• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ واقعی صدیوں یاد رہے گا، نئے پاکستان میں پہلے دن کا سورج طلوع ہوچکا ہے، بدلے دور کی بہادر عدلیہ نے پاکستانی طاقتور اشرافیہ کے ہاتھوں لوٹ کھسوٹ کے نظام کو ختم کرنے کے لئے قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔
فیصلے کے مطابق وزیراعظم پاکستان کو متعدد بے قاعدگیوں کی بنا پر نااہل قرار دے کر ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یہ ریفرنس چھ ہفتوں میں دائر ہو کر چھ ماہ میں فیصل ہونگے۔ سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج دائر ہونے والے ریفرنس کی نگرانی کریں گے۔ عدلیہ کی موثر نگرانی کی وجہ سے بجا طورپرامید کی جاسکتی ہےکہ اب بےقاعدگیوں کے خلاف مواد کو نہ چھپایا جاسکےگا نہ ہی اس میں ردوبدل کی اجازت دی جائے گی، اگرچہ متعلقہ اداروں کے سربراہ سابق وزیراعظم نے تعینات کئے ہیں لیکن وہ سیاست کے ملازم ہیں کسی ایک فرد کے وفادار نہیں۔ انہیں ہر صورت قانون کے مطابق اور ریاست کے مفاد میں کام کرنا ہوگا۔ آج سے سیاست میں ایک نئی کشمکش کا آغاز ہوتا ہے، اولین کشمکش حکمران جماعت کے اندر برپا ہوگی۔
وزیراعظم کی نااہلی کی وجہ سے خالی ہونے والا عہدہ کون پُر کرے گا؟ چنانچہ حکمران جماعت کو فوری طور پر ایسے شخص کا انتخاب کرنا ہے، جو مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کو اکٹھا رکھ سکے، اس مقصد کے لئے شریف خاندان سے باہر شاہد خاقان عباسی کے سوا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا، شاہد خاقان عباسی وزیراعظم ہوسکتے ہیں بشرطیکہ بزرگ رہنما راجہ ظفر الحق ان کی جان کو نہ اٹک جائیں۔ جہاں نوازشریف کے پاس آخری ایک ہفتہ بچ رہا ہے۔ فی الوقت پارٹی ان کے ساتھ ہمدردی اور رواں وفاداری کی وجہ سے جڑی رہے گی چنانچہ اگر وہ کسی متوازن آدمی کو اپنا جانشین مقرر کریں تو ان کی خواہش کا پارلیمانی پارٹی ضرور احترام کرے گی، جوں جوں دن گزرتے جائیں گے توان کی گرفت بھی ڈھیلی پڑھنا شروع ہو جائے گی۔ انہیں نئے وزیراعظم کا چنائو بقیہ مدت کے لئے کرنا پڑے گا، عبوری وزیراعظم مقرر کر کے خاندان میں سے بیگم کلثوم نواز یا شہباز شریف کو باقی مدت کے لئے عہدہ سونپنے کی خواہش شاید پوری نہ ہوسکے۔ سیاست کا کھیل شروع مدت سے ہی پوری طرح میاں نوازشریف کے ہاتھ میں نہیں تھا، اب تو مکمل طور پر ان کے ہاتھ سے نکل کر عمران خان کے ہاتھ چلا گیا ہے۔ تازہ دم نوجوانوں کی بھاری اکثریت عمران خان کےساتھ ہے۔
عنقریب عمران خان کی طرف سے شہباز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ سامنے آجائے گا، وہ اس پر اصرار کرے گا، مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں صوبائی حکومت کو بڑے احتجاج کا سامنا کرنا ہوگا۔ پہلے بھی سپریم کورٹ کی بنائی جے آئی ٹی کو حکومت کے کارندوں کے ہاتھوں بڑی مشکلات کا سامنا تھا خاندان کے خلاف مقدمات کا فیصلہ ہونے تک پنجاب جیسے بڑے صوبے میں چھوٹے بھائی کی حکومت انصاف اور تفتیش کی راہ میں بڑی رکاوٹ کھڑی کرسکتی ہے۔ چنانچہ کپتان کےمطالبے میں بڑا وزن ہوگا، اس کے علاوہ ماڈل ٹائون میں بے گناہوں کے قتل کا معاملہ بھی پوری شدت سے اٹھایا جائیگا۔
ہائیکورٹ کے جج کی رپورٹ کو چھپائے رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ مرکزی حکومت کمزور اور پنجاب حکومت دبائو میں رہیگی۔ عمران خان کی طرف سے پہلا مطالبہ شہباز شریف کا استعفیٰ، اگلا قدم انتخابی اصلاحات پھر الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور آخر میں رواں سال کے آخر میں الیکشن کا ہوگا۔ وہ دھاندلی زدہ اسمبلی کو دوسری مرتبہ سینیٹ کے انتخاب کا موقع ہرگز نہیں دے گا۔

تازہ ترین