• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارون کو گزرے ہزاروں سال ہو گئے وہ آج بھی دولت و ثروت کا استعارہ ہے۔ مذہبی کتابوں کے علاوہ اسرائیل اور اس کے بعد کے زمانوں میں بھی اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے۔ سنتے ہیں کہ اس کے خزانے ایسے بے بہا تھے کہ ان خزانوں کی چابیاں درجنوں اونٹوں پر بار ہوتیں۔ قارون کو سمجھایا جاتا کہ وہ ناجائز دولت اکٹھی کرنے سے پرہیز کرے، اپنی دولت کا کچھ حصہ غربا کو بانٹے، اللہ کے حکم کے مطابق زکوٰۃ ادا کرے۔ دولت مند اگر کنجوس نہ ہو تو دولت مند کب رہتا ہے۔ وہ تو عثمان غنیؓ اور امام ابو حنیفہؒ کی طرح دولت کماتا ضرور ہے مگر اس کے پاس جمع نہیں ہوتی۔ قارون اپنے زمانے کے ناصح سے بہت تنگ تھا۔ ناصح کی مقبولیت روز بروز بڑھتی جاتی تھی اس لئے کہ وہ غریب لوگوں کو حصہ دینے کی بات کرتا۔ چنانچہ نادار، محروم اور انصاف پسند لوگ اس کی باتوں پر کان دھرتے، قارون نے اس کی مقبولیت سے گھبرا کے ناصح کو بدنام کرنے اور لوگوں کو اس کے کردار بارے گمراہ کرنے کیلئے منصوبہ بنایا۔ ایک خوبصورت مگر منہ پھٹ عورت کو اپنی دولت کی چمک سے اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ناصح پر گھنائونا الزام دھرے۔ لالچ نے عورت کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی چنانچہ وہ قارون کے کہے میں آگئی، ایک دن قارون نے موقع مناسب جان کر جب ناصح بھی پُررونق بازار میں موجود تھے لوگوں کو پکارا کہ سنو یہ معزز عورت کیا کہتی ہے، اس کی پکار پر لوگ جمع ہوئے تو قارون نے کہا، معزز خاتون لوگوں کو بتائوکہ ناصح نے تمہارے ساتھ کیا کیا۔ پاکباز ناصح کی سچائی کا رعب ہی ایسا تھا کہ عورت کے منہ سے بات ہی نہ نکل پائی، حوصلہ کر کے بولی تو کہا لوگو مجھے قارون نے گمراہ کیا کہ اس معزز اور پاکباز پر الزام لگائوں کہ وہ اس کے بدلے مجھے بہت سی دولت دے گا۔ میں بدبخت اپنے لالچ کے ہاتھوں رسوا ہوئی۔ کہتے ہیں تب سے قارون زمین میں دھنس گیا۔ شرم کے مارے شاید اس نے خود ہی زمین کو پھٹنے اور اس میں چھپ جانے کی دعا کی ہوگی۔ شاید دولت مند قارونوں کا ہر زمانے میں یہ طریقہ رہا ہے کہ بہادروں پر رکیک الزامات لگا کر انہیں لوگوں کی نظروں میں گرایا جائے۔ عورت کا حیلہ ویسے بھی خطرناک ہے، اگر لالچ کی پٹی بندھی ہو تو وہ ’’کٹنی‘‘ کا روپ دھار لیتی ہے۔ فاتح سندھ محمد بن قاسم ایسی ہی حیلہ ساز عورت کا شکار ہو کر خلیفہ سلمان بن عبدالملک کے ہاتھوں شہید ہوا اور ہند کی فتح صدیوں کی دوری پر چلی گئی۔
قارون کی دولت کے بارے میں قرآن کریم سمیت آسمانی کتابوں میں بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے یقیناً وہ بڑا ہی دولت مند رہا ہوگا۔ غالب امکان یہی ہے کہ وہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی طرح فرعون کو قرض بھی دیتا ہو اور اس قرض کے بدلے ایسی رعایتیں حاصل ہوں کہ وہ اپنے خزانوں کو بھرتا ہی چلا گیا مگر آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ وہ اتنا دولت مند ہوا کیسے؟ فرعونوں کے عہد میں کوئی موٹر وے بنی نہ میٹرو کا ڈول ڈالا گیا، نہ ہی آبدوزوں کے سودے ہوئے، نہ ایف16طیارے خریدے گئے، نہ قطر سے ایل این جی آئی، نہ نجی بجلی گھر بنے تو پھر وہ اتنا دولت مند کیسے ہوگیا؟
عورت بڑی ذہین مخلوق ہے اور نڈر بھی اگر وہ انتقام پر اتر آئے تو وہ بڑی خطرناک ہو سکتی ہے۔ وہ مکر اور حیلے کا ایسا جال بنتی ہے کہ شکار بچ کر نکل ہی نہیں سکتا لیکن شرط یہ ہے کہ عورت کی انا کو ٹھیس پہنچے اور وہ اپنا منصوبہ انتقام خود بنائے تو وہ منصوبہ مکڑی کے جالے کی طرح مکمل ہو گا۔ منصوبہ قارون کا ہو یا امیر مقام کا وہ اتنا ہی کمزور ہو گا کہ عمران خان جیسے سادہ لوح کو بھی پکڑ نہ سکے۔
