• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

28مارچ 1999کو چھپنے والے اپنے ایک کالم میں، میں نے لاہور کو سجانے اور سنوارنے کے حوالے سے اس وقت کے پی ایچ اے کے سربراہ جناب کامران لاشاری کی خدمات کو سراہتے ہوئے لکھا تھا کہ انہوں نے لاہور کو خوبصورت بنانے اور سڑکوں کو پھولوں سے لاد دینے کا عزم کر رکھا ہے اور اپنے اس عزم کی وجہ سے وہ کامران لاشاری کی بجائے باغبان لاشاری کہلانے لگے ہیں۔ کامران لاشاری آج کل لاہور آرٹس کونسل سے منسلک ہیں اور وہاں آرٹ اور کلچر کے میدان میں ایک نئے عزم کے ساتھ عمل پیرا ہیں اور ان کے بعد آنے والے دوستوں نے ان کے کام کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ آگے بڑھانےکی کوشش بھی کی ہے۔پی ایچ اے کی عملی کاوشیں لاہور کے مختلف چوراہوں پر پھولوں کی تزئین و آرائش کے نمونوں کی صورت میں نظر آتی ہیں۔ مختلف تہواروں پرپھولوں اور پودوں کے ساتھ ساتھ روشنیوں کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس دفعہ 14اگست کے موقع پر پی ایچ اے کے سربراہ میاں شکیل اور ناہید گل اور ان کی ٹیم ملیحہ رشید، اسلم حیات، جاوید حامد اور ناصر بٹ پوری جانفشانی سے لاہور کو روشنیوں سے جگمگانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ معلوم نہیں مختلف چوراہوں پر لوہے سے بنے قوی ہیکل ڈیزائن کس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، لیکن ان کو دیکھتے ہوئے کسی ماہر آرٹسٹ کی عملی معاونت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ لاہور کے مختلف گرین بیلٹس، باغات اور چھوٹے چھوٹے پارکوں کی باغبانی بھی پی ایچ اے کے دائرہ کار میں آتی ہے۔عید کے موقع پر پی ایچ اے کی باغبانی کو سب سے بڑا خطرہ لاہور شہر میں قربانی کے لئے لائے گئے بکروں کی طرف سے لاحق ہوتا ہے۔ معلوم نہیں عید پر قربانی دینے والوں کو اور خاص طور پر ان کے بچوں کو کس نے بتا دیا ہے کہ قربانی کے بکروں کو پارکوں میں مشکل سے اُگائے گئے پودوں اور درختوں کے پتے کھلائے جائیں تو بہت ثواب ہوتا ہے چنانچہ ہر عید پر سڑکوں کے کنارے اور پارکوں میں لگائے اور اُگائے گئے درختوں کی وہ تمام شاخیں اور پودے بکروں کی اوجھڑیوں میں چلے جاتے ہیں جوکہ ان بکروں کو ٹہلانے اور زندگی کی آخری سیر کرانے والے بچوں کی پہنچ میں ہوتے ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے قربانی کے بکرے خریدنے والوں نے اپنے گھر کی تمام تر جمع پونجی ان بکروں کو خریدنےپر ہی خرچ کردی ہے اور اب ان کے پاس ان بکروں کو کھلانے کے لئے کچھ نہیں رہ گیا چنانچہ ان کے بچے ان بکروں کو پارکوں اور سڑکوں کے درختوں اور پودوں پر پالنے پرمجبور ہو گئے ہیں۔ بے شک اس میں بہت سا عنصر قربانی دینے والوں کی اپنی نمود و نمائش کا بھی ہوتا ہے لیکن یہ بھی سوچنا چاہئے کہ پبلک پارکوں کو اجاڑنے اور درختوںکی چھائوں کو خراب کرنے سے انہیں کتنے نفلوں کا ثواب ہوتا ہے؟ہمارے لوگوں کو اپنے رویئے پر نظرثانی کرنی چاہئے اور اگروہ بکروں کی خریداری پر پچیس، تیس یا چالیس ہزار روپے خرچ کرتے ہیں تو دو تین سو روپے ان کے چارے پر بھی خرچ کردیا کریں تاکہ شہر کے درخت بچے رہیں۔ یہ بکرے انہیں پل صراط عبور کراتے وقت ہرگز یہ شکایت نہیںکریں گے کہ آپ لوگوں نے ہمیں پی ایچ اے کے اُگائےدرخت، پودے اورپھول کیوں نہیں کھانے دیئے؟آخر میں قربانی کے حوالے سے ایک فقرہ باربار میڈیا پر بولا اور سنا گیا جس میں قربانی سے پہلے قربانی، قربانی کے دن قربانی اور قربانی کے بعد قربانی کی پیش گوئیاں کی گئیں۔ ہمارے ملک میں قربانی کے بارے میں کبھی بھی اورکہیں بھی پیش گوئیاں کی جاسکتی ہیں کہ ہم پچھلے 70سالوں سے قربانیاں ہی دیتے آ رہے ہیں البتہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود کوئی قربانی دینے کی بجائے دوسروںکو قربان کردینے کی پیش گوئیاں کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔ ان کے دوستوں کو ان کی پیش گوئیوں سے متاثر ہونے کی بجائے یہ پتا لگانا چاہئے کہ قربانی کی کوئی فرمائش کہیں اندرونی یا بیرونی آقائوں کی طرف سے تو نہیں کی جارہی؟اور کیا قربانی کے بعد بھی قربانی جاری رہے گی؟ اور قربانیوں کاایک سلسلہ چل نکلے گا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ 62۔ 63 سے لے کر 302 تک ہر قسم کی قربانی کے اس سلسلے میںآخرکار وہ سب قربان ہو جائیں یا کردیئے جائیں جن کی قربانی جائز ہے؟ کیا اب صرف وہی بے فکر رہ سکتے ہیں جن کی قربانی جائز ہی نہیںہے؟

تازہ ترین