• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ممبئی سے نقی بھائی نے ٹیلی فون پر بتایاکہ ’’سپریم کورٹ آف انڈیا نے دلیپ کمار کے حق میں فیصلہ دیاہے جس سے وہ پالی ہل میں اپنے بنگلے پر پھر سے قابض ہوگئے ہیں‘‘۔ یہ بنگلہ دلیپ کمار صاحب نے1949میں محبوب خان کی فلم ’’انداز ‘‘ کی کامیابی کے بعد خریداتھا۔دلیپ صاحب اپنے اہل خانہ کے ساتھ کئی سال تک یہاں رہے۔ 1966میں سائرہ بانو سے شادی کے بعد بھی کئی سال تک دونوں اسی گھر میں رہے بعدازاں دونوں میاں بیوی پالی ہل میں ہی ایک دوسرے عالیشان بنگلے میں شفٹ ہوگئے ۔پرانے بنگلے میں دلیپ صاحب کے سب سے چھوٹے بھائی احسن خان رہائش پذیر رہے جنہوں نے شادی نہیں کی ۔ ممبئی میں ہریتک روشن،سلمان خان اور عامر خان جیسے سپراسٹارز بھی کئی کئی منزلہ فلیٹس میں رہتے ہیں۔دلچسپ امر ہے کہ دلیپ صاحب نے ان تمام سپراسٹارز سے بہت کم فلمیں کیں اور وہ اپنی تمام عمر پیسہ کمانے والی مشین بھی نہ بنے مگر رہن سہن اور گھر بار ان سے کہیں زیادہ بہتررہا۔ 2001میں جب اپنے مرحوم دوست گلوکار پرویز مہدی کے ساتھ ممبئی گیاتھاتو پندرہ دن تک اسی بنگلے میں مہمان رہا۔اس بنگلے سے میری بھی بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔شام کے وقت دلیپ صاحب سے باقاعدگی سے نشست ہوتی رہی۔ ان خوبصورت شاموں میں ان کے قریبی دوستوں کے علاوہ صحافی حضرات بھی شریک ہوتے رہے۔دلیپ صاحب سے ملنے والے صحافیوں کی اکثریت مسلمانوں کی تھی اور یہ سب اردو اخبارات سے وابستہ تھے۔ اصل میں تو یہ مقدمہ بھابی سائرہ بانو اور ان کی لیگل ٹیم نے جیتا ہے 94سالہ دلیپ صاحب تو ایک عرصہ سے صاحب فراش ہیں اورکچھ دنوں سے تو وہ اپنے ہوش وحواس بھی کھو بیٹھے ہیں۔ مجھے یہ حقیقت بڑی سنگین لگتی ہے کہ ’’انداز‘‘ ’’ملن‘‘ ’’کوہ نور‘‘ ’’دیو داس ‘‘ اور ’’مغل اعظم ‘‘ کے لازوال کرداروں میں اپنی لافانی اداکاری سے انسانوں کے حواس پر چھا جانے والا دلیپ کمار ایک دن اپنے ہوش کھوبیٹھے ہیں۔ پروردگار انہیں صحت عطا کرے۔دلیپ صاحب کی عظمتوں کا چرچادنیائے فن کے چرب زبان نہیں کرسکتے۔ان کے لئے جو بھی لکھیں تھوڑا لگتاہے ۔فن اداکاری کے غالب کو سخن کے غالب کی زباں میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں
زَباںپہ بارِخدایا ! یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بُوسے مری زباں کے لئے
2012دسمبر میں نامور اداکار اوربڑے بھائی سہیل احمد نے صرف ایک دن میں بھارتی ویزہ حاصل کیا اورہم دلیپ صاحب کے دیدار کرنے ممبئی جا پہنچے تھے۔تب تک دلیپ صاحب کی آنکھوں میں وہ سحرتھاجسکی تاب لانا مشکل تھا۔سائرہ بانونے ہم سے کہاکہ 11دسمبر دلیپ صاحب کی سالگرہ ہے ۔اس بار صاحب کی سالگر ہ بڑے پیمانے پر ہورہی ہے آپ کوشرکت کی دعوت ہے ۔دلیپ صاحب کی سالگرہ میرے لئے کسی ورلڈکپ اور کمبھ کے میلے سے کم نہ تھی مگر برادرم سہیل احمد کی پیشہ ورانہ مصروفیات نے ہمیں اس اعزاز سے محروم رکھا اور ہم واپس لاہور لوٹ آئے۔ دلیپ صاحب اور سائرہ بانو سے یہ ملاقات پالی ہل کے دوسرے بنگلے میں ہوئی تھی ۔ پرانے بنگلے کے ارد گرد تعمیر کی غرض سے دھاتی چادروں کا حصار تھا مگر عدالتی حکم امتناعی کے باعث کام روک دیاگیاتھا۔ لگ بھگ 11 سال بعد سائرہ بانو یہ مقدمہ جیت گئی ہیں۔نقی علی قریشی جو دلیپ صاحب اور سائرہ بانو کے چھوٹے بھائی جیسے ہیں انہوں نے مجھے جو تصاویر بھیجی ہیں سائرہ بھابی ان میں بڑی خوش دکھائی دے رہی ہیں۔ دلیپ صاحب اور سائرہ بھابی کے مقدمہ جیتنے پر مجھے نوازشریف کا مقدمہ یاد آگیا جس کے نتیجے میں ان کی وزارت عظمیٰ کے عہدے سے نااہلی ہوئی ہے۔ دلیپ صاحب اور سائرہ بھابی دونوں کے دل میں نوازشریف کے لئے محبت اور شفقت کے جذبات ہیں۔ نوازشریف نے وزارت عظمیٰ کے اپنے دوسرے دور میں دلیپ صاحب کو اسٹیٹ گیسٹ کے طور پر پاکستان مدعو کیااور ان کی خدمت میں پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ’’نشانِ پاکستان ‘‘ پیش کیا تھا ۔دلیپ صاحب کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی اردو پسند نہیں تھی انہیں کسی بدخواہ نے لاوڈ اسپیکر سے آنے والی آواز کے بارے میں محترمہ کے یہ الفاظ کہ ’’ وہ بج رہاہے‘‘ والا قصہ بھی سنارکھا تھا جس کے باعث ان کی رائے پختہ تھی ۔ مجھے یقین ہے کہ اس قسم کی باتیں دلیپ صاحب کو انہی لوگوں نے سنائی ہوں گی جنہوں نے پاکستان میں بھٹو خاندان اور ان کے رشتہ داروں کو بدنام کرنے کے لئے باقاعدہ میڈیا سیل قائم کئے تھے۔ 2013کے انتخابات کے نتیجے میں جب نوازشریف تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تو دلیپ صاحب اور سائرہ بانو نے مبارک باد بھی بھیجی تھی جو میں نے برادرم پرویز رشید کی وساطت سے میاں صاحب تک پہنچا دی تھی۔ٹریجڈی یہ ہے کہ دلیپ صاحب اور سائرہ بانو تو سپریم کورٹ آف انڈیا سے مقدمہ جیت گئے ہیں لیکن نوازشریف کی بابت اب جیت خاصی مشکل دکھائی دے رہی ہے۔ عدالت سے جیت اپنے نام کرنے کے لئے ثبوت چاہیے ہوتے ہیں جو شریف خاندان مہیاکرنے سے قاصر ہے لیکن حلقہ 120میں چلائی جانے والی انتخابی مہم میں مریم نواز مہربان میڈیامیں ایسے ہی کامیاب دکھائی دے رہی ہیں جیسے ہدایتکار الطاف حسین کی فلم ’’رانی بیٹی راج کرے گی‘‘ کا چرچا تھا۔چوہدری نثار نے درست کہاکہ ’’مریم نوازاور بے نظیر بھٹو میں زمین آسمان کا فرق ہے ‘‘۔ بے نظیر اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اس وقت سیاست میں آئیں جب وہ صرف 24برس کی تھیں۔مریم نوازنے سیاست میں اپنی انٹری 43سال کی عمر میں اس وقت دی ہے جب ان کی بیٹی کی شادی بھی ہوچکی اور الحمدللہ مریم اب نانی بن چکی ہیں۔ مریم نے سیاست میں آنے کیلئے اپنے والد کی نااہلی اور والدہ کی بیماری کو وجہ بنایاہے۔ بے نظیر اور مریم کی کہانی کو معروض کا عنوان دیں تو بے نظیر’ پنکی‘ اور مریم’ نانی‘ کی حیثیت سے سیاست سے وابستہ ہوئیں لہذادونوں کا موازنہ کرانا درست نہیں۔حلقہ 120میںحمزہ شہبازاور خادم اعلیٰ بھی دکھائی نہیں دئیے حالانکہ ضمنی انتخابات کے حوالے سے حمزہ نون لیگ کے لئے’’ رونالڈو‘‘ ثابت ہوتے رہے ہیں۔لیکن اس بار مریم کو بے نظیر بنانے کا ٹارگٹ حاصل کرنے کے لئے سرتوڑ کوشش کی جارہی ہیں اسلئے حمزہ کو فاصلے پر رکھاگیاہے۔بھٹواور شریفوں کی کہانی میں اتنی مماثلت تو ہے کہ دونوں کو اسٹیبلشمنٹ نے متعارف کرایاتھا،مگر پیپلز پارٹی کی تشکیل میں اس ملک کے دانشوروں کا دماغ اور محنت کشوں کا خون پسینہ شامل ہوا تھا جبکہ بعض دوسری پارٹیاں اور آئی جے آئیاں خفیہ فنڈنگ سے معرض ِوجود میں آتی رہیں۔یہ مقدمات آج بھی عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔مریم کہتی ہیںاگر سستا اورفوری انصاف چاہیے تو نوازشریف کوووٹ دو۔ان سے سوال ہے کہ اگرنوازشریف واپس آتے ہیں تو کیا وہ ایسا انصاف متعارف کرائیں گے جس سے آئی جے آئیاں بنانے اورخفیہ فنڈنگ لینے کے مقدمات کا فیصلہ بھی ہوسکے !آخرمیں تین نکات باخبر یاربیلی اب بھی پُرامید ہیں وہ کہتے ہیں کہ کوئی حادثہ،کوئی نااہلی کوئی فیصلہ پانسہ پلٹ سکتاہے۔اگرکلثوم نوازجیت بھی گئیں تو انہیں اسی طرح نااہلی کا سامناکرنا ہوگا جیسے ان کے میاں صاحب کوکرنا پڑاہے!

تازہ ترین