• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انہوں (عمران خان)نے ایسے دھیمے اندازمیں میرے سوال کا جواب دیا جیسے وہ نہ چاہتے ہوں کہ اس بھری محفل میں کوئی ان کے جواب کو سنے اورسمجھے۔میں نے اسلام آباد کے خیبرپختونخوا ہائوس میں ان کے ساتھ نشست سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے پوچھا تھا کہ کیاانہیں معلوم ہے کہ خیبرپختونخوا میں ان کی حکومت کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک (جوخود بھی اسی نشست میں موجود تھے)احتساب کے اسی قانون میں ترمیم لانے جارہے ہیں جسے انہوں نے خود ملک میں رائج احتساب کے دیگرنظاموں سے بہترقراردیکر اسمبلی سے منظورکروایا تھا توعمران خان کا جواب کچھ یوں تھا ـــ "نہیں مجھے پتہ ہے کہ ہمیں احتساب کمیشن کے قانون میں ترمیم کرنی پڑرہی ہے کیونکہ صوبے میں بیوروکریسی نے پین ڈائون یعنی قلم چھوڑہڑتال کردی تھی اورہمیں ان کے خدشات کوکم کرنے اورنظام کوچلانے کے لئے یہ ترمیم لانی پڑرہی ہے"۔
یہیں سے میرے دواحساسات مضبوط ہوئے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اوران کی حکومت چلانے والے کافی ـ "حقیقت پسند اورسمجھدار"ہوگئے ہیں جنہیں آٹے دال کا بھائومعلوم ہوچکا ہے کہ نظام چلانا ہے تو آئیڈیلسٹ ہونے کی بجائے ان ــــــ زمینی حقائقـ کو سمجھنا پڑے گا کہ ہمیشہ سب کچھ آپ کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ یہ احساس بھی ہوا کہ اس جماعت کی قیادت کو یہ احساس بھی ہوگیا ہے کہ ان کی حکومت کے قیام کا آدھا عرصہ گزرنے کے بعد اب انہیں ملک بھرمیں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے ساری توجہ خیبرپختونخوا پرمرکوز کرنی ہوگی اس لئے غیرلچکداررویہ رکھنے والے عمران خان جہاں کسی حدتک بے بس نظرآئے وہیں پرانہوں نے بعض معاملات پرجذبات سے بھرپوراندازمیں ہمیں یہ احساس بھی منتقل کیا کہ وہ اب اس صوبے پرپوری توجہ مرکوز کرکے اسے اتنا بدل دیں گے کہ لوگ اس کی مثال دیا کرینگے۔ وہ ایران اورسعودی عرب کے مابین پائے جانے والے تنائوکے معاملے پرکھل کربول رہے تھے تو خیبرپختونخوا کے بہت چھوٹے چھوٹے معاملات پرسوالات کے بھی جواب دے رہے تھے۔ہمارے بعض ساتھیوں کا اندازگفتگوایسا تھا کہ ہم سب کو اندیشہ تھا کہ اب توعمران خان اوران کے ساتھ موجود وزیراعلیٰ پرویزخٹک ضرورغصے میں آکرردعمل ظاہرکرینگے لیکن وہ جتنے تحمل سے نہ صرف ساری باتیں سن رہے تھے بلکہ ان کا جواب بھی دینے کی کوشش کررہے تھے تب ہماری سمجھ میں آیا کہ اب وہ دھرنے والے عمران خان اوران کے ساتھی نہیں رہے بلکہ وہ کافی سمجھداراورمعاملہ فہم ہوچکے ہیں جنہیں یہ نکتہ سمجھ آچکا ہے کہ وہ جتنا اختلاف رائے کو زیادہ برداشت کرینگے اتنا ہی ان کااپنا سیاسی قد اوروزن زیادہ ہوگا۔ یہ توان کے جوش اورجذبے سے واضح تھا کہ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ خیبرپختونخوا میں ان کی جماعت اورحکومت کی جانب سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے معاملے پر ان کے موقف کو قومی سطح پرجوپذیرائی حاصل ہوئی اس کا سلسلہ رکنا نہیں چاہئے اوراسی لئے وہ اب چاہتے ہیں کہ وہ صوبے کے دیگرحقوق یعنی پانی، گیس اوربجلی میں اپنا حصہ ہو یا دیگروفاقی اداروں سے متعلق خیبرپختونخوا کے معاملات ان پربھی وہ اسی طرح موقف اپنا کرسب کو ساتھ لے کرچلیں اوراس سے اسی طرح فائدہ اٹھائیں ۔
