• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند روز قبل اپنے ایک خطاب کے دوران نئی افغان پالیسی کے خدوخال پیش کئے ان کی نئی پالیسی میں الیکشن مہم کے دوران کی گئی باتوں سے تضاد پایا جاتا ہے۔ ٹرمپ کا اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ موقف تھا کہ امریکہ افغانستان میں کھربوں ڈالرز خرچ کر چکا ہے لیکن اس کے باوجود ہم وہاں پر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہماری افغان پالیسی پچھلے 16 برسوں کے دوران ناکام رہی۔ انہوں نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاکا اشارہ بھی دیا تھا لیکن اب وہ افغانستان میں امریکی افواج بڑھانے کی بات کر رہے ہیں۔ افغان پالیسی کے حوالے سے دیئے جانے والے بیان سے قبل امریکی صدر نے کئی ماہ تک اپنی اعلیٰ سول و عسکری قیادت سے مشاورت جاری رکھی جس کے بعد انہوں نے افغان پالیسی کا اعلان کیا جس میں انہوں نے پاکستان کو بھی دھمکی دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو افغان پالیسی بنائی ہے وہ زمینی حقائق کے منافی ہے۔ ان کی پالیسی سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کنفیوژن کا شکار ہیںکہ امریکہ کو افغانستان میں طالبان کے خلاف مزید جنگ لڑنا چاہئے یا طالبان سے مذاکرات کا عمل شروع کر دینا چاہئے۔ افغانستان کے حوالے سے بنائی جانے والی پالیسی میں بھارت کا اثر و رسوخ اور تعلقات غالب دکھائی دیتے ہیں۔ ٹرمپ ایک طرف پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی افغانستان میں بھرپور شراکت داری کی بات کر رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان کو یہ دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ اگر ان کی شکست کو فتح میں تبدیل کرانے کیلئے اقدامات نہ کئے تو وہ یہاں پر موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر براہ راست حملے کر سکتے ہیں۔ امریکہ کے درجنوں سول و فوجی تھنک ٹینک یہ بات کہہ رہے ہیں کہ 9/11 کے بعد امریکہ کی طرف سے افغانستان کے لئے بنائی جانے والی پالیسیاں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں جبکہ بہت سے امریکی اس بات کا اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ مکمل طور پر شکست کھا چکا ہے امریکہ کے سابق ڈپلومیٹ ، فوجی سربراہان اور دیگر انتظامی عہدیدار یہ بات بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ افغان پالیسی کے حوالے سے امریکہ کا پاکستان کا رول کم اور بھارت کا رول بڑھانا خطرے سے خالی نہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی شمولیت کے بغیر افغانستان میں دیرپا امن قائم ہونا ممکن نہیں۔ امریکی کانگریس میں یہ بحث چل نکلی ہے کہ افغان طالبان سے مذاکرات کے ذریعے ہی امن کا راستہ نکل سکتا ہے، اس لئے پاکستان پر الزام تراشی کرنے کی بجائے خطے میں اس کا کردار بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ میں تذکرہ کچھ اس طرح ہو رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات معمول پر لائے بغیر افغانستان میں امریکی پالیسیاں چلانا اور انہیں جاری رکھنا ناممکن ہے۔ امریکی صدر کے بیان سے پیدا ہونے والی صورتحال پر جامع حکمت عملی وضع کرنے کے لئے کئی گھنٹوں پر محیط قومی مشترکہ مفادات کونسل کا مشاورتی اجلاس وزیراعظم کی زیر صدارت ہوا جس میں پاکستان نے اپنے بھرپور ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی الزامات کو مسترد کر دیا اور اس مرتبہ امریکہ سے ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں یہاں پر کسی قسم کا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں کوئی ایسا منظم گروہ بھی موجود نہیں ہے جو یہاں بیٹھ کر افغانستان میں کارروائیاں کرواتا ہو۔