• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کے حلقہ انتخاب این اے 120 میں ہونے والے ضمنی انتخاب پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی نظریں جمی ہوئی تھیںجس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کلثوم نواز اور پی ٹی آئی کی یاسمین راشد کے درمیان مقابلہ تھا۔ الیکشن شیڈول آنے کے بعد مختلف سروے کے مطابق مسلم لیگ (ن )کو واضح برتری حاصل تھی اور عام لوگوں کا خیال بھی یہی تھا کہ مسلم لیگ (ن)واضح اکثریت سے الیکشن جیتے گی۔ بطور صحافی اور حلقہ کے رہائشی کے طور پر میرا بھی کچھ یہی اندازہ تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) واضح اکثریت سے الیکشن میں فتح حاصل کرے گی کیونکہ زمینی حقائق بھی یہی بتا رہے تھے لیکن جوں جوں وقت گزرتا رہا حالات و واقعات سے صورتحال مختلف ہوتی رہی۔ اس حلقہ سے 40 سے زائد امیدواروں کا کھڑا ہونا ایک تعجب کی بات تھی کیونکہ ضمنی انتخاب میں عام انتخابات کی نسبت کم لوگ حصہ لیتے ہیں اب جبکہ عام انتخابات میں چند ماہ ہی رہ گئے ہیں تو یہ اندازہ لگایا جارہا تھا کہ تین چار بڑی جماعتوں کے علاوہ شاید ہی کوئی اس حلقہ سے انتخاب لڑ سکے لیکن ایسا ہرگز نہ ہوا۔ مسلم لیگ( ن) جو ہمیشہ دائیں بازو کی جماعت سمجھی جاتی ہے، مذہبی ووٹ کی اکثریت بھی اسی جماعت کو ملتی ہے اور مذہبی جماعتوں کا اتحاد بھی ماضی میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ رہا ہے مگر حالیہ ضمنی انتخاب میں حلقہ این اے 120سے 2 مذہبی جماعتوں نے حصہ لیا جن میں ایک جماعت الدعوۃ کا سیاسی ونگ جو حال ہی میں تشکیل پایا جس کا نام ملی مسلم لیگ رکھا گیا، اس کے حمایتی شیخ یعقوب نے الیکشن میں حصہ لیا جبکہ دوسری مذہبی جماعت لبیک یارسول اللہ کے نام سے میدان میں آئی جس کے امیدوار کا نام شیخ محمد اظہر رضوی تھا۔دونوں مذہبی جماعتوں نے اندازے سے کہیں بڑھ کرانتہائی متاثر کن مہم چلائی۔ ملی مسلم لیگ جو ایک مذہبی فلاحی ادارہ کا بہت بڑا نیٹ ورک ملک بھر میں رکھتی ہے،نے اپنے ورکرز رضاکاروں کو لاہور کے اس حلقہ میں جمع کیا اور گروپوں کی شکل میں پورے حلقہ میں منظم مہم چلائی۔ ملی مسلم لیگ کے ورکروں نے اپنے مکاتب فکر کی مساجد اور لوگوں سے براہ راست رابطہ کیا اور اپنی انتخابی مہم کے ساتھ ساتھ یہ پیغام بھی پہنچایا کہ (ن)لیگ کی حکومت اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بھارت کے ساتھ دوستی اور محبت کی باتیں کرتے ہیں جبکہ بھارت ہمارا بدترین دشمن ہے اور مقبوضہ کشمیر میں ظلم ڈھا رہا ہے، موجودہ حکومت ان مظالم پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے،اب آپ نے فیصلہ کرنا ہے کیا آپ کشمیریوں کی جنگ آزادی کے ساتھ ہیں یا بھارت سے دوستی چاہتے ہیں جبکہ دوسری مذہبی جماعت لبیک یا رسول اللہ میں وہ مذہبی رہنما شامل ہیں جنہوں نے ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد ایک تحریک کے طور پر کام کیا۔ اس مذہبی جماعت نے اپنی مہم کے دوران ممتاز قادری کی پھانسی کا مجرم نواز شریف اور موجودہ حکومت کو ٹھہرایا۔چند ہفتوں قبل کوئی یہ تصور نہیں کررہا تھا کہ یہ دونوں مذہبی جماعتیں موثر طریقہ سے مہم چلائیں گی ان دونوں مذہبی جماعتوں نے گھر گھر جاکر اپنا پیغام پہنچانے کی بھرپور کوشش کی اور ان کا نیٹ ورک اور وسائل حیران کن اور متاثر کن تھے۔ حلقہ میں یہ تاثر عام رہا کہ غیبی قوت کے بغیر اس حد تک منظم نیٹ ورک اور مالی و دیگر وسائل ہونا مشکل ہے۔ الیکشن کے روز بھی ان دونوں مذہبی جماعتوں کی موجودگی انتہائی حیران کردینے والی تھی جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ الیکشن کے روز انتہائی منظم اور کامیابی سے کام کرتی رہی ہیں مگر ان دونوں مذہبی جماعتوں کا نیٹ ورک ، ان کے ورکرز اور ہمدردوں کی موجودگی خاص کر پولنگ اسٹیشنوں کے پاس ایک سے زیادہ کیمپ ہونا باعث حیرت تھے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے ورکرز یہ شکایت کرتے نظر آئے کہ رات کے وقت ان کو مختلف دھمکی آمیز کالز آئیں اور ان کے دفاتر پر مخصوص لوگ آئے جنہوں نے ڈرا دھمکا کر کہاکہ شک ہے آپ لوگ دھاندلی کریںگے، ہم آپ کو چیک کررہے ہیں محتاط رہیں۔ اسی طرح الیکشن سے ایک رات قبل مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین یوسی اور دیگر متحرک ورکرز کو اٹھالیا گیااور یہ خبر آگ کی طرح حلقہ میں پھیل گئی۔ اس وجہ سے بھی مسلم لیگ (ن) کے لوگ حیران و پریشان تھے۔ ایک بات جو زیادہ میڈیا میں نہ آئی کہ گزشتہ تین انتخابات سے جہاں جہاں پولنگ اسٹیشن بنائے جاتے تھے وہاں سے کئی پولنگ اسٹیشن تبدیل بھی کردئیے گئے جبکہ کچھ پولنگ اسٹیشن کئی کئی کلو میٹر فاصلے پر بنائے گئے اس کی مثال کریم پارک بلاک نمبر 3 کا پولنگ اسٹیشن سینٹرل ماڈل اسکول بنایا گیا جو کم از کم علاقے سے 5سے 6کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ ایک بات اہم تھی جو اس الیکشن میں نظر آئی وہ یہ کہ فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پولنگ اسٹیشن سے کافی دور دور تک بیریئر لگا کر سڑک کو بلاک کیا ہوا تھا اور 4،5سے زائد لوگوں کو اندر نہیں جانے دیا جاتا تھا جس سے پولنگ کا عمل سست روی شکار رہا۔ مسلم لیگ (ن) کے مقامی ورکرز اور ووٹرز اس تمام صورتحال سے پریشان دکھائی دیتے تھے اور سمجھتے تھے یہ تمام اقدامات صرف ان کے ووٹرز کو تنگ کرنے کیلئے کئے جارہے ہیں اس ضمنی الیکشن میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے وزراء اور دیگر نمایاں رہنما ووٹنگ کے روز اس تعداد میں دکھائی نہ دیئے جس تعداد میں وہ انتخابی مہم میں نظر آرہے تھے اس کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا سے لے کر ملتان تک کی قیادت بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتی پھرتی دکھائی دے رہی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھے جانے والے حلقہ میں پولنگ کے روز ایسا تاثر مل رہا تھا جیسے یہ پی ٹی آئی کا گڑھ ہے ان تمام حالات کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے 14 ہزار سے زائد ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ جو کہ میں سمجھتا ہوں متاثر کن کامیابی ہے کیونکہ جس طرح کے حالات پولنگ کے روز تھے تو یہ قیاس آرائیاں اور باتیں ہورہی تھیں کہ شاید مسلم لیگ (ن) انتہائی کم مارجن سے جیتے یا اپ سیٹ بھی ہوسکتا ہے چونکہ مسلم لیگ (ن) کے ورکرز اور رہنما یہ تاثر دے رہے تھے کہ نادیدہ قوتیں ان کو ہروانے کیلئے ہر ہتھکنڈااستعمال کررہی ہیں اسی قسم کے خیالات کا اظہار مہم چلانے والی سابق وزیراعظم کی بیٹی مریم نواز نے اپنی تقریر میں بھی کیا۔ یہ بات میرے لیے حیران کن ہے کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے میرے چند دوستوں نے الیکشن سے ایک رات قبل ہی بتایا کہ وہ جیت رہے ہیں اور اسی قسم کے پیغامات بھی انہیں ان کی پارٹی قیادت سے ملے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ صبح ووٹنگ کا عمل سست ہوگا اور (ن) لیگ کے ووٹر کم تعداد میں نکلیں گے چنانچہ آپ اپنے ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن پر لے جانا ہر صورت میں یقینی بنائیں۔انتخاب کے ابتدائی نتائج آنا شروع ہوئے تو میرے پی ٹی آئی دوستوں نے فون کرکے کہا کہ ہم نے آپ کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ جیت ہماری ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا تو نتائج مسلم لیگ( ن) کے حق میں ہوتے چلے گئے تو میرے وہ دوست اس پر حیران تھے کہ ایسا کیسے ہوگیا۔ جب مسلم لیگ (ن) کے ورکرز کو یقین ہوگیا کہ وہ جیت چکے ہیں تو وہ ورکرز دیوانہ وار سڑکوں پر اپنی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر ریلی کی شکل میں نکلے اور جشن منانا شروع کردیا۔ میں یہ بات بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ 2013ء میں نواز شریف کی کامیابی پر بھی اتنا جشن نہیں منایا گیا تھا جتنا حالیہ انتخاب کی کامیابی پر منایا گیا۔ جشن کے دوران یہ عمل انتہائی افسوسناک اور باعث تشویش ہے کہ کچھ لیگی کارکنوں نے ایسے نعرے اور الفاظ استعمال کیے جو شاید مناسب نہ تھے لیکن انہوں نے ایسا کیوں کیا یہ بھی سوچنے کی بات ہے۔

تازہ ترین