے زائد دہشت گرد ناصرف مارے گئے بلکہ ان کی پناہ گاہوں کو بھی تباہ کر دیا گیااِس آپریشن کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کی اطلاعات آ رہی ہیں مگر میرا خیال ہے کہ پاکستان اور افغانستان مل کر اس دہشتگردی کے خلاف ایک ہو کر کام کریں گے کیونکہ دہشتگردی کے ناسورکا خاتمہ اب ناگزیر ہو چکا ہے ۔ افغانستان کو بھی یہ سمجھ آ رہی ہے کہ بھارت کے ہاتھوں زیادہ دیر کھیلنا اس کے وجود کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے جس طرح پاکستان ،چین اور روس قریب آ رہے ہیں اس صورت حال میں افغانستان کی موجودہ حکومت نے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہ کی تو یہ اس کے لئے بھی انتہائی نقصان دہ ہے ۔ پاکستان نے سفارتی محاذ پر بھی اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں ۔ وزیراعظم پاکستان کا ترکی کا دورہ بھی اس کی ایک کڑی ہے جس میں پاکستان ترکی حکومت سے درخواست کرے گا کہ وہ شمالی اتحاد کے ایک اہم رکن جنرل دوستم پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے جو کہ افغانستان حکومت کا ایک مضبوط دھڑا ہے اس کے ذریعے افغانستان حکومت پر دبائو ڈالا جا سکے کہ وہ اپنی حالیہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرے ۔ پاکستان کو عسکری اور ڈپلومیٹ محاذ پر اپنی جنگ بھرپور طریقے سے لڑنے کی ضرورت ہے ۔ عسکری محاذ پر تو نتائج انتہائی حوصلہ افزا ہیں جبکہ سفارتی محاذ پر مزید اہم اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی ابھی تک غیر واضح ہے لہٰذا پاکستان کو چین ، روس اور ترکی سمیت ان تمام ملکوں کے ذریعے افغانستان پر دبائو بڑھانے کی ضرورت ہے تا کہ افغانستان پاکستان مخالف عناصرکے خلاف فیصلہ کن کارروائی کر سکے۔ مجھ نا چیز کا ایک مشورہ ہے کہ پاکستانی سول اور اعلیٰ فوجی قیادت کو براہ راست افغان حکومت سے تعلقات بڑھانے کی اشد ضرورت ہے اگر ان کے کچھ خدشات ہیں تو ان کو بھی دور کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔


.
تازہ ترین