• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گلگت بلتستان ،نئے دور کا آغاز,,,,آغا مسعود حسین

1931ء میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے کشمیر کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈوگرہ راج نے کشمیری مسلمانوں پر جو ظلم روا رکھا ہے، اس کے سامنے نازیوں کا ظلم کچھ معنی نہیں رکھتا ہے۔ ڈوگرہ راج کے ظلم کی وجہ سے کشمیر کے ساتھ ساتھ گلگت اور بلتستان کے عوام بھی انتہائی کسمپرسی اور افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے اور ڈوگرا راج کے خلاف تقسیم ہند سے پہلے بھی احتجاجی آوازیں اٹھتی رہتی تھیں لیکن انہیں اپنے استبدادی ہتھکنڈوں سے دبا دیا جاتا تھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد حکومت کے ساتھ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نہ صرف ریاستی ظلم و تشدد ہوا بلکہ ساتھ ہی ایک نئے دور کا آغاز بھی ہوا۔ اس حقیقت سے تمام پاکستانی بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان کے قیام کے بعد گلگت بلتستان میں وہ تیزرفتار ترقی نہیں ہوسکی جس کی یہاں کے باشندے بجاطور پر توقع رکھتے تھے۔جناب بھٹو مرحوم کے دور میں گلگت بلتستان میں سیاسی دور کا آغاز ہوا اور معاشی ترقی کے دروازے بھی کھلے لیکن اس علاقے میں ترقی کی رفتار بھی سست پڑ گئی لیکن یہاں کے عوام نے سیاسی عمل کو جاری رکھنے کے سلسلے میں پاکستان کی تمام حکومتوں سے یہ مطالبہ جاری رکھا۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ موجودہ حکومت نے گلگت بلتستان کو ایک صوبے کا درجہ دے کر یہاں 12 نومبر 2009ء کو عام انتخابات بھی کرائے جس میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ گلگت بلتستان میں ہونے والے عام انتخابات کو مانیٹر کرنے کے سلسلے میں پورے ملک سے 300 آبزروز کے علاوہ میڈیا کے بیشتر ارکان موجود تھے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کے علاوہ فری اسٹیٹ فیئر الیکشن نیٹ ورک کے ارکان بھی گلگت بلتستان میں انتخابات کے دوران موجود تھے جن کے مطابق 12 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں کسی قسم کی دھاندلی نہیں ہوئی ہے۔ بین الاقوامی خبروں میں بھی یہی تاثر دیا گیا تھا… لیکن مسلم لیگ کے دونوں دھڑوں نے ان انتخابات میں حکومت پر دھاندلی کا الزام لگایا تھا۔ اسی قسم کا الزام ایم کیو ایم نے بھی لگایا تھا لیکن وفاقی وزیر اطلاعات کائرہ نے ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تیسری دنیا میں ہارنے والی جماعتیں اس قسم کا الزام لگاتی ہیں، تاہم یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ ان انتخابات میں تمام سیاسی پارٹیوں نے حصہ لیا اور جمہوریت کے مقاصد کو مزید آگے بڑھایا۔ ایم کیو ایم نے پہلی مرتبہ بھرپور طریقے سے ان انتخابات میں حصہ لیا۔ مگر لوگ ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں تاکہ مڈل کلاس قیادت سیاست میں کلیدی کردار ادا کرسکے۔
پی پی پی نے ان انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں یعنی کل 12 جبکہ ماضی میں یہاں ہونے والے انتخابات میں پی پی پی کو نشستیں ملی تھیں۔ ان انتخابات میں پی پی پی کے جن امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گلگت بلتستان میں پی پی پی کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ وہ پیکیج بھی تھا جو ستمبر میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے یہاں کے عوام کو پیش کیا تھا، اس پیکیج کی وجہ سے بھی ووٹروں پر خاصا اثر پڑا۔ ان انتخابات کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام اب اپنے آپ کو پاکستان کی سیاسی کے حوالے سے مرکزی دھارے میں شامل ہوتا ہوا محسوس کر رہے ہیں اور یہ پاکستان کے مجموعی استحکام کے حوالے سے بہت اچھی پیشرفت ہے۔ ان انتخابات کے ذریعے حکومت نے گلگت بلتستان میں ایک نیا سسٹم رائج کرایا ہے یعنی خودمختاری کا… باالفاظ دیگر یہاں کے عوام اب مرکزی دھارے میں شامل ہو کر اس علاقے کی ترقی کے لئے شب و روز سخت کریں گے۔ یہ علاقہ ابھی پسماندہ ہے لیکن یہاں کے لوگ محنتی اور بہادر ہیں، انہوں نے ڈوگرہ راج کے دوران جو مصائب برداشت کئے تھے گو اب وہ ماضی کا حصہ بن چکے ہیں لیکن یادیں باقی ہیں اور یہی یادیں انہیں معاشی ترقی کی نئی راہیں استوار کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوں گی… تاہم یہاں پر یہ بھی لکھنا ضروری ہے کہ جن انتخابی حلقوں میں بعض وجوہ کی بنا پر ملتوی کردیئے گئے تھے، وہاں دوبارہ انتخابات ہوں گے اور انہیں بھی مختلف اداروں کی جانب سے مانیٹر کیا جائے گا تاکہ کسی قسم کی دھاندلی کا الزام نہ لگ سکے۔ ان انتخابات کے نتائج کے بعد مسلم لیگ (ن) کے بعض کارکنوں نے ہنگامہ آرائی اور شاہراہ قراقرم کو بند کرنے کی بھی کوشش کی۔ اس علاقے میں بعض غیرملکی طاقتیں اپنا کھیل کھیلنا چاہتی ہیں اور چین اور پاکستان کے درمیان دنیا کی اس عظیم تجارتی و ثقافتی راہداری کو بند کرنا بھی چاہتی ہیں، اس کے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے کارکنوں کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
صوبہ سرحد اور فاٹا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس سے پاکستان کے سیاست دانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور انہیں تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود پاکستان کی سالمیت کے حوالے سے کم از کم بنیادوں پر یکجہتی اور رواداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ گلگت بلتستان میں انتخابات کے بعد یہاں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے اور اس شروع ہونے والے دور میں گلگت بلتستان کے عوام کو وہ معاشی و سماجی فوائد ملنے چاہئیں جس کا وہ قیام پاکستان کے بعد سے انتظار کر رہے ہیں۔
تازہ ترین