• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ایک کریلا کڑوا،دوسرا نیم چڑھا‘‘ یوں تو بش سینئر سے اوباما تک سارے ہی امریکی صدر ہمارے لئے کڑوے ہی تھے مگر ٹرمپ ’’کچھ اور ہی چیز ہیں ‘‘ کئی دہائیوں کی دوستی کے بعد امریکہ نے یک طرفہ پاکستان کے ساتھ ’’کٹی‘‘ کر رکھی ہے ۔ ’’کٹی‘‘ کی حد تک ہمیں بھی زیادہ اعتراض نہ ہوا اور ہم بھی منہ موڑ کر دوسری سمت ہولئے بلکہ امریکہ کی کٹی سے پاکستان کو کافی فوائد حاصل ہوئے کہ کم از کم دفاعی شعبے میں قوم نے بڑی حد تک خود کفالت حاصل کر لی۔ 65کی جنگ میں گولہ بارود پر پابندی کی وجہ سے چین اور یورپ کے بعض دوست ملکوں کے تعاون سے خود کفیل ہوئے، بعد میں جب ٹینک اور F-16دینے سے انکار کیا گیا تو وزارت دفاعی پیداوار نے الخالد اور حیدر ٹینکوں کی بنیاد رکھی اور آج پاکستان بہترین ٹینک بنا رہا ہے اور ایئرفورس کے انجینئر نے چین کے تعاون سے لڑاکا طیارے بنا کر کافی حد تک فضائی جنگ میں خود کفالت حاصل کرنے کی راہ اپنالی۔ پاکستان اور امریکہ اور اس کے حریف یورپ کی طرف دیکھنے کی بجائے چین سے جنگی بحری جہاز اور آٹھ عدد آبدوزیں خرید رہا ہے۔ پاکستان مشرق وسطیٰ اور انڈیا کی طرح زیادہ خرچیلا خریدار نہیں ہے کہ اپنے محدود وسائل میں اسے جنگی سامان بنانا اور خریدنا پڑتا ہے لیکن ہماری افواج کی دنیا بھر میں ایسی شہرت ہے کہ جو جنگی سامان پاکستان خریدے گا وہ ضرور ہی دستیاب ہتھیاروں میں بہترین ہوگا اور سستا بھی، اس لئے پاکستان کو اسلحہ بیچنے والے ممالک کو ہماری وجہ سے اضافی خریدار آسانی سے مل جاتے ہیں۔ اب پاکستان کے لئے چین کے بعد روسی اسلحہ کی مارکیٹ کے دروازے بھی کھل رہے ہیں۔ ’’ہم ہوئے کافر تو کافر مسلماں ہو گیا‘‘ کے مصداق پاکستان نے امریکہ کی چال بازیوں اور کہہ مکرنیوں سے تنگ آکر اپنی راہ بدلی تو ہندوستان اس راہ پر ہو لیا۔ ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ دو چال باز، ٹھگ باہم مل بیٹھے ہیں۔ اب انتظار ہے کہ کون دوسرے کے ساتھ پہلے ٹھگی کرتا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بجا فرمایا کہ امریکہ پر ہمارا انحصار ختم ہو چکا ہے۔ فوج میں امریکی ہتھیاروں کی بجائے ہم دیگر ذرائع اختیار کررہے ہیں۔ پہلی بار روسی جنگی ہیلی کاپٹر شامل کئے گئے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ افغان معاملات میں انڈیا کو شامل کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ 11ستمبر کے بعد امریکہ کا ساتھ دینے میں انہیں ایک سو بیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ دس ہزار فوجی اور نوے ہزار سے زیادہ شہریوں کی شہادت اس کے علاوہ ہے۔ امریکی راتب پر پلنے والی بعض این جی اوز اور نام نہاد ترقی پسند جو بھاشن دیتے ہیں کہ پاکستان امریکی امداد کے بغیر کیونکر زندہ رہے گا۔ انہیں چیلنج ہے کہ پورا حساب کتاب جوڑ کر وہ یہ بتادیں کہ قیام پاکستان سے آج تک 70برسوں میں امریکہ نے پاکستان کو جو دفاعی یا اقتصادی مدد دی وہ گزشتہ سولہ سال میں ہونے والے پاکستان کے نقصانات کا نصف بھی نہیں تھی۔ حتیٰ کہ اگر ان کی طرف سے ملنے اور دلائے جانے والے قرض بھی شامل کر لئے جائیں تو بھی وہ ایک سو بیس ارب ڈالر نہیں ہوں گے اور انسانی جانوں کی کوئی قیمت تو ہے ہی نہیں۔ امریکہ کے بچھائے کانٹوں کو چننے اور سازشی جال کو توڑنے میں نہیں معلوم ابھی کتنا نقصان اور کتنے ماہ و سال درکار ہوں گے ابھی اور کتنا مالی نقصان اور معصوم شہریوں کی لاشیں اٹھانی پڑیں گی۔ ’’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘‘ پطرس بخاری لکھتے ہیں۔ سنا ہے کہ بھونکنے والے کتے کاٹتے نہیں لیکن میں بھونکنے والوں سے بھی بہت ڈرتا ہوں کہ نہیں معلوم وہ کب بھونکنا بند اور کاٹنا شروع کر دیں۔ کاٹنے والے کتوں کی ایک دوسری قسم بھی ہے جسے بڑے شہر کے لوگوں نے تو کم ہی دیکھا ہوگا لیکن ہم دیہاتی اس سے خوب واقف ہیں اور وہ ہے ’’پاگل کتا‘‘ جو اکثر سانپ کو کھا جانے کی وجہ سے اس کے زہر کے زیر اثر مجنون ہوجاتا ہے۔ پاگل کتا کثرت شراب سے مدھوش شرابی کی طرح اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ لڑکھڑاتے ہوئے بھاگتا چلا جاتا ہے اور سامنے آنے والی ہر چیز جاندار ہو یا بے جان اس کو کاٹننے کی کوشش کرتا ہے۔ جس جاندار کو وہ کاٹ لے وہ انسان ہو یا حیوان، چھوٹا ہو یا بڑا جلد ہی اس کے اندر بھی جنون اور پاگل پن کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ اس کا بروقت علاج نہ کروایا جائے تو پاگل پن کے ساتھ وہ اپنے علاوہ دوسروں کی جان کیلئے بھی خطرہ بن جاتا ہے اس لئے کہ وہ بھی جنون میں ہر ایک کو کاٹنے لگتا ہے۔ امریکی شہریوں کی بھاری اکثریت اپنے حالیہ صدر کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتی۔
