• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طویل عرصہ کے بعد بالآخرپاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو گیا گو کہ یہ مذاکرات عالمی دبائو کے تحت شروع ہوئے جس کیلئے بھارت کو تمام حل طلب مسائل پر بات چیت کرنے کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ ابتدائی مرحلہ میں سندھ طاس معاہدے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا دو روزہ سیشن گزشتہ دنوں ختم ہوا ۔ سندھ طاس معاہدے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے اس دو روزہ سیشن میں بھارت نے مییارپن بجلی منصوبے پر پاکستان کا اعتراض تسلیم کر لیا اور اسکے ساتھ ہی اس منصوبے کے ڈیزائن کی تبدیلی تک کام روکنے کی یقین دہانی بھی کروا دی اور دونوں ممالک کے فود کے درمیان بروقت فلڈ ڈیٹا فراہم کرنے پر اتفاق بھی کیا گیا ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات کو آبی مذاکرات بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ ان میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم اور متنازع ڈیموں کے تعمیراتی منصوبوں پر بات چیت کی گئی۔ پاکستان نے اسلام آباد میں ہونے والے ان مذاکرات میں بھارت سے بگلیہار اور سالار ڈیم کی تفصیلات بھی طلب کرلیں لیکن حسب روایت بھارت نے متنازع ڈیموں پر بات چیت کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں 16 ڈیموں کے منصوبے کا ارادہ رکھتا ہے یہ تمام ڈیم دریائے چناب پر تعمیر کئے جا رہے ہیں جس سے پاکستان کیلئے پانی کی فراہمی شدید متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ بھارت آبی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمیشہ سے آبی جارحیت کا مظاہرہ کرتا آیا ہے اور اب بھی اس کی آبی رہزنی کا عالم یہ ہے کہ وہ دریائوں پر 62ڈیمز کے تعمیراتی منصوبے مکمل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اگر بھارت نے اتنی زیادہ تعداد میں ڈیموں کی تعمیر مکمل کر لی تو اس سے پاکستان کی چار کروڑ ایکڑ سے زائد اراضی کے بنجر ہونے کا اندیشہ ہے ۔انٹرنیشنل لا کے تحت بہتے دریائوں ، ہیڈ ورکس جو بھارت کی حدود میں ہیں اسے ان پر ڈیم بنانے کا حق حاصل نہیں مگر اس کے برعکس وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ بھارت جس رفتار سے پاکستان کے حصے میں آنیوالے دریائوں چناب، جہلم، سندھ اور انکے معاون ندی نالوں پر غیر قانونی ڈیم بیراج تعمیر اور بڑے بڑے بندھ باندھ کر ان دریائوں کا رُخ موڑنے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے اگر اسکی حکمت عملی اور رفتار یہی رہی تو آنے والے دنوں میں پاکستان کو پانی کے قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بھارت جن دریائوں پر تعمیر شدہ غیر قانونی ڈیم بنا رہا ہے اگر وہ ان کے گیٹ کھول دے تو پاکستان 48گھنٹوں میں ڈوب جائیگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی واٹر کمیشن کے پاکستانی حکام کیساتھ مذاکرات کا آغاز خوش آئند ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ کسی نہ کسی حد تک پاکستان کے ساتھ تعلقات میں استحکام لانا چاہتا ہے جبکہ اسے سی پیک منصوبہ کی صورت میں بھی پاکستان کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے اور وہ اب نئے مکینزم کے تحت معاملات کو حل کرنے کا خواہاں لگ رہا ہے۔ 