• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست میں غیر سیاسی لوگوں کا اثر و رسوخ ہمیشہ سے ہے یہ غیر سیاسی لوگ سیاست میں اہم کردار ادا کرتے چلے آرہے ہیں، حکومتیں بنانے اور گرانے میں ان لوگوں کا ہمیشہ سے عمل دخل رہا ہے۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں اسلامی جمہوری اتحاد(آئی جی آئی) کے قیام سے لے کر سابق وزیراعظم نواز شریف کو وزیراعظم بنانے تک ان غیر سیاسی قوتوں کااہم کردار رہا ہے، 93ء میں نوازشریف کی حکومت بھی انہی کے اشاروں پر گرائی گئی۔99ء میں جب دوسری مرتبہ نواز شریف کی حکومت ختم کی گئی اور ملک میں مارشل لاء کا نفاذ ہوا تو اس وقت کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو سیاسی لباس پہنانے کیلئے ایک پارٹی معرض وجود میں آئی جس کا نام تو مسلم لیگ (ق) تھا لیکن زبان زد عام میں اس کو کنگز پارٹی کہا جاتا ہے۔ جنرل (ر)پرویزمشرف کی بنائی ہوئی یہ پارٹی تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا مجموعہ تھی جس میں اکثریت مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سے آنے والوں کی تھی جن کو چھڑی کے اشارے پر اس کنگز پارٹی میں شامل کیا گیا۔ یہ غیر سیاسی لوگوں کی سیاسی جماعت زیادہ تر ان سیاستدانوں پر مشتمل تھی جن کے نیب میں کیسز تھے یا پھر ان کے کیس بنائے گئے۔ جنرل (ر)پرویزمشرف نے اس سیاسی جماعت کے بل بوتے پر 2008ء تک حکومت کی مگر جیسے ہی سابق آمر کے ہاتھ سے چھڑی گئی تو یہ سیاسی جماعت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہوگئی۔ 2008 ء کے انتخابات میں اس جماعت کی اکثریت اپنی اپنی جماعتوں میں واپس شامل ہوگئی چونکہ اکثریت مسلم لیگ (ن) کی تھی لہٰذا زیادہ تر سیاستدان مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے۔ جس کے ساتھ ہی اس کنگز پارٹی یعنی کہ مسلم لیگ (ق) کا شیرازہ بکھر گیا۔ اب جبکہ 2017ء ہے قومی اسمبلی میں اس جماعت کے صرف 2 ممبر رہ گئے ہیں۔ نوازشریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے چند روز قبل کنگز پارٹی کی بازگشت سنائی دینا شروع ہوگئی تھی اور شہر اقتدارسمیت لاہور میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اس کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ سیاستدان اور تجزیہ نگار یہ بات کہہ رہے ہیں کہ کچھ غیر سیاسی لوگ ایک سیاسی جماعت ’’کنگز پارٹی‘‘ بنانے جارہے ہیں اور اس سلسلے میں کام شروع ہوچکا ہے پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی اپنے حالیہ بیانات میں اس کا اشارہ دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ آئندہ انتخابات میں پنجاب سے بڑی اکثریت میں آزاد امیدواروں کی کامیابی کو دیکھ رہا ہوں جبکہ بعض اہم سیاسی رہنما اور مبصرین کا کہنا ہے کہ غیر سیاسی لوگ نئی سیاسی جماعت بنانے کیلئے پھر مسلم لیگ کا ہی نام استعمال کرنے جارہے ہیں اور اس کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ سندھ میں اس حوالے سے مسلم لیگ کے سینئر رہنما غوث علی شاہ، فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگاڑا، پاک سرزمین پارٹی اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں کے درمیان کراچی میں مشاورت کے کئی دور ہوچکے ہیں جس میں اب سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب رحیم بھی شامل ہیں، کنگز پارٹی کے سندھ میں قیام کا مقصد پیپلز پارٹی کو بھی ٹف ٹائم دینا ہے۔یاد رہے کہ ارباب رحیم، جنرل(ر)پرویز مشرف کے دور میں وزیراعلیٰ سندھ رہ چکے ہیں، 2013ء میں ارباب رحیم نے مسلم لیگ( ن) میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ غوث علی شاہ اس سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ (ق) اور دیگرلیگی دھڑوں اور سیاستدانوں سے رابطے کررہے ہیں، مسلم لیگ ضیا کے سربراہ اعجاز الحق سے بھی معاملات طے کیے جارہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اس نئی مسلم لیگ یعنی کنگز پارٹی کا اصل ہدف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مضبوط سیاستدان اور اپنے حلقہ میں کامیابی حاصل کرنے والے امیدوار ہیں۔