صرف عام شہری ہی نہیں اچھے خاصے پڑھے لکھے تجزیہ کار اور حالات پر گہری نظر رکھنے والے امریکی صدر کے جنون سے پریشان نظر آتے ہیں۔ سابق امریکہ خاتون اول اور صدر اوباما کابینہ کی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کہتی ہیں، ٹرمپ امریکی تاریخ کا سب سے خطرناک صدر ہے۔ وہ دوسروں کو اشتعال دلاتے اور خود بھی اپنے کنٹرول میں نہیں رہتے۔ امریکی سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ کے چیئرمین بوب کروکر نے خبردار کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کا کئی ملکوں کے خلاف دھمکی آمیز رویہ امریکہ کو تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔ امریکی صدر نے شمالی کوریا کو فضائی حملوں اور ایٹمی جنگ کی دھمکی دی، ایران کے ساتھ کئے گئے ایٹمی معاہدوں سے نکلنے کا عندیہ دے کر سارے فریقوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا جن میں اکثریت خود امریکی اتحادیوں کی ہے۔ اپنے نیٹو اتحادی ترکی کے ویزے معطل کر دئیے جواباً ترکی نے بھی امریکہ کے لئے ویزہ سروس معطل کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کیلئے وعدوں کے مطابق اخراجات ادا کرنے سے انکار، امریکہ کے اندر بھی کتنے ہی انسانی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو ختم کرکے اسلحہ سازی میں تیزی اور وسعت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کے لئے ان کی مہربانیاں سب سے جدا ہیں۔ یکایک سی پیک بھی ان کی آنکھوں میں چھبنے اور دل میں کھٹکنے لگا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ اور وزیردفاع رواں مہینے میں پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں مگر ان کے دورے کی خبر ان لفظوں میں چھپی ہے کہ، امریکی وزیرخارجہ اور دفاع پاکستان کو ٹرمپ کا سخت پیغام پہنچائیں گے۔ اس کے جواب میں وزیراعظم نے امریکہ پر انحصار ختم کرنے کا ذکر کیا اور اسی پس منظر میں پاکستان کی فوج کے سپہ سالار نے صاف لفظوں میں خبردار کیا ہے کہ دشمن چھوٹا ہو یا بڑا اس کی دشمنی کا بھرپور اور سخت جواب دیا جائے گا۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان کی کسی بھی سطح پر کوئی لڑائی ہے نہ مخالفت حتیٰ کہ ہمارے مابین کسی میدان میں مسابقت تک کا شائبہ نہیں۔ ہم امریکہ کے ساتھ اپنی دوستی قائم رکھنا چاہتے ہیں لیکن امریکہ دامن جھٹک کر جاچکا تو جائے۔ اب اس کو پاکستان کے مقابلے میں اس کے دشمنوں کی دوستی اور رضامندی مرغوب ہے۔ ہمیں اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ دوستی دو طرفہ ہوتی ہے اور تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی مگر آج امریکہ کے ہاتھ میں ہمارے دشمن کا ایجنڈا ہے۔ ایک عرصے تک دوستی کے دھوکے میں ہم امریکی مفادات پورے کرنے کا ذریعہ بنے رہے اس کو اتنا فائدہ پہنچایا کہ دنیا میں اس کا واحد اور مقابلے کا دشمن ہمارے تعاون سے نابود ہوا اور امریکہ واحد اور اکلوتی عالمی قوت قرار پایا جس کے اظہار اور فخر کے لئے اس نے افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ یہاں بھی تعاون کے نتیجہ میں جو نقصانات ہوئے اس کا اوپر ذکر ہو چکا۔ اب امریکہ ساری حدوں کو پار کرکے ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں کھیل رہا ہے۔ امریکی عزائم ہمارے مفادات سے بڑھ کر قومی سلامتی پر حملہ آور ہیں۔ جو خطرات کبھی روس کے افغانستان میں آجانے سے ہمیں لاحق ہوئے تھے اب امریکہ کے افغانستان میں بیٹھ رہنے اور انڈیا کو وہاں بلا لینے، اسرائیل کا تعاون حاصل کرنے اور مشرق وسطیٰ سے داعش کو افغانستان میں ہانک لانے اور انڈیا کے ذریعے ان عالمی دہشت گردوں کو تربیت دے کر اس خطے خصوصاً پاکستان کو غیرمستحکم کرنے میں سرگرم ہے۔ حتیٰ کہ سابق امریکہ کے کٹھ پتلی حامد کرزئی بھی امریکہ کی اس مجرمانہ سر گرمی پر باآواز بلند چیخ اٹھے ہیں تو پاکستان کے لئے لازم ہے وہ اپنی حفاظت کیلئے اسی طرح منصوبہ بندی کرے اور قدم اٹھائے جس طرح روس سے اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے اٹھائے گئے تھے۔

تازہ ترین