• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف خود کو خادم اعلیٰ کہلوانے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں، 1997میں جب وہ پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے تو اس دور میں ان کی انتظامی صلاحیتیں بلاشبہ تعریف کے قابل تھیں اور اب بھی وہ افسر شاہی سے کام کروانا بخوبی جانتے ہیں، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 2008میں جب وہ دوسری مرتبہ وزیراعلیٰ بنے تو پنجاب میں ان کے ترقیاتی کاموں اور ان کی انتظامی صلاحیتوں کے باعث مسلم لیگ ن 2013کے انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ انہوں نے 2008میں وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے بعد صرف 9ماہ کی قلیل مدت میں صوبائی دارالحکومت لاہورمیں میٹرو بس سروس جیسا عوامی بہبود کا منصوبہ مکمل کر کے ریکارڈ بھی قائم کیا۔ انہوں نے ساہیوال کول پاور پروجیکٹ انتہائی مختصر مدت میں مکمل کیا گیا جس پر چائینز ان کے معترف ہو گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبہ بھر میں ہونے والے میگا پروجیکٹس سمیت تمام ترقیاتی کاموں کی وہ خود نگرانی کرتے ہیں، صحت اور تعلیم کے شعبہ میں بھی وہ انقلابی تبدیلیاں لانے کے خواہاں ہیں لیکن اب تک ان دونوں شعبوں میں وہ اہداف حاصل نہیں کئے جا سکے جس کے وہ متمنی ہیں، تعلیم کے شعبے میں انہوں نے دانش ا سکول کا ایک منصوبہ شروع کیا جہاں غریب گھروں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے اور بچیاں اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل کر سکیں اس پروجیکٹ پر تنقید کی جاتی رہی تنقید کرنے والوں کا موقف تھا کہ اتنے مہنگے اسکول بنانے کی بجائے یہ رقم پنجاب بھر کے طول عرض میں پھیلے پہلے سے موجود سرکاری اسکولوں کی اپ گریڈیشن پر لگائی جاتی، اس قسم کے اعتراضات اپنی جگہ مگر دانش ا سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے غریب اور ذہین بچوں کو ایسی تربیت اور خود اعتمادی دی جاتی ہے جو صرف پرائیویٹ سیکٹر کے مہنگے ترین اسکولوں کے بچوں کوہی نصیب ہوتی ہے۔ اسی طرح پنجاب کے پرائمری، مڈل ہائی اسکولوں کو،مختلف فلاحی اداروں اور پرائیویٹ اسکولوں کے سپرد کیا جا رہا ہے جس کے اب مثبت نتائج حاصل ہو رہے ہیں لیکن اتنا کچھ کافی نہیں، حکومت پنجاب نے نالج سٹی کا ایک منصوبہ بھی بنایا تھا جس کا مقصد دنیا بھر کی مستندیونیورسٹیاں اور کیمپس لاہور میں قائم کرنا تھا لیکن اس منصوبے پر بھی تاحال تسلی بخش پیش رفت نہیں ہو سکی۔ پنجاب میں مزید یونیورسٹیاں اور ٹیکنیکل کالج بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے لیکن اس پر حکومت پنجاب کی وہ توجہ نہیں جو ہونی چاہئے یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے نوجوان بچے اور بچیاں تیزی سے قائم کئے جانے والے پرائیویٹ اداروں سے ہوشر با فیسیں ادا کرکے تعلیم حاصل کرنے پرمجبور ہیں، اسی طرح صحت کے شعبے میں بھی ایسے اقدامات نہیں کئے جا رہے جن کی توقع عوام حکومت سے کرتی ہے۔ ہمارے ملک کا المیہ رہا ہے کہ خطیر رقوم کی لاگت سے عمارتیں تو بنا لی جاتی ہیں مگر نامناسب حکمت عملی اور انتظامات کی وجہ سے یہ عماراتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ شعبہ صحت میں ہمارے بڑے بڑے سرکاری اسپتالوں کا حال آج بھی اتنا ہی ابتر ہے جتنا پہلے تھا۔ آج بھی ایمرجنسی وارڈز میں ایک ایک بیڈ پر کئی کئی مریضوں کو ابتدائی طبی امداد دی جا تی ہے، لاہور کے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں آج بھی دل کا بائی پاس کرانے کے لئے مریضوں کو مہینوں انتظار کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے۔ صوبہ بھر کے سرکاری اسپتالوں میں فری ڈائلسز شروع کرنے کا ایک جامع پروگرام بنایا گیامگر وہ بھی مطلوبہ نتائج نہیں دے رہا۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کے لئے موبائل ہیلتھ یونٹس بھی بنائے گئے تھے لیکن معلوم نہیں اب یہ یونٹس کس جنگل میںموجود ہیں۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہونے کی وجہ صوبائی وزرا اور اراکین پارلیمنٹ یہ بیان کرتے ہیں کہ بیورو کریسی ہماری بات نہیں سنتی ہمارے دائرہ اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ بیورو کریسی میں عام طورپر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ صرف اور صرف وزیراعلیٰ کے احکامات پر عملدرآمد کیا جائے اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وہ وزیراعلیٰ کو ہی جواب دہ ہیںجبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب بار ہا یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ تمار صوبائی وزرا اپنے اپنے محکموں کو چلانے میں مکمل طور پر بااختیار ہیں۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی پنجاب کے عوام کیلئے بھاری بھرکم رمضان پیکج کا اعلان کیا گیا 9ارب کا یہ رمضان پیکج صوبہ بھر کہ غریب عوام کو ریلیف دینے کے لئے دیا گیا تا کہ وہ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ بہتر انداز سے گزار سکیں لیکن اس رمضان پیکج سے غریبوں کو وہ ریلیف نہیں مل سکا جس کے وہ حقدار تھے۔ پنجاب کے تقریباً تمام اضلاع میں سستے رمضان بازار قائم کئے گئے۔ دعویٰ یہ کیا گیا تھاکہ ان بازاروں میں سستی اورمعیاری اشیاخورونوش عوام کے لئے میسر ہونگی لیکن ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔ چھوٹے شہروں میں تو بہت سے مقامات پر رمضان بازار صرف نمائشی طورپر دیکھنے میں آئے۔ رمضان بازاروں میں عام بازاروں سے ملتے جلتے نرخوں پر اشیا فروخت ہو رہی ہیں۔ صرف دو اشیا کے نرخوں میں تھوڑا بہت فرق دیکھنے میں آیا تو وہ آٹا اور چینی ہیں۔ 20 کلو آٹے کا تھیلہ اگر عام بازاروں میں 550 روپے میں مل رہا ہے تو رمضان بازار وں میں آٹا کا یہی تھیلا 500 روپے میں دستیاب ہے۔ چینی عام بازار وں کی نسبت 3سے 5 روپے سستی مل رہی ہے لیکن چینی کے حصول کے لئے صارفین کو لمبی قطاروں میں کھڑے ہونا پڑتاہے۔ یہ شکایات بھی مل رہی ہیں کہ بہت سے رمضان بازاروں میں چینی چند گھنٹوں کیلئے فروخت کی جا تی ہے اور یہ اطلاعات بھی ہیں کہ چینی جو رمضان بازاروں میں سستے نرخوں پر فروخت ہونا تھی ان کو ذخیرہ اندوزوں نے وسیع پیمانے پر خرید کر عام بازاروں میں زائد داموں پر فروخت کرنا شروع کر دیا ہے۔ رمضان بازاروں کی نگرانی کے لئے صوبائی وزرا اور ارکان پارلیمنٹ، بیورو کریٹس اور پولیس حکام کو جو ذمہ داری سونپی گئی تھی درحقیقت یہ لوگ ان رمضان بازاروں میں صرف اور صرف میڈیا ٹیموں کے ساتھ فوٹو سیشن کیلئے آتے ہیں۔ یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ جس قسم کے نتائج وزیر اعلیٰ پنجاب چاہتے ہیں وہ حاصل نہیںکئے جا رہے اور یہ بھی ممکن نہیںہے کہ وہ ہر سڑک، ہر گلی، ہر بازار، ہر اسپتال، ہر اسکول میں جا کر معاملات اور حقائق کا خودجائزہ لیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ رمضان پیکِج کی بجائے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 9ارب روپے کی رقم مستحقین میں تقسیم کر دی جاتی۔ سائنس اب اتنی ترقی کر چکی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کہیں بھی موجود رہ کر پنجاب کے تمام اضلاع اور تحصیلوں میں عوام سے مخاطب ہوسکتے ہیں اس جدید ٹیکنالوجی کا نام ہولو گرام ہے۔ یہ ٹیکنالوجی آج کل فلموں میں عام طور پر استعمال ہو رہی ہے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اپنی انتخابی مہم کے دوران اسی ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا تھا۔

تازہ ترین