• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی معاشرے میں مثبت سوچ رکھنے والے افراد دیوار میں چنی ہوئی ان اینٹوں کی طرح ہوتے ہیںجن سے دیوار ہمیشہ مضبوط اور قائم دائم رہتی ہے، صحت مندانہ سوچ رکھنے والے ایسے معاشرے میں کوئی بھی شخص کسی اجنبی سے بیگانہ نہیں ہوتا۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ تمام افراد ایک دوسرے کے دکھ درد، خوشی اور غمی میں شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیںیہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے جسم کے کسی ایک حصہ کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم اس کی اذیت محسوس کرتاہے، فطرتی طور پر اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں معاشرے کے تمام افراد کو مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کے حقوق وفرائض کا احترام کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسلام میں ان حقوق و فرائض کو انتہائی متوازن رکھا ہے، بالکل اس طرح کہ جہاں کسی کو فرائض کی ادائیگی کرنے کا پابند کیا گیا ہے وہاں دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ جب کبھی ان حقوق و فرائض کے درمیان عدم توازن کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو پھر معاشرہ مختلف اقسام کے نشیب و فراز کا شکار ہو جاتا ہے۔ معاشی اور سماجی توازن کو برقرار رکھنے اور فلاح و بہبود کے امور کی انجام دہی کے لئے اسلام نے زکوٰۃ کا واضح اور دو ٹوک نظام دیا ہے جس کے تحت زکوٰۃ کو ہر ایسے اہل ثروت، عاقل، بالغ مسلمان مرد و خواتین پر سال میں ایک مرتبہ فرض کر دیا گیا اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی اس قدر تاکید کی گئی ہے کہ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں رکھا گیا۔ رفاہی اور سماجی بہبود کے کاموں کیلئے خیرات کرنے والوں میں عالمی سطح پر جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق میانمار 70 فیصد کے ساتھ خیرات کرنے والی ریاستوں میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ امریکہ دوسرے، آسٹریلیا تیسرے، نیوزی لینڈ چوتھے، سری لنکا پانچویں اور پاکستان 29 فیصد کے ساتھ ساتویں نمبر پر ہے۔ عالمی سطح پر خیرات کرنے کیلئے تین طریقے اپنائے جاتے ہیں جن میںکسی اجنبی کی مدد کرنا، مستحق افراد کو مالی امداد فراہم کرنا اور رضا کارانہ طور پر دوسروں کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دینا شامل ہے۔ پاکستان میں بسنے والے لوگوں میں ہمیشہ سے دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ موجود رہا ہے۔ خدمت خلق کونسل پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ہمارے ملک میں خدمت خلق کرنیوالوں کا تناسب 98فیصد ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سماجی بہبود کے امور کیلئے خیرات کرنے والوں میں 10ہزار پاکستانی گھرانے شامل ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 1998ء میں خیرات کی گئی رقم 2004ء میں بڑھ کر 239بلین تک پہنچ گئی۔ اگر صوبائی سطح پر اس کا جائزہ لیا جائے تو پنجاب نے 113بلین، خیبرپختونخوا نے 38بلین، بلوچستان 10بلین اور سندھ نے 78 بلین خیرات کی جس کا مجموعہ 239بلین بنتا ہے۔دنیا بھر کی طرح ہمارے ملک میں بھی ایسے ان گنت افراد موجود ہیں جنہوں نے دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے فلاحی ادارے قائم کئے ہوئے ہیں ان میں سے بہت اداروں نے مثالی کردار ادا کر کے ناصرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی ساکھ قائم کی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر خاص و عام ان اداروں پر مکمل اعتماد و بھروسہ کرتے ہوئے ان کو زکوۃ، عطیات اور خیرات دیتے ہیں پہلا شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال بھی پاکستان کے ان جگمگاتے اور روشن ستاروں میں سے ایک ہے۔شوکت خانم اسپتال نہ صرف دنیا بھر میں پائے جانے والے مخیر حضرات بلکہ پاکستانی عوام کی بھرپور مالی امداد سے لاہور میں قائم ہوا۔ پشاور میں بنائے جانے والے شوکت خانم اسپتال میں کینسر کے مریضوں کا علاج شروع ہو چکا ہے جبکہ کراچی میں 29دسمبر 2016ء کو ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں بھی شوکت خانم میموریل اسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے یہ منصوبہ تیزی سے تکمیل کی جانب گامزن ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ مخیر حضرات کراچی میں زیر تعمیر اسپتال کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر عطیات اور خیرات جمع کروائیں تا کہ شہر قائد اور اندرون سندھ میں بسنے والے نادار اور مستحق مریضوں کے علاج و معالجہ کا سلسلہ شروع کیا جاسکے۔اس ضمن میں کراچی کے صنعت کاروں اور تاجروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس اہم اور بھاری بھرکم فلاحی منصوبہ کی تکمیل میں اپنا بھرپور کردار ادا کریںخاص طور پر ماہ رمضان کے اس بابرکت مہینے میں اپنی زکوۃ، عطیات اور خیرات شوکت خانم اسپتال میں جمع کروائیں۔ لاہور کے شوکت خانم اسپتال میں ایک نئے بلاک کی تعمیر کے منصوبے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ لاہور میں مریضوں کی کثیر تعداد کو اینڈو ا سکوپی کی تشخیص اور عالج و معالجے کی سہو لتیں فراہم کرنے کے لئے بامقصد جدید یونٹ کی توسیع کا کام بھی جاری ہے۔ مریضوں کی بڑھتی تعداد اور ضروریات کے پیش نظر رواں سال نئے ٹیکنیکل ٹاور کی بنیاد بھی رکھی جا رہی ہے اس ٹاور کے قیام سے کیسنر کے امراض میں مبتلا افراد کو طبی سہولتوں کی فراہمی دگنا ہو جائے گی جس سے زیادہ سے زیادہ مریضوں کو آسانی ہوگی۔ اس سال شوکت خانم کینسر اسپتال کا بجٹ 10 ارب روپے ہے جس میں سے 5.5 ارب روپے عطیات اور زکوٰۃ سے اکٹھے کئے جائیں گے جبکہ بقیہ رقم اسپتال اپنی تشخیص و دیگر خدمات کے عوض ہونے والی آمدنی سے پورا کرے گا۔ پشاور میں بنائے گئے شوکت خانم میموریل کینسر اینڈ ریسرچ سینٹر اسپتال نے انسانی خدمت کا پہلا سال مکمل کر لیا ہے یہاں منصوبے کے مطابق اسپتال کے آغاز سے کیمو تھراپی کی سہولت، ان پیشنٹ بیڈز، طبی آلات سے لیس آئی سی یو بیڈز، ریڈیالوجی اور پیتھالوجی کی سہولتیںفراہم کی جا رہی ہیں اور یہاں پر بھی مہینہ وار مریضوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ سال 2018ء میں ریڈی ایشن اونکالوجی کی سہولت فراہم کرنے کا منصوبہ زیر تکمیل ہے اور اسے جلد ہی فعال کر لیا جائے گا۔ پشاور کے اس اسپتال میں کینسر کے غریب مریضوں کو 2018ء کے وسط تک ریڈی ایشن اور اونکالوجی کی سہولتیں میسر ہونے لگیں گی۔ کینسر کے مریض علاج و معالجہ کے لئے گزشتہ 22 سال سے شوکت خانم کینسر اسپتال لاہور کا رُخ کرتے ہیں جہاں انہیں بلا امتیاز عالمی معیار کی جدید ترین طبی سہو لتیں فراہم کی جاتی ہیں اس سلسلے میں پاکستانیوں کا جذبہ خدمت بھی قابل ستائش ہے کہ وہ اسپتال کی تعمیر سے علاج و معالجے کی فراہمی کیلئے پچھلے 22 برسوں سے اس اسپتال کی امداد کا سلسلہ پوری جانفشانی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ زکوٰۃ و عطیات کی مد میں حاصل ہونے والی رقم صرف اور صرف غریب اور نادار مریضوں کے علاج پر خرچ کی جاتی ہے۔ گزرے ہوئے 22برسوں کے دوران شوکت خانم میموریل اسپتال نے عوام کی مالی معاونت کی وجہ سے اپنے 75فیصد مریضوں کو مفت طبی سہو لتیں فراہم کی ہیں اور اس عظیم کار خیر پر لاہور میں اب تک 27ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کی جا چکی ہے۔ شوکت خانم میموریل اسپتال کینسر کے مرض میں مبتلا بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور خواتین کے لئے نئی زندگی جینے کی سب سے بڑی امید ہے۔اسی لئے نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ تارکین وطن بھی دل کھول کر اپنی زکوٰۃ و عطیات یہاں جمع کراتے ہیں۔تارکین وطن سمیت دنیا بھر میں پائے جانے والے وہ تمام افراد اور ادارے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جن کے عطیات کی وجہ سے یہ عظیم منصوبہ کامیابی سے جاری و ساری ہے۔

 

.

تازہ ترین