• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں گزشتہ ایک برس سے پاناما لیکس پر سیاست جاری ہے اور بڑی اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اس ایشو کو مسلسل زندہ رکھے ہوئے ہیں پانامہ کیس میں مبینہ طور پر شریف فیملی کی آف شور کمپنیوں کے انکشافات اور بیرون ملک جائیداد کی تفصیلات جاری کی گئی تھیں اس ایشو کو پاکستان تحریک انصاف نے بھرپور انداز میں ایک سیاسی ایشو کے طور پر اٹھایا اور یہ بات عوامی سطح پر پہنچانے کی بھرپور کوشش کی جس میں عوام کو یہ بتایا جاتا رہا کہ شریف فیملی نے پاکستان میں ناجائز ذرائع اور اپنی کرسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مال و دولت اکٹھاکر کے بیرون ملک اثاثہ جات بنائے۔ اس ایشو میں عمران خان کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی نے عوامی طور پر حصہ ڈالا لیکن اس ایشو کو بھرپور انداز میں اٹھانے کا صلہ صرف پاکستان تحریک انصاف کو ہی جاتا ہے۔ کپتان نے اس ایشو کے بعد پاکستان بھر میں بڑے بڑے عوامی اجتماع کیے۔جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس ایشو کو سننا شروع کیا اور آج کل ایک جے آئی ٹی اس پر تحقیقات کر رہی ہے ۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین سمیت تمام قیادت کو یہ یقین ہے کہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران شریف فیملی کے خلاف فیصلہ آنے سے ان کی حکومت ختم ہو گی اور عام انتخابات کا اعلان ہو جائے گا۔ پی ٹی آئی قیادت اسی طرح پر اعتماد دکھائی دے رہی ہے جس طرح وہ دھرنے کے دنوں میں پر اعتماد تھی ۔ان کو تب بھی یقین تھا کہ ایمپائر کی انگلی کھڑی ہو جائے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اب بھی پی ٹی آئی کی قیادت غیر رسمی گفتگو میں یہ باتیں کہہ رہی ہے کہ جے آئی ٹی کا فیصلہ شریف فیملی کے خلاف آئے گا جس سے شریف فیملی سیاست سے آئوٹ ہوجائے گی اور پاکستان مسلم لیگ ن کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کے رابطے میں 50 سے زائد ممبر پارلیمنٹ ہیں جو اس انتظار میں ہیں کہ ن لیگ کے خلاف فیصلہ آئے اور وہ اپنی رکنیت سے استعفیٰ دے کر پی ٹی آئی میں شامل ہو جائیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چند اہم رہنما اپنی باتوں سے ایسے اشارے بھی دے رہے ہیں کہ ان کو غیبی قوتوں کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ قوتیں بھی مائنس ون فارمولا کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے ان کی بھرپور حمایت کر رہی ہیں۔ مائنس ون فارمولا کا مطلب یقینا نواز شریف کو نا اہل کرنا ہے اگرچہ میں کیس کی قانونی نوعیت اور پیچیدگی پر کسی صورت بھی تبصرہ نہیں دے سکتا کیونکہ میں قانون کے شعبہ سے وابستہ نہیں ۔ بطور صحافی جو کچھ میں دیکھ اور سن رہا ہوں اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کیس قانون سے زیادہ سیاسی کیس ہے ۔ اب تک جے آئی ٹی نے جس قسم کی تفتیش کی ہے بادی النظر میں اس کادائرہ پانامہ سے بڑھ کر شریف فیملی کے ذاتی بزنس تک وسیع ہو چکا ہے ۔ حدیبیہ پیپر ملزکا مشہور زمانہ کیس جس میں شریف خاندان نے یو کے میںقرضہ لیا اور کچھ لوگوں کے خیال میں کرائون کورٹ کے ذریعے اور کچھ کے خیال میں کورٹ کے باہر ہی سیٹلمنٹ کر لی جس شخص نے حدیبیہ پیپر ملز لون کے حوالہ سے کیس کیا تھا اس کا مؤقف بھی سامنے آ چکا ہے اس کا کہنا ہے کہ ہماری سیٹلمنٹ ہو چکی ہے ۔ جے آئی ٹی جس طرح شریف فیملی کی شوگر ملز سمیت دیگر بزنس کی چھان بین کر رہی ہے اس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جے آئی ٹی نے تفتیش کا دائرہ کار شریف فیملی سے وابستہ ہر شخص اور ان کے ذاتی بزنس تک پھیلا دیا ہے ۔ شریف فیملی کی طرف سے وزیراعظم پاکستان کے دونوں بیٹے حسن اورحسین کے علاوہ ان کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کے داماد کیپٹن صفدر جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہو چکے ہیں جبکہ ان کی اہلیہ اور وزیراعظم پاکستان کی صاحبزادی اور وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار پیش ہو رہے ہیں ۔ شریف فیملی کے روح رواں مرحوم میاں شریف کے اکائونٹس اور بزنس کی تفصیلات بھی جے آئی ٹی نے متعلقہ اداروں سے طلب کر رکھی ہیں جن میں سے کچھ تفصیلات رپورٹوں کے مطابق جمع ہو چکی ہے اور کچھ ابھی رہتی ہیں جو جلد ہی جمع ہو جائیں گی۔ پانامہ کیس سے وابستہ مشہور زمانہ قطری شہزادے کے خطوط اور مؤقف کی تائید میں قطری شہزادے نے دوبارہ اپنا مؤقف جے آئی ٹی کو پیش کیا ہے اور ان کو یہ آفر بھی کروائی ہے کہ وہ قطر آ کر اس حوالے سے ان کا بیان ریکارڈ کر سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اس کیس کی نوعیت ایسی بن چکی ہے جس سے اس کیس کے حوالے سے جو فیصلہ آئے گا کسی ایک فریق کو قبول نہ ہوگا۔ بہرحال اس تمام صورتحال سے مسلم لیگ ن کی قیادت اور رہنما یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان دیکھے ہاتھ ان کی حکومت کے خلاف سازش میں ملوث ہیں یہ ہاتھ ملکی اور غیر ملکی بھی ہوسکتے ہیں جو پاکستانی ترقی و خوشحالی کو ایک نظر نہیں بھاتے ۔ جس طرح 1998ء میں میاں محمد نواز شریف نے بطور وزیراعظم ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا تھا اور اس کی سزا میں وہ سات سال سے زائد عرصہ تک جلا وطنی کاٹ چکے ہیں۔ ان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں پاکستان ترقی کی جانب گامزن ہے جس کی تصدیق غیر ملکی ادارے بھی کر رہے ہیں اس ترقی میں سب سے اہم پاک چین اقتصادی راہداری جیسا عظیم منصوبہ ہے بلاشبہ یہ منصوبہ ہمارے دشمن کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ کسی طریقے سے اس منصوبہ کو سبوتاژ کیا جائے۔ لیگی رہنمائوں کی نظر میں جوکچھ وزیراعظم اور ان کے خاندان سے ہورہا ہے اس کی بنیادی وجہ پاکستان کا تیزی سے ترقی و خوشحالی کے سفر پر گامزن ہونا ہے۔ دشمن کے اس ناپاک منصوبہ میں ہمارے پاکستانی نادان دوست بھی دشمن کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں جن کو شاید اقتدار کا لولی پاپ دیا جا رہا ہے۔ اس تمام موجودہ صورتحال کا احاطہ وزیراعظم پاکستان نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بھی کیا ان کا بڑا واضح مؤقف تھا کہ کچھ ایسے خفیہ ہاتھ کام کر رہے ہیں جو پاکستان کی ترقی وخوشحالی کو روکنا چاہتے ہیں۔ بہرحال یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ پانامہ لیکس واقعی حقیقت تھی یا ایک سازش، لیکن کیس سے ملک سنگین سیاسی بحران کا شکار ہو چکا ہے جس کا اندازہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے مسلسل گرنے سے لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی محب وطن قوتوں اور سیاسی بصیرت رکھنے والی قومی قیادت کو موجودہ سیاسی صورتحال میں اپنے فائدہ اور نقصان کو سوچنے کی بجائے ملکی مفاد کو مقدم رکھنا چاہئے اور اگر یہ کیس واقعی ایک سازش ہے تو اس کو جلد سے جلد بے نقاب ہونا چاہئے ۔ پانامہ لیکس اگر حقیقت ہے تو اس کا فیصلہ بھی آ جائے گا لیکن یہ تاثر یقینا ہر آنے والے روز طاقت پکڑ رہا ہے کہ صرف شریف خاندان کا احتساب ہو رہا ہے ۔مسلم لیگ کی قیادت یہ تاثر قائم کررہی ہے کہ ایک بار پھر احتساب کے نام پران سے انتقام لیا جارہا ہے کیونکہ نواز شریف کی قیادت میں موجودہ حکومت ایٹمی دھماکوں کے بعد اب معاشی دھماکہ کرنے جارہی ہے موجودہ صورت حال میںاگر مسلم لیگ ن کی قیادت یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی تو خواہ فیصلہ خلاف بھی آجائے توشریف فیملی کو نقصان پہنچانے کی بجائے آئندہ آنے والے انتخابات میں فائدہ پہنچائے گا لیکن اگریہ بات طے ہوچکی ہے کہ ملک میں احتساب ہونا نا گزیرہے تو حکمران خاندان کے بعد تمام ملکی ادارے ،سٹیبلشمنٹ ، بیورو کریسی اور سیاستدانوں میںشامل کالی بھیڑوں کابھی احتساب ہونا چاہئے اس حوالے سے کوئی ضابطہ اور قانون وضع ہونا بھی ضروری ہے مجھے نہیں پتہ کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ اس میں کردار ادا کر سکتی ہے کہ نہیں اگر کر سکتی ہے تو ان کا پاکستان پر احسان ہوگا اور ایک دفعہ پاکستان میں کرپشن کا ایشو ختم ہونا چاہئے تا کہ آئندہ اس سے کوئی بھی سیاسی اور ذاتی مفاد کے لئے استعمال نہ کر سکے ۔

تازہ ترین