کنگز پارٹی بنانے والے لوگوں کا خیال تھا کہ نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد ہمیں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی اور حسب روایت مسلم لیگ (ن) پنجاب سے تعلق رکھنے والے بیشتر سیاستدان اور حلقہ کے مضبوط امیدوار ہم سے رابطہ کرلیں گے لیکن ابھی تک ان کو وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی جس کی ان کو امید تھی یہ عمل ان کیلئے باعث تشویش اور حیران کن بھی ہے۔،ایسا کیوں ہورہا ہے؟ مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنمائوں جن سے میں نے اس حوالے سے تبادلہ خیال کیا ان میں سے اکثریت کا یہ کہنا تھا کہ ہم بھی حیران ہیں اور خلاف توقع مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی نااہلی کے بعد اتنی مضبوط جماعت بن گئی ہے جو شاید نواز شریف کے وزارت عظمیٰ کے دور میں نہ تھی اور جن سیاستدانوں اور ارکان پارلیمنٹ کے حوالے سے ہمیں شک تھا کہ شاید وہ برے وقت میں نواز شریف کا ساتھ چھوڑ جائیں گے وہ اس کے برعکس پارٹی میں زیادہ متحرک نظر آرہے ہیں۔ میرے سوال پر کہ یہ بھی بات عام ہے کہ آپ کی پارٹی کے کافی سارے ارکان اسمبلی کا رابطہ کنگز پارٹی سے ہے اور شاید وہ 2018ء کے انتخابات سے قبل پارٹی چھوڑ جائیں گے،جواب دیتے ہوئے انتہائی سینئر رہنما نے کہا کہ ہمارے ارکان اسمبلی کو ڈرانے دھمکانے کی کوششیں تو بہت ہورہی ہیں لیکن میرے سیاسی تجربے اور بصیرت کے مطابق ان قوتوں کو مایوسی کا ہی سامنا کرنا پڑے گا اور شاید ہی ہماری جماعت کاکوئی رکن پارلیمنٹ یا اہم سیاسی رہنما اس کنگز پارٹی میں شامل ہو۔بہرحال اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا کہ لیگی رہنما حسب روایت غیر سیاسی لوگوں کی بات مانتے ہیں یا اپنی پارٹی کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
بظاہر پاکستان تحریک انصاف، حکمران جماعت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور دیگر قائدین کو قوی یقین ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کامیابی حاصل کرکے مرکز میں حکومت بنائے گی ۔ کنگز پارٹی بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں مگر بظاہر مقصد یہ نظرآرہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ان کے ہوم گرائونڈ یعنی کہ پنجاب میں شکست دی جاسکے اور شاید ان کو یقین نہیںکہ پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں وہ مطلوبہ کامیابی حاصل کرسکے گی جو ان سے توقع کی جارہی ہے۔کنگز پارٹی بنانے والی قوتیں شاید یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب میں بھی حکومت نہ بناسکے اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان تحریک انصاف بھی اتنی مضبوط جماعت بن کر نہ ابھرے کہ اس سے ڈیل کرنا مشکل ہوجائے۔ لہٰذا ایک ایسی جماعت بنائی جائے جس کا آئندہ آنے والے انتخابات اور حکومت سازی میں اہم کردار ہو۔ اس نئی کنگز پارٹی کا لاہور میں ایک اہم اجلاس ہونا تھا جو کہ شاید کچھ وجوہات کے باعث نہ ہوسکا ۔گجرات کے چوہدری برادران اس نئی کنگز پارٹی کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں جن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ان سے بہتر جوڑ توڑ کی سیاست پاکستان میں کوئی نہیں کرسکتا کیونکہ چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی ، برادری اور دھڑوں کی بنیاد پر پنجاب بھر کی بااثر سیاسی شخصیات سے ہمیشہ رابطے میں رہتے ہیں لیکن ابھی تک نہ وہ اس نئی پیش کش کو سنجیدہ لے رہے ہیں اور نہ اس میں کوئی متحرک رول اداکرتے نظرآرہے ہیں۔اس ساری صورت حال کے پیش نظر کنگزپارٹی کا مستقبل واضح نہیں ہے کیونکہ نہ تو مارشل لاکا دور ہے اور نہ ہی90 کی دہائی والے حالات۔

تازہ ترین