عائشہ گلالئی خوبصورت، باوقار اور نہایت شستہ طریقے سے اپنا مافی الضمیر بیان کرنے والی پارلیمنٹرین ہیں۔ تحریک انصاف میں ان کی بڑی عزت اور ساکھ تھی اس کے سامنے طویل اور روشن مستقبل تھا لیکن شاید وہ جلد باز اور عاقبت نااندیش لوگوں کی سازش کا شکار ہو گئی۔ باپ کی خواہش تھی کہ بیٹی وزیر داخلہ اور وہ خود گورنر بنے یہ سہانا خواب اگر جاگتے میں دیکھا جائے تو اس کیلئے صبر آزما انتظار اور پُرخلوص محنت کرنا پڑتی ہے۔ ایسے حسین خواب نیم گھڑت اور احمق لوگوں کے ذریعے پورے نہیں کئے جاسکتے جو خود بے چارے پارلیمنٹ کے ممبر تک نہ ہوں اور جن کی اپنی سیاست کا ذریعہ محض خوشامد اور چاپلوسی تک محدود ہو۔
خالہ ہمارے تین سالہ بھائی کا لطیفہ سنایا کرتی تھیں۔ سردیوں کی ایک رات سبھی سو رہے تھے کہ بچے کے رونے کی آواز سے ان کی آنکھ کھلی تو ہمارا معصوم بھائی رضائی سے باہر بیٹھا رو رہا تھا۔ خالہ نے پوچھا کیا ہوا، کیوں روتے ہوئے؟ تو ہچکیوں کے درمیان توتلی زبان میں کہنے لگا پروں، پرار (پچھلے اور اس سے پچھلے سال) مجھے تایا نے مارا تھا، مگر اب کیوں روتے ہو؟ اس لئے کہ تب تایا نے مجھے رونے نہیں دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ پچھلے اور اس سے پچھلے سال موصوف اتنے چھوٹے تھے کہ تایا کو پہچانتے تھے نہ انہیں مار پڑی۔ کوئی خواب دیکھا یا نیند اچٹ گئی، بس اتنا سا فسانہ تھا۔ کسی کو بدنام کرنے کیلئے ایسی احمقانہ منصوبہ بندی کبھی دیکھی نہ سنی، پہلے تو اپنے خلاف مقدمے میں وکلاء صفائی کو جو کچھ دفاع میں کاغذات اور دلائل فراہم کئے وہ ایسے ایسے لطیفوں سے بھرپور ہیں کہ مقدمے کا فیصلہ صدیوں یاد رہے نہ رہے مگر وکلاء صفائی کی صفائیوں سے دنیا ضرور محظوظ ہوتی رہے گی۔ جہل مرکب کا ایسا ثبوت چھوڑا کہ سیاست دانوں کیلئے مقام عبرت ہی ٹھہرے گا۔
کہا، عمران خان نے مجھے گندے گندے پیغامات بھیجے، پوچھا یہ کب کی بات ہے، کہا 2013ء کی۔ پھر آپ نے اس وقت کیوں نہیں بتایا؟ کیونکہ ان پیغامات میں شادی کے اشارے تھے اس لئے مجھے بڑی شرم محسوس ہوئی مگر میں نے والد کو بتا دیا تھا (خاجے کا گواہ ڈڈو) پچھلے چار سال کے عرصے میں آپ نے یہ مسئلہ پی ٹی آئی کے کسی لیڈر کے سامنے رکھا؟ نہیں، عمران خان سے بات کی؟ نہیں، پوچھا، دو دن پہلے تو آپ جلسہ عام میں موجود تھیں۔ جواب ملا مگر مجھے وہاں تقریر بھی کرنے نہیں دی۔ اور کل آپ عمران خان سے ملنے بھی گئی تھیں اور پشاور NA-1کا ٹکٹ بھی مانگا تھا۔ ہاں مانگا تھا مگر عمران خان نے مانا نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصل مسئلہ جلسہ میں تقریر اور قومی اسمبلی کے ٹکٹ کا ہے تو پھر ٹیلی فون کے پیغامات کو بنیاد کیوں بنایا؟ اس لئے کہ عمران خان دو نمبر پٹھان ہے اور نواز شریف خاندانی آدمی، میری قبائلی غیرت نے زیادہ دیر گوارہ نہ کیا۔
ان لطائف میں سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ اس پر قومی اسمبلی کی کمیٹی انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرے گی جس کے 21ممبران ہوں گے، 13عمران خان کی دشمن جماعت اور تین اس کی اپنی پارٹی کے، باقی تفتیش کار دوسری جماعتوں سے لئے جائیں گے۔ ’’سبحان اللہ‘‘ یہ وہی قومی اسمبلی ہے جس کے سب سے اگلی نشست پر کھڑے ہوکر قائد ایوان نے تقریر فرمائی اور بعد میں عدالت کے اندر اس تقریر کو بطور ثبوت پیش کرنے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا وہ تو میرا سیاسی بیان تھا۔ یعنی دروغ گوئی پر مبنی، مگر قومی اسمبلی کے کسی ممبر کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ معزز ارکان کے روبرو غلط بیانی کرنے پر کوئی سوال اٹھائے اور ایوان اپنا استحقاق مجروح ہونے کی قرارداد ہی پیش کرتا۔ اس ناہموار میدان کے باوجود عمران خان نے اس کمیٹی کا خیر مقدم کیا ہے صرف ایک شرط کے ساتھ کہ الزام عائد کرنے والی محترمہ کے دعویٰ کردہ ’’پیغامات کا فرانزک ٹیسٹ کروا لیا جائے‘‘۔ عمران خان کے سچا ہونے کو یہ ایک جملہ ہی کافی ہے۔

تازہ ترین