• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طالبان کیخلاف جنگ میں پاکستان کو 10ارب ڈالر بخشنے کا طعنہ دینے والے امریکہ نے افغانستان میں ایک ہزار ارب ڈالر (ایک کھرب ڈالر) میں شکست خریدی۔
گل صاحب پنجاب یونیورسٹی شعبہ تاریخ میں ہمارے استاد تھے۔ نئی کلاس شروع ہونے پر پہلے دن لیکچر کیلئے آئے تو انہوں نے اپنا لیکچر ’’شیر اور بکری کے بچے‘‘ کی پرانی داستان سے شروع کیا۔ ایک دن جنگل کا بادشاہ شیر نہر کنارے پانی پی رہا تھا اس نے دائیں بائیں دیکھا تو قریب ہی بکری کا بچہ بھی اپنی پیاس بجھانے میں مصروف تھا۔ بچے کو دیکھتے ہی شیر کی بھوک بھی جاگ اٹھی۔ اب اسے بچے کو کھانے کیلئے بہانہ چاہئے تھا۔ شیر نے بچے سے کہا دیکھتے ہوئے کہ بادشاہ سلامت پانی پی رہے ہیں تو تم پانی کو گدلہ کیوں کر رہے ہو؟ بچے نے معصومیت سے جواب دیا۔ ظل سبحانی، پانی تو آپ کی طرف سے بہہ کر میری طرف آ رہا ہے۔ میں اسے گدلہ کیسے کر سکتا ہوں۔ شیر جھوٹے بہانے پر شرمندہ ہونے کی بجائے بولا، تم نے پچھلے سال مجھے گالی کیوں دی تھی، بچے نے عاجزی سے عرض کیا، حضور پچھلے سال تو میں پیدا ہی نہیں ہوا تھا تو گالی کیسے دے سکتا تھا۔ شیر نے کہا اچھا گالی تم نے نہیں تو تمہاری ماں نے دی ہوگی، یہ کہا اور بکری کے بچے پر جھپٹ پڑا اور چند منٹ میں معصوم بچہ اس کے پیٹ میں پہنچ چکا تھا۔
طاقت اور اقتدار کے قانون الگ، ضابطے جدا اور اخلاقیات اپنی سی ہوتی ہیں۔ طاقتور اگر بھوکا بھی ہو تو اس کی کمینگی کی کوئی اتھاہ نہیں۔ نیم پاگل امریکی صدر ٹرمپ بھی پاکستان کے خلاف کچھ ایسے ہی بہانے تراش رہا ہے جیسا کہ جنگل کے بیچ نہر کنارے شیر نے بچے کیلئے تراشے تھے لیکن سب جانتے ہیں کہ امریکہ شیر ہے نہ پاکستان بے چاری بکری کا بچہ، البتہ امریکی گیدڑ نے جو شیر کی کھال اوڑھ رکھی تھی وہ افغانستان میں طالبان نے کھینچ اتاری ہے۔ پاکستان پر دانت نکوسنے اور دھمکیاں دینے کا کچھ فائدہ نہیں۔ پاکستان شروع دن سے کسی بھی طاقت سے خوفزدہ نہیں تھا۔ انڈیا، روس نہ امریکہ، ہاں ضرورت مند ضرور تھا اور امریکہ کو بھی اس خطے میں پاکستان کی ضرورت تھی۔ ہمارے مفادات کے اشتراک نے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کر دیا۔ اب امریکہ کے مفادات امریکہ کے ساتھ ہیں اور پاکستان نے بھی اپنی ضروریات پوری کرنے کا الگ سے بندوبست کر لیا ہے۔ پاکستان افغانستان کی طرح تہی دست ہے نہ لیبیا کی طرح کمزور اور نہ بھری دنیا میں الگ تھلگ زندگی گزارتا ہے۔ اس کے چند دشمن ہیں تو بہت سے دوست بھی ہیں۔ امریکہ کبھی ایسا ہی ہوا کرتا تھا کہ اس کی طاقت سے خوف کھایا جائے اور اس کے خزانوں کو للچائی نظروں سے دیکھیں۔ عالمی طاقت وہی ہے جس کی چھائونیاں مضبوط فوجوں سے آباد ہوں، اسلحہ خانے جدید اسلحہ سے ابل رہے ہوں اور خزانے کی کثرت اور چمک دوست، دشمن کی نظروں کو خیرہ کر دیں۔ ٹرمپ کا امریکہ اگر ہاتھی ہے تو اس کی سونڈھ افغان بچے کاٹ کر لے گئے اب وہ صرف اپنی صفوں کو روند سکتا ہے۔ امریکہ آج ساری دنیا کے مجموعی قرضوں سے زیادہ مقروض ہے اس کی افواج افغانستان میں پٹنے کے بعد اس نہج پر آگئیں کہ آج پوری دنیا میں سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات امریکی فوج میں اور ذہنی مریض بھی وہیں پائے جاتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر انڈیا ہے جس کی فوج میں خودکشی اور ذہنی امراض کی بہتات ہے۔ یہیں سے ان کے جذبے اور تربیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو بہت خوشی ہوگی اگر نیٹو افواج کی ذلت آمیز واپسی کے بعد امریکہ اپنے نئے اتحادی انڈیا کی افواج قاہرہ کی مدد سے افغانستان کو از سر نو فتح کرنے کی کوشش کرے۔ امریکہ کیلئے لازم ہے کہ اپنی کٹی ہوئی دم اور سونڈ افغانوں سے مانگ کا واپس لے جائے اور اسے جوڑ کر پہلے اپنے ہاتھی کی تصویر مکمل کرے پھر واپسی کا سوچے۔ انڈیا کی سات لاکھ مسلح افواج نہتے کشمیریوں کی جدوجہد کے مقابلے میں بے بسی سے کراہ رہی ہیں ’’ایسے میں خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو‘‘۔ طاقتور وہی ہے جس کی ضرورت ہو یا جس سے خوف آئے۔ پاکستان کے خزانے میں امریکہ کے بخشے ڈالر ہیں نہ چھائونیوں میں اس کا اسلحہ۔ آج کا پاکستان دشمنوں سے نمٹنے کیلئے خود کفیل ہے اور ’’امریکہ کی مالی امداد اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘۔ جن دس ارب ڈالر کا پاکستان کو روز طعنہ دیا جاتا ہے ان کے مقابلے میں امریکہ کو اس جنگ میں شرمناک شکست اور اس کی افواج کو قتل عام سے بچانے کیلئے پاکستان نے دو سو ارب ڈالر اپنی جیب سے خرچ کئے اور پچھتّر ہزار انسانی جانوں کی قربانی دی۔امریکہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ جس افغانستان کو وہ اور اس کے اتحادیوں کی تقریباً ڈیڑھ لاکھ فوجیں فتح تو کیا کرتیں پُرامن بھی نہ بنا سکیں اس افغانستان میں امریکہ کی بچی کھچی دس ہزار فوج میں چار ہزار کا اضافہ بھی کر دیا جائے تو افغان مجاہدین کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا نہ ہی پاکستان اس سے لرزہ براندام ہوگا۔
امریکہ کیلئے زیادہ بہتر ہوگا کہ وہ کشمیریوں سے براہ راست درخواست کرے کہ وہ انڈیا کی لاکھ دو لاکھ فوج فارغ کر دیں تاکہ انڈیا افغانستان میں امریکہ کی مدد کر سکے۔ دو جھوٹے اور لالچی ایک جگہ اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اس غیر مقدس اتحاد سے فائدہ اٹھاتا ہے اور کون جھولی اٹھا کہ دوسرے کو بددعائیں دیتا ہے۔ امریکی بڑھیا اگر اپنا مرغا اٹھا کہ لے بھی جائے تو پاکستانیوں کو زیادہ پروا نہیں، انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ اس مرغ کے نہ ہونے سے بھی صبح اپنے وقت پر طلوع ہو گی۔ امریکہ کے اس خطے میں مقاصد اور مفادات مثبت ہو ہی نہیں سکتے۔ جن دنوں وہ پاکستان کا دوست تھا اور ہمیں اس کی شدید ضرورت تھی تب بھی اس کے مقاصد منفی تھے اس کے ہونے سے پاکستان کو وقتی طور پر تحفظ کا احساس ہوا مگر وہ بس محض احساس ہی تھا وہ بھی 65کی جنگ کے بعد جاتا رہا۔ آج بھی خطے میں امریکہ کے مقاصد منفی ہیں اور انڈیا کے بھی، ان دونوں کا خبث باطن انہیں ایک دوسرے کے قریب لے آیا ہے۔ دونوں کو افغانستان کی ترقی یا امن سے کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ افغانستان کو پُرامن دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ مضبوط اور محفوظ افغانستان ان کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ انہیں ایک ایسے افغانستان کی ضرورت ہے جہاں پر چھوٹے چھوٹے دہشت گرد گروہ اپنی اپنی کالونیاں بنا کر اردگرد کے ملکوں کو غیر مستحکم کر سکیں۔ امریکہ افغانستان میں پاکستان تحریک طالبان کو پناہ فراہم کرتا چلا آیا ہے اور انڈیا امریکہ کی مرضی سے ان دہشت گردوں کو تربیت، اسلحہ اور پیسہ دیکر پاکستان کے خلاف بطور ’’پراکسی‘‘ استعمال کرتا ہے۔ امریکہ ایران کا دشمن، روس کا حریف اور چین سے خوفزدہ ہے۔ پاکستان اس کی نئی محبوبہ کے دل میں تیر کی طرح ترازو ہے۔ لہٰذا امریکہ ہو یا انڈیا ان دونوں کی افغانستان سے سرحدیں ملتی ہیں نہ براہ راست مفادات وابستہ ہیں تو پھر وہ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ پاکستان اور دیگر ہمسایہ ملک ایران، روس، چین اور وسط ایشیائی ریاستوں کو اپنے تحفظ اور مفاد کیلئے امریکہ اور انڈیا کو افغانستان سے نکالنے کیلئے اپنے سیاسی، سفارتی ذرائع استعمال کرنے چاہئیں بات نہ بنے تو پھر ’’انگلیاں ٹیڑھی‘‘ کر کے بھی خطے کے امن کے مقصد کو حاصل کرنا ہوگا۔
ہر ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ کنویں سے کتا نکال دیا جائے۔

تازہ ترین