پاکستان نے امریکی صدر کے اس بیان کو بھی مسترد کر دیا کہ ہمیں اربوں ڈالر دیئے گئے حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اب تک 120 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ پاکستان نے واضح کیا کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو یا کوئی اور مقصد پاکستان کو امریکی ڈالرز کی ضرورت نہیں بلکہ اس کی بجائے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری قربانیوں کا اعتراف کھلے دل سے کیا جائے اور سالمیت کو تسلیم کیا جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے منظم گروہ اور محفوظ ٹھکانے موجود ہیں جنہیں بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے اور یہ دہشت گرد بھارت کی مدد سے پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان نے امریکہ سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور منظم گروہوں کو ختم کرنے میں ہمارا ساتھ دیا جائے اور پاکستان سے مل کر بارڈر مینجمنٹ میں بھی حصہ لے۔ بارڈر پر باڑ لگانے میں بھی امریکہ کو بھرپور انداز سے پاکستان کا ساتھ دینا چاہئے، مشاورتی اجلاس کے بعد پاکستان نے یہ موقف بھی اختیار کیا کہ 30 لاکھ سے زائد افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لئے بھی امریکہ کو پاکستان کے ساتھ مل کر اقدامات کرنا ہونگے اسی طرح خطے میں امن و امان کے قیام میں مدد ملے گی۔ بعض دہشت گرد افغان مہاجرین کی آڑ لے کر پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان نے یہ بھی کہا کہ امریکہ سے مالی امداد چاہئے نہ ہی فوجی سازو سامان کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ خطے میں دیر پا امن کیلئے متحرک گروپوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے کی بجائے مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے جس کے مثبت نتائج حاصل ہونگے اور افغانستان میں دیرپا امن قائم ہوسکے گا۔ ایسا کرنا پاکستان اور امریکہ کے مفاد میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔ موجودہ صورتحال میں ایسے اقدامات پر فوری طور پر عملدرآمد کیا جانا چاہئے۔ پاکستان نے نئی امریکی پالیسی کے بعد اپنے دوست ممالک سے رابطے شروع کر دیئے ہیں اس سلسلے میں گزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے دوست اسلامی ملک سعودی عرب کا دورہ کیا اور شاہ سلمان کو امریکی پالیسیوں اور پاکستان کے لائحہ عمل کے حوالہ سے اعتماد میں لیا۔ پاکستان نے اپنے عظیم دوست چین اور روس سمیت بہت سے دیگر ممالک سے بھی صلاح و مشورے کئے ۔ چین اور روس نے پہل کرتے ہوئے پاکستانی موقف کی حمایت کی اور خطے میں قیام امن کے لئے پاکستان کی قربانیوںکو خراج تحسین پیش کیا اور امریکہ پر واضح کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کو تسلیم کیا جانا چاہئے۔ چین اور روس نے یہ بھی باور کرایا کہ پاکستان کو شامل کئے بغیر خطے میں دیرپا امن کا قیام ممکن نہیں۔ پاکستان کے متعلق امریکہ کی نئی پالیسی سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ وہ ہمارا دوست ملک نہیں ہے اور اب پاکستان نے بھی اس حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے عہد کیا ہے کہ اسے امریکہ کی بجائے قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہے کیونکہ ملکی سلامتی کو مقدم سمجھنا اولین ترجیح ہے اور پاکستان کو مکمل ادراک ہے کہ امریکہ کی نئی پالیسی خطے میں امن کی بجائے مزید انتشار پیدا کرے گی۔ موجودہ حالات میں یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ افغانستان کے حوالےسے عالمی طاقتیں تقسیم ہو رہی ہیں۔ امریکہ اور بھارت ایک طرف کھڑے نظر آرہے ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان چین اور روس ہیں۔ تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں پاکستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے اگر پاکستان اس نازک دور سے نکلنا چاہتا ہے اور خطے میں اپنا اثر و رسوخ مزید بڑھانے کا خواہش مند ہے تو اب اسے امریکہ سے ڈکٹیشن لینے کی بجائے قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے از سر نو پالیسیاں مرتب کرنا چاہئیں اور ایسا اسی صورت میں ممکن ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر مضبوط سے مضبوط تر ہو جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سول و عسکری قیادت اپنی اپنی بالا دستی ثابت کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوط کریں۔ موجودہ حالات کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام اداروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے یہی وقت کا تقاضا ہے۔

تازہ ترین