• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز قبل وزیراعظم پاکستان کے دورہ چین کے موقع پر چاروں وزراء اعلیٰ اور وفاقی کابینہ کے اہم اراکین بھی ان کے ہمراہ تھے، اس دورہ میں وزیراعظم نے نہ صرف ون بیلٹ ون روڈ فورم میں شرکت کی بلکہ 2015ء میں چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران ہونے والے معاہدوں اور ایم او یوز کی پیش رفت کا جائزہ بھی لیا ۔سی پیک منصوبہ کے تحت 17 بلین ڈالر زکے معاہدے اب بھی پائپ لائن میں موجود ہیں۔ جن کا مقصد پاکستان کی زرعی معیشت کو نئی ٹیکنالوجیز اور جدت سے ہمکنار کرنا ہے تا کہ ہمارے کاشتکار ناصرف پرانے طریقوں کی بجائے دور حاضر کی جدتوں سے لیس ہو کر کاشتکاری کر کے فی ایکڑ کے حساب سے اپنی پیداوار کو بڑھائیں بلکہ وہ اپنی آمدنی میں کئی گنا اضافہ کرنے کے قابل بھی ہو جائیں ۔ 45 بلین ڈالرز کا ایک ایم او یو بھی سائن ہوا ہے جس کے تحت چین پٹرولیم مصنوعات کیلئے پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گااس معاہدہ کا مقصد پاکستان کو جلد از جلد توانائی کے مسائل سے نکالنا ہے۔ تکنیکی شعبہ میں بھی ایک معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت پاکستانی نوجوانوں کو فنی تربیت دی جا سکے گی۔چین پاکستان کو منشیات کی روک تھام اور انکی شناخت کرنے والے آلات بھی فراہم کرے گا۔ سی پیک معاہدہ کے تحت گوادر میں جدید ترین سہولتوں سے آراستہ بین الاقوامی معیار کا ایک اسپتال بھی بنایا جائے گا۔ چینی حکومت قراقرم، ہائی وے فیز ٹوکو حویلیاں سے لے کر تھاہ کوٹ تک سڑک کی ازسر نو تعمیر کے لئے قرضہ بھی فراہم کرے گی۔ معاہدہ کے تحت کراچی ، لاہور موٹروے کے سیکشن ملتان تاسکھر کے لئے بھی سرمایہ فراہم کر دیا گیاہے۔ چینی حکومت گوادرمیں مشرقی ساحلی ، ایکسپریس ہائی وے منصوبہ کے لئے بھی آسان شرائط پر قرضہ دے گی اسی طرح گوادر میں جدید سہولتوں سے آراستہ ایئر پورٹ کے لئے بھی گرانٹ فراہم کی جارہی ہے اور بینکنگ کی سہولت فراہم کرنے کے لئے بھی معاہدہ کیا گیا ہے۔ سی پیک کے تحت ہی موسم میں تبدیلی کو جانچنے اور اس حوالہ سے قبل از وقت اقدامات کرنے کے لئے بھی پاکستان کوتکنیکی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔مواصلاتی نظام میں بھی مل کر کام کرنے کا سمجھوتہ ہوا ہے ایک ایم اویو نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن چین اور وزارت پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ پاکستان کے درمیان ہوا ہے ۔ گوادر میں عام شہریوں کی فلاح وبہبود کے لئے بھی ایک ایم او یو سائن کیا گیا ہے۔ کاٹن کی جدید لیبارٹری کے لئے بھی ایک ایم او یو سائن کیا گیا چین یہ لیبارٹری پاکستان میں قائم کرے گا جس سے نہ صرف کاٹن کی پیداوار بڑھانے میںمدد ملے گی بلکہ اس سلسلے میں مزیدتحقیقات کو جاری بھی رکھا جائے گا۔ پاکستان ریلوے کی اپ گریڈیشن کے لئے بھی معاہدہ کو حتمی شکل دی گئی ہے ۔ پاکستان اور چین کے درمیان ریڈیو ، ٹیلی وژن ، فلم اور سیاحت کو فروغ دینے کے لئے بھی دو طرفہ تعاون قائم کرنے کے ایم او یو کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ گوادر نواب شاہ ‘ایل این جی ‘ٹرمینل اور پائپ لائن کا بھی معاہدہ کیا گیا ہے۔ لاہور میں بنائی جانے والے اورنج لائن ٹرین پروجیکٹ کے حوالے سے بھی مالی معاونت میں تیزی لانے کے لئے بات چیت مکمل کی گئی ہے۔ ’’سکی کناری‘‘ خیبرپختونخوا میں 870 میگاواٹ ہائیڈرو بجلی پیدا کرنے کے حوالہ سے بھی ای ایکس آئی ایم بینک آف چائنا اور حکومت پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔ پورٹ قاسم پر660 میگا واٹ کے 2کول بجلی گھروں کی تعمیر کے لئے بھی یہی بینک مالی معاونت کرے گا۔ اسی طرح پنجاب میں لگائے جانے والے 9 سو میگا واٹ کے سولر انرجی پاور پلانٹس پر بینک آف چائنا اور ای ایکس آئی ایم بینک سرمایہ کاری کر رہے ہیں ۔ پاکستان کے بہت سے دیگر پاور پلانٹس اور توانائی کے منصوبوں پر بھی چین اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کا مقصد 2020 تک پاکستان میں بجلی کی پیداوار کو 15 ہزار میگاواٹ تک بڑھانا ہے۔ ان تمام منصوبوں کا مقصد پاکستان کو کم سے کم مدت میں توانائی بحران سے نکا لنا ہے اور پاکستانی معیشت کو مضبوط بنانا ہے تا کہ چین اپنی انڈسٹری پاکستان میں منتقل کرکے یہاں سے دنیا بھر کے ساتھ تجارت شروع کر سکے۔ یہ چین کے مفاد میں تو ہے ہی لیکن پاکستان کے لئے بھی فائدہ مند ثابت ہوگی۔ ایک اندازہ کے مطابق اگلے 7 برسوں کے دوران پاکستان میں روز گارکے ایک کروڑ سے زائد مواقع کی امید کی جا رہی ہے۔اپنے چھ روزہ دورہ چین کے فوراً بعد وزیراعظم نواز شریف سعودی عرب میں منعقد کی جانے والی سمٹ کانفرنس میں شرکت کے لئے روانہ ہو گئے جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اہلخانہ کے ہمراہ خاص طور پر شرکت کی۔ یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ چند سال پہلے تک امریکہ کے بعد عرب دنیا بالخصوص یو اے ای اور سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے اہم ممالک تھے لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران ان ممالک کی پاکستان میں سرمایہ کاری نمایاں طور پر کم ہوئی ۔ چین پاکستان میں جس اعلیٰ سطح پر سرمایہ کاری کر رہا ہے اس حوالے سے گزشتہ کچھ برسوں پہلے تک کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بیتے ہوئے ان برسوں کے دوران وہ گرم جوشی اب دیکھنے میں نہیں آتی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔
اس کی وجہ عرب ممالک کے خراب حالات اور سعودی عرب ایران تنازعات ہیں۔ عرب اتحادی ممالک کی ممکنہ خواہش ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہونے والے اتفاق میں پاکستان مرکزی اور فعال کردار ادا کرے ۔ایران کے خلاف اس اتحادکے پیش نظر پاکستان اس میں شامل ہونے اور بھرپور کردار ادا کرنے کا فیصلہ نہیں کر پایا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور عرب دنیا کے درمیان تعلقات میں سرد مہری بڑھی ، وزیراعظم پاکستان جن کاسعودی عرب سے ذاتی طور پر انتہائی قریبی اور دوستانہ تعلق ہے لیکن وہ سعودی حکومت کی خواہشات کے مطابق ان کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں جس کی بڑی وجہ پاکستان کے اندرونی و خارجی حالات ہیں۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور افغان بارڈر پر بھی جنگ کی سی کیفیت رہتی ہے جبکہ پاکستان میں دہشتگردی کے حوالے سے افغانستان کو بھارت کی مکمل پشت پناہی بھی حاصل ہے۔عرب دنیا کی ناراضی سعودی عرب میں منعقدہ سمٹ کانفرنس میں واضح طور پر دیکھنے میں آئی ۔اس کانفرنس میں پاکستان کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو اسے ملنی چاہئے تھی۔ عرب ممالک کو پاکستان کی مجبوریوں کو بھی پیش نظر رکھناچاہئے اور انہیں پاکستان سے اس قدر تعاون ہی کا طلبگار ہونا چاہئے جتناریاست پاکستان کر سکتی ہے ۔ سعودی عرب پاکستان کا انتہائی قابل احترام اور محسن اسلامی ملک ہے جس نے پاکستان کے ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے 1998ء میں کیے جانے والے ایٹمی دھماکوں کے بعد یورپ اور امریکہ کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیوں کے باعث مالی مشکلات سے نکالنے کے لئے سعودی عرب نے پاکستان کی بھرپور مالی معاونت کی۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی جب کبھی پاکستان پر برا وقت آیا سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دیا۔ سعودی عرب کو بھی جب جب ضرورت پڑی تو پاکستان نے ہر محاذ پر اس کا ساتھ دیا۔ سعودی عرب اور ہمارے دیگر برادر اسلامی ممالک کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ پاکستان جو کہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہے اس کی مشکلات میں اضافہ نہ کیا جائے بلکہ اس کے مسائل کو سمجھتے ہوئے اتنا ہی تعاون طلب کیا جائے جو اس کے لئے کرنا ممکن ہے۔اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور مسلم دنیا کو یکجا کرنا اور ایک پلیٹ فارم پر جمع کر نا ہو نا چاہئے۔

.
تازہ ترین