• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمعۃ الوداع کا زخم کیا کم تھا جب ایک ہی دن پارا چنار، کوئٹہ سے کراچی تک دہشت گردوں نے خون کی ہولی کھیلی۔ پارا چنار میں عید کی خوشیاں سجانے کیلئے خریداری کرتے بچوں، عورتوں پر دو خودکش حملے ہوئے جن میں 80لوگ شہید ہو گئے۔ کوئٹہ میں پولیس سربراہ کے دفتر کو نشانہ بنانے کی کوشش اگرچہ ناکام بنا دی گئی پھر بھی کار بم دھماکے میں 15لوگ جان کی بازی ہار گئے اور کراچی میں نماز جمعہ کیلئے مسجدوں میں آنے والے اہل اسلام کو دن بھر تحفظ فراہم کرنے والے چار پولیس اہلکار سستے سے ہوٹل میں روزہ افطار کرنے کے منتظر تھے تو شقی القلب ٹارگٹ کلر نے انہیں نشانہ بنایا۔ سارا دن دوسروں کی حفاظت کرتے روزہ کی حالت میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ ماہر نشانہ بازوں نے انہیں پستول کی گولیوں کی باڑھ پر رکھ لیا۔ یہ تینوں واقعات جغرافیائی نقطۂ نظر سے طویل فاصلوں پر وقوع پذیر ہوئے لیکن پھر بھی باہم مربوط اور ایک ہی دشمن کی کارستانی تھے۔ پاکستان حاسدوں میں یوں گھرا ہے کہ ان کا حسد اب دشمنی کی آخری حدوں کو چھونے لگا ہے۔ پاکستانی قوم اور اس کے سیکورٹی ادارے ایسے واقعات کی کسی وقت اور کسی جگہ بھی توقع کر سکتے ہیں اور اس کے تدارک کیلئے کافی حد تک چوکس رہتے ہیں پھر بھی دشمن کا وار گاہے کامیاب ہو جاتا ہے مگر ضلع بہاولپور کے قصبہ احمد پور شرقیہ میں پیش آنے والا واقعہ جو عید سے ایک دن پہلے رونما ہوا اپنی سنگینی، وسعت اور اثر پذیری میں بڑا ہی دردناک ہے جس میں تقریباً 200کے قریب جواں سال اور خوبرو پاکستانی آنِ واحد میں جل بجھے۔؎
لکڑی جل جل کوئلہ بہی کوئلہ سے ہوئی راکھ
میں پاپن کچھ ایسی جلی کوئلہ ہوئی نہ راکھ
200جوان غیر متوقع مگر دردناک انجام سے دوچار ہوئے جو ان بیوائوں، معصوم بچوں اور بوڑھے والدین کے دل میں ایسے گہرے زخم اور زہریلے گھائو چھوڑ گئے جو کبھی نہیں بھر پائیں گے۔ یہ سانحہ پوری قوم کے رمضان کا سکون اور عید کی خوشیاں بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ ایسی انہونی ہو گئی جس کی کوئی بھی توقع نہیں کر سکتا تھا۔ انہیں کسی دشمن نے للکارا نہ چھپ کے وار کرنے والے دہشت گرد نے نشانہ بنایا نہ زیر زمین بچھائی سرنگ پھٹی۔ شاید یہ اجتماعی خودکشی کا واقعہ ہے جس میں مرنے والوں کی نیت اگرچہ خودکشی کی نہ تھی مگر وہ یقیناً خودکشی کے مرتکب ہوئے جنہیں ایک سے زیادہ لوگ موت کے اس گھڑے میں کودنے سے منع کرتے رہے لیکن کسی نے مان کہ نہیں دیا۔ ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں وہ زخم سہے کہ الامان الحفیظ
ایک لاکھ سے زیادہ پرامن شہریوں کی جان کا نذرانہ، دس ہزار سے زیادہ سیکورٹی اہلکاروں کی قربانی، جہان سے گزرنے کی وجہ کچھ بھی ہو خون کا رنگ ایک ہے درد کی شدت بھی، جدائی کے زخم کی ٹیس بھی، پیچھے رہ جانے والے بوڑھے والدین، معصوم بچوں، جوان بیوائوں، بہن بھائیوں کا غم بھی، مگر پھر بھی پسماندگان کیلئے کچھ تو سہارا ہے کسی کو شہادت کا آسرا، کسی کیلئے قدرتی آفت کا بہانہ، کوئی دشمن کے وار کا نشانہ بہرحال یہ موت ہے جس سے مفر نہیں ہر کسی کو اس راہ سے گزرنا اور اس گھاٹی کو پار کرنا ہے مگر احمد پور شرقیہ میں جان ہارنے والوں کا غم ورثا کیلئے جو ہے سو ہے پوری قوم کیلئے دکھ کی وجہ اور شرمندگی کا باعث بھی ہے۔
