• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت دن ہوئے ایک حدیث رسولﷺ نظر سے گزری، جس کا متن تو پوری صحت کے ساتھ یاد نہیں لیکن اس کا مفہوم ذہن میں محفوظ ہے۔ غالباً حضرت ابوہریرہؓ کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔ فرماتے ہیں‘ ایک دفعہ بیت المال کیلئے بہت سا سامان آیا جس کی حفاظت حضور ﷺ نے انہیں سونپ رکھی تھی۔ ایک رات کوئی شخص اس میں سے مال چوری کرنے کیلئے آیا جسے صحابی رسول ؓ نے پکڑ لیا۔ چور نے منت زاری کی‘ معافی مانگی تو اسے چھوڑ دیا گیا۔ اگلی رات وہی شخص دوبارہ چوری کرتا ہوا پکڑا گیا، پھر جھوٹی سچی تاویل اور معافی تلافی کے بعد اسے جانے دیا۔ تیسری دن یہ بدطینت پھر آن حاضر ہوا اور پکڑا گیا۔ اب کے بار حضرت ؓ نے اسے چھوڑنے سے قطعی انکار کیا تو اس نے کہا‘ اگر آپ اس دفعہ مجھے چھوڑ دیں تو پھر میں آپ کو ایک ایسی چیز بتائوں گا جس کے اختیار کرنے سے آپ ہر نقصان سے محفوظ ہو جائیں گے۔ صحابی ؓ نے ان کی پیش کش قبول کر لی تو اس نے کہا قرآن قریم کی سب سے بڑی آیت یعنی آیت الکرسی پڑھ لیا کریں تو آپ نقصان سے محفوظ ہوجائیں گے۔ چنانچہ اسے تیسری دفعہ بھی رہا کر دیا گیا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو سارا واقعہ عرض کیا‘تو آپ ﷺ نے فرمایا‘کیا جانتے ہو وہ چور کون تھا؟عرض کیا نہیں، تو آپ نے فرمایا‘وہ شیطان تھا۔ اگرچہ وہ درو غ گو اور جھوٹا ہے لیکن تم سے اس نے سچ کہا۔
کچھ ایسا ہی حال ہمارے سیاسی ‘غیر سیاسی حکمرانوں کا ہے۔ بھلے وہ قرآن کو درمیان رکھ کر وعدہ کریں اور مکر جائیں کہ وعدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتے‘ دس سالہ تحریری معاہدے سے صحن مسجد نبوی اور در کعبہ پر بھی انکار کرتے رہیں لیکن اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ جو الزام ایک دوسرے پر دھریں وہ ضرورہی سچ ہونگے اس لئے کہ اس کے دستاویزی ثبوت اور گواہیاں پہلے سے ان کے قبضے میں ہوتی ہیں ۔
ہمارے اکثر حکمرانوں نے فریب کاری اور درو غ گوئی کو اختیار کئے رکھا، پروپیگنڈہ ماہرین کے تعاون سے قوم کی آنکھوں میں دھول اور کانوں میں اس قدر جھوٹ انڈیلا گیا کہ اب قوم کو ان کے سچ پر بھی اعتبار نہیں رہا۔ ماضی قریب کی ہر دو سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر الزام دھرے اگرچہ دونوں کے الزامات سچ تھے مگر لوگوں نے ان کے سچ پر توجہ نہیں دی ۔گزشتہ روز سابق صدر پرویز مشرف نے کہا کہ زرداری نے بے نظیر اور مرتضیٰ کو قتل کروایا۔ زرداری نے پیشہ ور قاتل اور ڈاکو کو بے نظیر کی سیکورٹی پر لگایا ہوا تھا ۔ جو قتل کے وقت بھی اس گاڑی میں موجود تھا۔11منٹ کے اس ویڈیو پیغام میں پرویز مشرف نے بھٹو خاندان کی تباہی کا ذمہ دار آصف علی زرداری کو قرار دیا کہ اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں زرداری نے بے نظیر قتل کیس کیلئے کچھ نہیں کیا ۔اس لئے کہ وہ خود اس میں ملوث تھا،جو کام خود کروایا اس کی تحقیقات کیوں کرواتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بے نظیر کے قتل میں میرا تو نقصان ہی نقصان تھا اس کا فائدہ صرف ایک آدمی کو ہوا اس کا نام ہے آصف علی زرداری،بے نظیر بھٹو کی گاڑی بلٹ پروف تھی اس کی چھت کاٹ کر عام مکینک سے کھڑکی کس نے بنوائی ۔بے نظیر دو گھنٹے جلسے میں گزار کر اپنی گاڑی میں آکر بیٹھ گئیں۔انہیں ٹیلی فون کر کے کھڑکی سے نکلنے کیلئے کس نے کہا ،وہ کون شخص تھا اس کے پیچھے جانا ضروری ہے ۔پھر محترمہ کا ٹیلی فون ہی سرے سے غائب کر دیا گیا۔ بے نظیر کی گاڑی میں مخدوم امین فہیم‘ ناہید خان‘ صفدر عباسی کے ساتھ ڈاکوئوں کے سرغنہ خالد شہنشاہ کو کس نے بٹھایا۔ اس قتل کے کچھ عرصہ بعد خالد شہنشاہ پراسرار طور پر قتل ہوگیا اور پھر اس کا قاتل بھی، گاڑی میں بیٹھے عینی شاہدین کو عدالت نے کیوں نہیں بلوایا۔ رحمٰن ملک متبادل گاڑی لے کر کیوں بھاگ گیا۔ طے شدہ روٹ کیوں تبدیل کیا گیا۔ یہ چیزیں تحقیقات کے قابل ہیں۔ اگر ان کی سنجیدگی سے تفتیش کی جائے تو قاتلوں تک پہنچا جاسکتا ہے۔ زرداری نے بے نظیر کا پوسٹ مارٹم کروانے سے کیوں منع کیا۔ یکایک ایک جعلی وصیت کیسے تیار ہوگئی دوسری طرف آصف زرداری نے کبھی کھلے صاف لفظوں میں مشرف پر الزام نہیں رکھا بلکہ ان کے عہدہ صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد باقاعدہ ’’گارڈ آف آنر‘‘ دے کر انہیں بیرون ملک جانے دیا گیا۔ پانچ سال تک بے نظیر کے قاتل تلاش کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ دوسری طرف زرداری اینڈ کمپنی نے بے نظیر کے مقدمہ قتل کے دوران کبھی دلچسپی نہیں لی۔ بیٹیاں‘ بیٹا‘ شوہر کبھی مقدمے کی کارروائی دیکھنے نہیں آئے نہ یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ ٹرائل کس اسٹیج پر چل رہا ہے۔ اب جبکہ عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تو اس پر تنقید شروع ہو گئی اور پرویز مشرف کا ذکر بھی ہونے لگا چنانچہ اس الزام کی تردید میں مشرف نے سنجیدہ الزامات کے ساتھ بڑے اہم سوالات اٹھا دئیے ان الزامات کو کھوجا جائے تو وہ شخص بھی سامنے آجائے گا جس کا نام لینے سے مشرف نے پرہیز کیا۔ اس لئے کہ وہ ہر حکومت کی مدد سے اور ان کی مدد کر کے اتنا طاقتور اور دولت مند ہوچکا ہے کہ وہ حکومتوں کے ساتھ اپنی مرضی کی ڈیل اور مرضی کا انصاف حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ وہ ایک دوسرے کے مخالف سیاستدانوں کو بیک وقت بلٹ پروف گاڑیاں‘ قیمتی تحائف اور انتخابات کے اخراجات ادا کرسکتا ہے۔ الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ صرف زرداری اور مشرف تک محدود نہیں۔ اس سے پہلے یہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے درمیان بھی چلتا رہا۔ دونوں نے ایک دوسرے پر رشوت اور بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد کئے۔ دونوں کی حکومتیں صدر غلام اسحاق نے بعد میں فاروق لغاری اور آرمی چیف پرویز مشرف نے انہی وجوہات کی بنا پر برطرف کیں۔ عدالتوں نے ان الزامات کو تسلیم کیا لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے بدعنوانی کے ان واقعات پر کوئی کارروائی نہیں کی اس لئے کہ وہ بھی ایسے ہی جرائم میں ملوث تھے۔ بے نظیر اور زرداری کے خلاف سیف الرحمٰن کے بنائے ہوئے مقدمات اور لگائے گئے الزامات فرضی یا جعلی نہیں تھے۔ ان پر ہر الزام سچ اور اس کے ٹھوس ثبوت موجود تھے۔ ملزمان ان مقدمات کا سامنا کرنے کی بجائے کبھی نصرت بھٹو کی بیماری اور بعد میں بے نظیر کی قبر کا ٹرائل جیسے جذباتی سہارے سے معاملات کو ٹالتے رہے۔ دوسری طرف بھی ان کو سزا دلانا مقصود نہیں تھا بلکہ تنبیہ کر کے چھوڑنا‘ احسان جتانا اور اپنی باری پر ان کی طرف سے اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالے رکھنے کی یقین دہانی حاصل کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ الزامات کی انکوائری رپورٹ اور دستاویزی شہادتیں کبھی پیپلزپارٹی کے وزیراعظم نے اپنے سیف میں محفوظ رکھیں اور اب نوازشریف کی ذاتی الماریوں میں بند ہیں۔ دونوں جماعتوں کے ہاتھ کرپشن میں رنگے ہیں۔ انڈسٹریل فنانس کارپوریشن کے چوہدری مجید تو راقم کے سامنے گڑگڑا کہ صدر پاکستان غلام اسحاق سے ملاقات کیلئے کہتے رہے۔ اپنے لٹتے رہنے کی دلگداز داستانیں سنائیں ان داستانوں کے ہیرو انگلی اٹھا کر کہتے ہیں کہ ایک پائی کی رشوت ثابت ہو تو قبر سے میری لاش نکلوا کر لٹکا دی جائے۔ ’’اپنے بارے میں تاویلیں سب جھوٹی، دوسروں پر الزامات میں سارے سچے‘‘۔

تازہ ترین