1960ء میں سندھ طاس معاہدے کے تحت پاک بھارت حکام کو سال میں کم از کم ایک مرتبہ آبی مذاکرات کرنا ہوتے ہیں لیکن دونوں ملکوں کے حکام نے پانی کے مسئلے پر اب تک صرف ایک سو 12مرتبہ مذاکرات کئے ہیں جس کی بڑی وجہ بھارت کا ٹال مٹول سے کام لینا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونیوالے حالیہ مذاکرات میں بھارتی وفد نے قدرے لچک کا مظاہرہ کیا ہے لیکن بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی پر پاکستان نے بھارت میں رتلے اور کشن گنگا پاور منصوبے کو عالمی ثالثی عدالت میں اٹھانے کا اشارہ دے دیا پاکستان نے بھارت کے تین پن بجلی منصوبوں پر بھی اعتراض اٹھایا جس پر بھارتی واٹرکمشنر پی کے سکسینا اور انکے وفد نے مؤقف اختیار کیا کہ ابھی انہیں دیگر متنازع ڈیموں پر بات چیت کرنے کا مینڈیٹ حاصل نہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آبی مذاکرات پر اگلا سیشن 3 ماہ کے اندر نئی دہلی میں ہوگاجبکہ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان مذاکرات کا آئندہ مذاکرات عالمی بنک کی ثالثی پر 11،12 اور 13 اپریل کو امریکہ میں سیکرٹریز سطح پر ہونگے ۔ خطے کے دیگر ممالک ‘پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہونے پر جو بھی رائے رکھتے ہوں مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے بھارت کو کشمیر سمیت دونوں ممالک کے درمیان تمام حل طلب معاملات پر مذاکرات کرنے کی دعوت دینے میں ہمیشہ پہل کی ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف بار ہا اپنے بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے کمر بستہ ہے اور دہشتگردی کے ناسور کو بہت جلد ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا جائیگا۔ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ روابط قائم رکھے ۔ میاں نواز شریف نے یہ بھی کہا ہے کہ پاک افغان سرحد کھولنے کا فیصلہ جذبہ خیر سگالی کے تحت کیا گیا جو حکومت پاکستان اور یہاں کے عوام کی انسان دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاک افغان سرحد انسانی ہمدردی کے تحت کھولی گئی ہے کیونکہ پاک افغان سرحد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہی تجارت نہیں ہوتی بلکہ یہ تجارت وسط ایشیائی ریاستوں تک جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے انسانی ہمدردی کے پیش نظر سرحد کھولی ہے تا کہ دوسرے ملک میں رہنے والے ہمارے بھائی بھوکے نہ مر سکیں لیکن اگر افغانستان کی طرف سے پاکستان میںدہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے تو اس سرحد کو پھر سے بند کر دیا جائیگا ۔پاک بھارت آبی مذاکرات پر گفتگو کرتے ہوئے بھی خواجہ آصف نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ متنازع ڈیموں پر اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے جبکہ بھارت سندھ طاس معاہدہ کی پوری طرح پاسداری کرنے کا بھی پابند ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا اگلا سیشن اپریل میں امریکہ میں ہو یا آئندہ تین ماہ کے دوران نئی دہلی میں ہو ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت مذاکرات کے اگلے مراحل شروع ہونے سے پہلے ہمسایہ دوست ممالک سمیت امریکہ میں بھی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے بھارت پر نتیجہ خیز اور سود مند مذاکرات کیلئے دبائو بڑھائے۔ چین ، ترکی اور روس اس معاملے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میری حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ خارجی امور پر فوری طور پر جامع حکمت عملی اختیار کر ے ۔ یہ بات بھی اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سی پیک منصوبہ میں52ممالک شامل ہونے جا رہے ہیں بھارت بھی اس منصوبہ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتا کیونکہ اس پر اس شاندار اور بے مثال منصوبہ کی اہمیت واضح ہو چکی ہے سی پیک منصوبہ کی وجہ سے اپنی برتری کو بنیاد بناتے ہوئے پاکستان بھارت کو تمام تر متنازع اور حل طلب امور پر مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ حکومت پاکستان کے لئے یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ جب وہ بھارت سے برابری کی بنیاد پر نتیجہ خیز بات چیت کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتا ہے۔

.
تازہ ترین