• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
39 مسلم ممالک کے فوجی اتحاد میںپاکستان کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کی بطور کمانڈر انچیف تقرری کو اکثریتی مسلم ممالک ناصرف خوش آئند قرار دے رہے ہیں بلکہ وہ اس بات پر مکمل طور پر اتفاق کرتے ہیں کہ اب دنیا کو دہشت گردی سے لاحق خطرات سے ہمیشہ کیلئے نجات دلانے کا وقت آچکا ہے اور اب دیرپا قیام امن کے لئے کی جانے والی فیصلہ کن کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہو ںگی اسلامی فوجی اتحاد کے قیام سے اقوام عالم میں پائے جانے والے اس تاثر کو زائل کرنے میں مدد بھی ملے گی کہ شدت پسندوںکا تعلق کہیں نہ کہیں جا کر مسلم ریاستوں سے جڑا ہوا ہے۔ امریکہ سمیت مغربی ممالک کی یہ سوچ اور نظریہ تبدیل کرنا بے حد ضروری تھا اسی لیے سعودی وزیر دفاع محمد بن سلیمان السعود نے مسلم ریاستوں کا فوجی اتحاد بنانے کی ضرورت محسوس کی ۔15 دسمبر 2015 ء کو مسلم فوجی اتحاد کی بنیاد رکھی گئی ابتدائی طور پر مسلم ممالک کے اس فوجی اتحاد میں 34 ملک شامل تھے جن کی تعداد اب بڑھ کر 39 ہوچکی ہے۔ او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن )میں شامل ممالک بالخصوص سعودی عرب کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ مسلم ریاستوں کا فوجی اتحاد بننے سے دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے میں آسانی ہوگی اور دنیا میں قیام امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ممکن ہو جائیگا۔ 39 ممالک پر مشتمل اسلامک ملٹری الائنس ’’آئی ایم اے‘‘ جس میں مصر، بحرین، بنگلہ دیش، لیبیا، کویت، قطر، ترکی، متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا جیسی اسلامی ریاستیں بھی شامل ہیں ان ریاستوں میں بھی اس اتحاد کے قیام کو زبردست پذیرائی حاصل ہو رہی ہے ۔قوی امکان ہے کہ آئندہ دنوں میں آذر بائیجان ، تاجکستان اور انڈونیشیا بھی اس میں شامل ہو جائیں گے۔ ایران نے تاحال اس فوجی اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کیا گو کہ ایران حکومت خود بھی دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کو ختم کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ پاکستان کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کی قیادت دینے کا فیصلہ 6جنوری 2017ء کو کر لیا گیا تھا وزارت دفاع پاکستان نے گزشتہ دنوں 25 مارچ 2017ء کو سعودی عرب کی باضابطہ درخواست پر جنرل راحیل شریف کو متحدہ اسلامی افواج کی کمان سنبھالنے کے لئے اجازت دے دی ۔آئندہ ماہ کے پہلے ہفتے میں جنرل راحیل شریف مسلم ممالک کے اس فوجی اتحاد کی کمانڈ سنبھالیں گے ان کی تقرری کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بطور چیف آف آرمی سٹاف پاکستان دہشتگرد تنظیموں کے خاتمہ کیلئے جرأت مندانہ کارروائی کی اور آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کے سربراہ کے طور پر ان کے تقرر کو اس لیے بھی اہمیت حاصل ہے کہ وہ شدت پسند تنظیموں خاص طور پر داعش کے پھیلائو کو روکنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیںجو انہیں آپریشن ضرب عضب کے دوران حاصل ہوا۔ یہاں پر ایک بار پھر یہ بات کہنا ضروری ہے کہ ایران بھی دہشتگرد تنظیم داعش کو ناصر ف اپنا بلکہ دنیا میں قیام امن کا بھی دشمن تصور کرتا ہے جبکہ وہ جنرل راحیل شریف کی عسکری فہم و فراست کا بھی قائل ہے۔ عالمی و قومی عسکری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ راحیل شریف کا مسلم ممالک کی افواج کا کمانڈر انچیف بننا پاکستان کے لئے مثبت تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ۔ ان تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل راحیل شریف ناصرف اپنی نئی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں نبھائیں گے بلکہ وہ ایران سمیت دیگر مسلم ریاستوں کو اس فوجی اتحاد میں شامل ہونے پر قائل بھی کر لیں گے۔ راحیل شریف ایک سچے محب وطن پاکستان ہیں اس لحاظ سے وہ عسکری ذمہ داریاں انجام دینے کے لئے جہاں بھی جائیں گے پاکستان کے لئے جذبہ خیر سگالی پیدا کریں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ راحیل شریف ابتدائی طور پر تین سال کے لئے اس فوجی اتحاد کی قیادت کریں گے۔ 39 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے جنرل راحیل شریف کا تقرر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کے لئے بھی یقینی طور پر سود مند ثابت ہوگا۔ اس وقت پاکستان کے لئے سی پیک منصوبہ کی اہمیت ملک میں جاری دیگر ترقیاتی منصوبوں سے کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ اس منصوبہ سے چین ، روس ، ایران سمیت 52 ممالک استفادہ کرنے جا رہے ہیں۔ یہ بات تمام تر شکوک و شہبات سے بالا تر ہے کہ جنرل راحیل شریف کے اسلامک ملٹری الائنس کا سربراہ بننے سے دنیا بھر میںپاکستان کی اہمیت بڑھ چکی ہے جبکہ یوم پاکستان کے موقع پر پاکستان، سعودی عرب اور چین کی افواج کی مشترکہ پریڈ سے بھی ملک دشمن عناصر کو یہ پیغام گیا ہے کہ پاکستان تنہا نہیں ہے۔امریکہ اور بھارت کے عسکری معاہدوں کے لئے راحیل شریف کا تقرر خطرے کی گھنٹی قرار دیا جا رہا ہے ۔جنگی جنون میں مبتلا بھارت جو اسرائیل سے ایک ارب ڈالر کے ٹینک شکن میزائل خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے اس پر بھی اس اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کی دھاک بیٹھ چکی ہے۔پاکستان کی سیاسی قوتیں راحیل شریف کی تقرری پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کر رہی ہیںلیکن انہیں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جنرل راحیل شریف کی سعودی فوجی اتحاد کے سربراہ کے طور پر تعیناتی مسلم ممالک کے لئے ہی نہیں بلکہ مستقبل میں پاکستان کے لئے بھی خوش آئند نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ سابق آرمی چیف اپنے تجربات اور سوچ سے مسلم ممالک کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کر کے امت مسلمہ کے مضبوط اتحاد کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ افغانستان جو 39 ملکی مسلم فوجی اتحاد میں شامل ہے راحیل شریف افغانستان سے پاکستان کے تعلقات بہتر بنانے میں بھی مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو اپنے طور پر بھی افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لئے کوششیں تیز کرنا ہوںگی کیونکہ افغانستان میں پائیدار امن سے ہی روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کو پاک چین اقتصادی راہداری سے فائدہ ہوگا جبکہ ہمیں مغربی محاذ پر بھی بہتر تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ جہاں پر اس نے سعودی عرب کی حکومت کی درخواست پر جنرل راحیل شریف کو مسلم فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے کی اجازت دی ہے وہاں پر وہ سعودی عرب سمیت دیگر مسلم ریاستوں سے اپنے سفارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے کیونکہ حکومت پاکستان کے لئے یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ 39 ملکی مسلم فوجی اتحاد کے سربراہ پاکستانی ہیں اس لیے ملکی مفادات کے لئے ہر طرح کے اقدامات اور سفارتی سرگرمیوں کو مزید تیز کرنا ضروری ہے۔



.
تازہ ترین