ہم ایتھوپیا، صومالیہ اور افریقہ کے نیم متمدن قبائل کے قحط زدہ بچے، عورتوں کے سوکھے ڈھانچے، ابلی آنکھیں، موت کے منتظر سسکتے نوجوانوں کو دیکھتے ہیں تو ہمدردی کے ساتھ ساتھ ان ملکوں اور ان کے باسیوں کی تاریک زندگی، غربت و جہالت کے ساتھ ان قوموں کا ایک تاریک تر اور پسماندہ نقش ہمارے ذہنوں پہ ثبت ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان ملکوں کے حکمرانوں کیلئے دل میں نفرت اور غصے کی لہر اٹھتی ہے جن کی بے حسی، بدعنوانی، نالائقی کی سزا قوم اور اس کے بچوں کا مقدر بنا دی گئی۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے بار بار احمد پور شرقیہ کے مناظر دکھائے جن میں سینکڑوں لوگ گھروں کے برتن،کولر، ڈرم، بالٹیاں اٹھائے سڑک کنارے الٹ جانے والے آئل ٹینکر کے گرد اکٹھے ہیں جوں صحرا میں گدھ کسی بڑے جانور کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔
معاً آسمان کی طرف بلند ہوتے شعلے، آنِ واحد میں سینکڑوں فنا کے گھاٹ اتر گئے باقی رہ گئے زخمی جن کو اٹھانے کیلئے رضاکار دستیاب تھے نہ آگ بجھانے کو فائر انجن، نہ ہسپتال لے جانے کو ایمبولینس، نہ جائے وقوعہ پر پولیس۔ دنیا بھر کو ان مناظر میں ہماری حکومتوں کی کارکردگی، ہمارے اداروں کی بے حسی، ہمارے شہریوں کی اخلاقی حالت، ہماری قوم کی جہالت اور غربت کی جو تصویر دنیا کو دکھائی ہے کیا اس کا ہم کبھی بھی ازالہ کر سکیں گے، نیو یارک اور لندن میں میرے بھائیوں کو اگر کوئی انگریز یا امریکی یہ تصویریں دکھائے اور پوچھے کہ پاکستان افریقہ کے کس وحشت اثر صحرا کے کنارے پر ہے تو کیا وہ فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم دنیا کی پانچویں ایٹمی طاقت، مضبوط ترین فوج اور مہذب معاشرے کے کارآمد شہری ہیں۔ اس سانحہ نے ہمارا فخر ہم سے چھین لیا ہے۔ اس واقعہ سے پہلے اور بعد بھی ہماری حکومت اور ادارہ جات کی کارکردگی میں کوئی فرق کوئی بہتری نظر نہیں آتی بلکہ اس نے حکومتی اور قومی سطح پر بعض تضادات کو زیادہ نمایاں کر دیا ہے۔ ہماری قوم اور امن و انصاف کے اداروں کے نزدیک سرراہ اگر کوئی ٹھوکر کھا کر گر پڑے تو اس کی جیبوں کو ٹٹولنا اور اس کی گری پڑی چیزوں کو اٹھا کر بھاگ جانا چوری یا ڈاکہ نہیں گویا مال غنیمت ہے۔ اگر یہ روش عام ہو جائے تو آپ اس معاشرے کی حالت کا خوب اندازہ کر سکتے ہیں۔ اس واقعہ پر وزیر اعظم کے ردعمل نے پارا چنار، کوئٹہ، کراچی کے شہداء کے ساتھ چارسدہ یونیورسٹی، مردان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے شہریوں کے ورثا کے غم اور احساس محرومی کو اور بڑھا دیا ہے گویا ہمارے حکمرانوں کیلئے ایک علاقے کے لوگوں کی اہمیت اور قیمت دوسرے علاقوں میں بسنے والوں سے کم ہے جمعۃ الوداع کے خونی واقعات بالخصوص پارا چنار میں خونریزی جہاں آنِ واحد نے 80سے زائد ہنستے کھیلتے زندہ انسانوں کو خون کے لوتھڑوں میں بدل دیا ۔اس کی حساسیت اور فرقہ وارانہ نسبت سے اور بھی زیادہ تھی مگر وزیر اعظم سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی بجائے عید منانے کیلئے لندن چلے گئے۔ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ ہمارے حکمران اجتماعی غم کے موقع پر اکثر بیرون ملک ہی ہوتے ہیں۔
ناروے اور کینیڈا کے عیسائی وزرائے اعظم اپنے ملک کے مسلمان شہریوں کے ساتھ ان کی مسجدوں میں عید مناتے ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم جو مشرف کے عہد میں آنسو بہایا کرتے تھے کہ انہیں پاکستان میں عید کرنے کی اجازت نہیں، انہوں نے اپنے عہد حکومت کی ہر عید اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ منانے کی بجائے بیرون ملک گزاری۔

تازہ ترین