لیکن ایک نکتہ ایسا تھا جوعمران خان کے اندازاوران کی صوبائی حکومت کے اقدام سے واضح ہوگیا ہے کہ اس جماعت نے خیبرپختونخوا میں اب اپنے انتخابی منشورکے ایک اہم ترین نکتے یعنی بے رحمانہ احتساب سے توہاتھ کھینچ لیا ہے اوروہ اب صحت اورتعلیم کے ساتھ ساتھ جنگلات اورماحولیات جیسے سافٹ ایشوزتک خود کومحدود کرکے لوگوں کی نظروں میں اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں ۔کسے یاد نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے تشکیل کردہ احتساب کمیشن نے جب پہلی بارحاضروزیرضیا اللہ آفریدی اور کئی حاضرسروس سیکرٹریوں پرہاتھ ڈال کرانہیں گرفتارکیا بلکہ سابقہ حکومتوںمیں مبینہ لوٹ مارکرنے والوں کوپکڑنے کی کوشش کی توتحریک انصاف نے پورے پاکستان میں اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی اوردنیا کو بتایا کہ جہاں وہ صوبے کے نظام کو بدلنے کی کوشش کررہی ہے وہیں وہ خزانہ لوٹنے والوں کا احتساب بھی کرےگی۔ ملک بھرمیں تحریک انصاف کے پرجوش کارکنوں نے اس اقدام کو حوالوں کے طورپراستعمال کیا لیکن جب وہ ان حوالوں سے ملک کے دیگرعلاقوں میں لوگوں کو متاثرکرنے کی کوشش کررہے تھے تواسی وقت خیبرپختونخوا کے سول سیکرٹریٹ میں سرکاری افسروں کے ذہنوں میں ایک لاواپک رہا تھا جنہوں نے کہیں خاموشی سے اورکہیں ببانگ دہل اپنا پیغام واضح طورپردے دیا کہ صوبے میں حکومت چلانی ہے توسرکاری افسروں کے تحفظا ت کو ختم کرنا ہوگا کہ انہیں گرفتاربھی کرنا ہے توکم ازکم اس کا ایسا طریقہ کارہونا چاہیے کہ جس سے ان کی عزت نفس مجروح نہ ہواس دوران ایسا وقت بھی آیا جب سرکاری افسروں نے بعد میں گرفتاریوں سے بچنے کے نام پرچند ہزارروپے کے چیک بھی دستخط کرنے سے انکارکردیا اورشاید یہی وہ وقت تھا جب نظام رک گیا اورتحریک انصاف کو احساس ہوگیا کہ سب کچھ سیاسی اندازمیں نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لئے بیوروکریسی یا افسرشاہی کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔
ظالمانہ یعنی بے رحمانہ احتساب سے دستبردارہونے والی تحریک انصاف کے نئے طریقہ احتساب میں اب ہرایم پی اے کو گرفتارکرنے سے پہلے صوبائی اسمبلی کے اسپیکراورہرسرکاری افسرپرہاتھ ڈالنے سے پہلے چیف سیکرٹری سے اجازت لینی ہوگی یعنی اب احتساب کا یہ نظام بالکل بھی بے رحمانہ نہیں رہا اورکافی حدتک" ٹھیک "ہوچکا ہے کسے معلوم نہیں کہ یہ وہ نظام توبالکل بھی نہیں رہا جس کا عمران خان نے کبھی کریڈٹ لینے کی کوشش کی تھی۔ احتساب کے اس نظا م میں نئی ترمیم کی منظوری کے بعد اب کسی کو گرفتارکرنا ہوگا تواس کے لئے ملزم کے کیس کو پراسیکیوشن کانفرنس کے پاس بھیجنا ہوگا جہاں سے منظوری کے بعد ہی مطلوبہ شخص کو گرفتارکیا جاسکے گا۔ گرفتاریوں کے حوالے سے ڈی جی احتساب کمیشن کے اختیارات اس پراسیکیوشن کانفرنس کو دے دئیے گئے ہیں اوراب توکہتے ہیں کہ جسے گرفتارکیا جائے گا اس کے خلاف شکایت کنندہ کو منظرعام پربھی ضرورآنا ہوگا ایسا ہوا تو اب کسی بھی نئی گرفتاری کی خبرشاید ہی سننے کو ملے کہ اول توکوئی سامنے آکرشکایت نہیں کرے گا اوراگرشکایت کنندہ آبھی گیا تواسپیکراورچیف سیکرٹری سے اجازت لینے کا مرحلہ کون طے کرے گا۔ بس اب توشایدیہی سمجھنا کافی ہوگیا ہے کہ جتنا خان صاحب کو معاملات کی سمجھ آگئی ہے وہیں پراب احتساب کا یہ نظام بھی لپیٹا جاچکا ہے اس لئے اب شاید راوی چین ہی چین لکھے گا اوروہ جنہیں گرفتارہونا تھا اب ان کے بہت سارے خدشات دورہوچکے ہیں وہ بھی اب چین کی نیند سوئیں گے۔
تازہ ترین