• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اغوا کاروں نے انہیں اور ان کے بچوں کو کار کی پچھلی سیٹ پر باندھ رکھا تھا، جب انہوں نے افغانستان کے پتھریلے علاقوں سے گزر کر پاکستان کی شمال مغربی سرحد عبور کی۔ مغوی افراد ایک امریکی خاتون اس کے کینیڈین شوہر اور تین بچے تھے جو گزشتہ پانچ برس سے طالبان کی قید میں تھے۔ پاکستان میں داخل ہوتے ہی ان کی طویل اذیت کے خاتمے کی گھڑی آگئی، اچانک فائرنگ شروع ہوگئی، ایک اغوا کار نے چیخ کر کہا’’مغویوں کو ہلاک کردو‘‘ لیکن یکایک وہ پاکستانی فورسز کے گھیرے میں تھے۔ اس کے بعد دو طرفہ فائرنگ جلدی ختم ہوگئی، فوجی جوانوں نے اغوا کئے گئے خاندان کو گاڑی سے باہر نکالا اور ہیلی کاپٹر میں اسلام آباد پہنچا دیا۔ پاکستانی فورسز نے امریکی خفیہ ادارے کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر انتہائی چابکدستی سے کارروائی کرتے ہوئے خطرناک آپریشن کو کامیابی سے سرانجام دے کر دنیا کو حیران کردیا،(نیویارک ٹائمز سے اقتباس) 2011میں امریکی شہری جوشواجوئل کی شادی 31سالہ کینیڈین خاتون کیلٹن کولمن کے ساتھ انجام پائی، نیا شادی شدہ جوڑا ہنی مون منانے کے لئے کئی ملکوں کی سیاحت کو روانہ ہوا۔ وسطی امریکہ میں چند ماہ گزارنے کے بعد یہ جوڑا روس کی سیر پر نکلا وہاں سے نو آزاد سنٹرل ایشیا کی مسلمان ریاستوں میں گھومتا ہوا افغانستان پہنچا۔ دارالحکومت کابل کے ملحقہ صوبے وردک سے اکتوبر 2012میں طالبان کے گروپ حقانی نیٹ ورک کے لوگوں نے انہیں اغوا کرلیا۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے جوڑے کی کہانی بظاہر اتنی ہی ہے لیکن اس کہانی نے بڑے پیچیدہ سوالات کھڑے کردئیے ہیں۔ اس کہانی نے افغانستان کی آزادی کے لئے لڑنے والے طالبان اور انسانی حقوق کے محافظ مہذب حکومتوں کے رویے اور کردار کو بھی کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ جب یہ جوڑا اغوا کیا گیا تو یہ خاندان دو افراد پر مشتمل تھا، پانچ سال بعد بازیابی کے وقت ان کی تعداد پانچ ہوچکی تھی۔’’دہشت گردوں‘‘ کی قید میں اس جوڑے نے تین بچوں کو جنم دیا، رہائی پانے والے میاں بیوی اور ان کے بچے صاف ستھرے، صحتمند اور سرخ و سفید تھے۔ ان کے چہروں پر کمزوری یا پژمردگی نظر نہیں آتی تھی نہ ہی زیادہ ذہنی دبائو کا شکار نظر آئے۔ کوئی عبقری جواباً یہ کہہ سکتا ہے کہ پانچ سالہ قید میں حالات سے سمجھوتہ کرکے مشکل میں جینے کا گر سیکھ لیا، مگر گوانتاناموبے ،بگرام اور امریکی قید میں رہنے والی عافیہ صدیقی، افغانستان کے سابق سفیر ملا ضعیف اور چند ہزار دیگر قیدیوں پر کیا بیتی کہ وہ ایسا نہ کرسکے۔ نیم خواندہ یا ناخواندہ طالبان جو بروقت موت کے خطرے سے دوچار اور حالت جنگ میں ہیں انہوں نے اپنے قیدیوں کا مہمانوں کی طرح اکرام کیا، انہیں ایسے حالات اور تنہائی فراہم کی کہ زوجین میاں کے فرائض اور وظائف ادا کرتے رہے جو ہمہ وقت دہشت اور نگرانی میں ہونے کی صورت وہ ادا نہیں کرسکتے تھے۔ کسی پیچیدگی کے بغیر ان کے بچے پیدا ہوئے اور وہ صحتمند بھی رہے۔ اس کے برعکس امریکی حکومت جو پوری دنیا میں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے اس نے اپنی عدالتوں کے دائرہ اختیار سے بچنے کے لئے امریکی آئینی حدود اور قانون کی عملداری سے باہر گوانتا ناموبے اور افغانستان میں بگرام میں قید خانے بنارکھے ہیں، جہاں پر صرف ان مسلمانوں کو اغوا کرکے لایا جاتا ہے جو ان کی نظر میں مشکوک ٹھہریں، جن کی کوئی داد نہ فریاد، ان قیدیوں کو چھوٹے چھوٹے پنجروں میں قید کردیا جاتا ہے کہ وہ کھڑے ہوں نہ لیٹ سکیں، تشدد کیا جاتا، ناخن نوچ لئے جاتے، ان پر کتے چھوڑے گئے، ان کے زخموں پر تیزاب ڈالا گیا، دہکتی سیخوں سے داغا گیا، سونے کی اجازت نہ تھی، جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ یہ مظالم کتنے غیر مہذب اور ظالمانہ ہوں گے کہ انہیں ان عدالتوں کی نظر سے ہی چھپایا جاتا ہے جو شاید جرائم پیشہ امریکی اہلکاروں سے بھی زیادہ سنگ دل اور بے رحم ہیں۔ ان کی ناانصافی کا اندازہ عافیہ صدیقی کی عدالتی کارروائی اور سیاہ فام مقتول امریکیوں کو فراہم کئے جانے والے انصاف سے بخوبی لگایا جاسکتا۔ مہذب امریکیوں کے کردار اور نامہذب خونی دہشت گردوں کے رویے کو جانچنے کا ایک اور زاویہ نظر بھی ہے، امریکہ کی قید میں عافیہ صدیقی، طالبان کے سابق سفیر ملا ضعیف ا ور ہزاروں مسلمان قیدیوں کی حالت کا موازنہ ، رہائی پانے یا بازیاب کروائے جانے والے مذکورہ بالا جوڑے اور طالبان کی قید میں رہنے والی برطانوی صحافی ’’رڈلی‘‘ اور اس کی ساتھی کی حالت سے لگایا جاسکتا ہے۔ طالبان کی قیدی سفید فام رڈلی رہائی پانے کے بعد مسلمان ہوگئی اور اس کی ساتھی بھی طالبان کے رویے کی تعریف کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ہمارے نگران ٹوٹے ہوئے جوتے اور پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس ہوتے ،ہمیں بہن کہہ کر مخاطب کرتے، اپنی نظروں کو ہمارے چہروں تک کبھی نہ اٹھاتے، اپنا بہترین کھانا ہمیں دے دیتے اور خود سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھاتے، جب امریکی طیاروں کی بمباری کی وجہ سے وہ ہماری جانوں کی حفاظت کرنے کے قابل نہ رہے تو ہمیں رہا کرکے محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا۔ برطانوی قیدیوں کو قتل کیا نہ انہیں اپنی حفاظت کے لئے چارا بنایا گیا۔ اسی حسن سلوک سے متاثر ہو کر’’رڈلی‘‘ نے اسلام قبول کرلیا اور آج تک امریکی قیدیوں کی حالت زار سے دنیا کو آگاہ کرنے کے مشن پر لگی ہیں۔ ایک طرف طالبان کی قید میں رہنے والی قیدی ان کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر مسلمان ہوگئی تو دوسری طرف گوانتا ناموبے میں قیدیوں کو جس تشدد، ظلم اور بربریت سے گزارا گیا تشدد اور بے رحمی کے علاوہ ان کی عزت اور عزت نفس کی حددرجہ توہین کی گئی ۔ قرآن کریم کے مقدس اوراق اور قیدیوں کے چہرے ان کی گندگی میں لتھڑ دئیے گئے، جنسی تشدد ہوا ، ان قیدیوں کے صبر، ثبات، حوصلے اور بدترین حالات میں اذان و عبادت کا شغف دیکھ کر امریکی فوج کے کمانڈر سمیت ایک درجن سے زیادہ فوجی اہلکاروں نے اسلام قبول کیا۔
اغوا شدہ جوڑے کی بازیابی نے کئی ایک چیزیں واضح کردی ہیں کہ افغانستان کے دارالحکومت کے ملحقہ علاقے سے اغوا ہونے والے لوگوں کو پانچ سال تک افغانستان میں رکھا گیا۔ اغوا کار حقانی گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔ پانچ سال تک قیدی امریکہ کے مفتوحہ افغانستان میں قید رکھے گئے مگر افغان حکومت اور فاتح امریکہ معلومات ہونے کے باوجود انہیں بازیاب نہیں کرواسکے۔ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ حقانی نیٹ ورک کے لئے افغانستان میں زیادہ محفوظ پناگاہیں اور علاقے موجود ہیں جہاں افغان حکومت کی عملداری ہے نہ امریکہ کی رسائی، پاکستان پر الزام تراشی اور دبائو کے لئے حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں پناہ گاہوں کا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ اس واقعہ سے امریکہ کے خفیہ اداروں کی بہترین صلاحیت کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ انہوں نے اغوا کنندگان کا سراغ لگایا اور انہیں مسلسل نگرانی میں رکھا اور برسوں موقع کی تلاش میں رہے۔پاکستان کی ا سٹرائک فورس کی پیشہ ورانہ چابکدستی اور صلاحیت کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے معلومات ملنے کے صرف تین گھنٹے کے اندر کارروائی کرکے نہ صرف اس جوڑے کو رہائی دلائی بلکہ ان کی سلامتی کو بھی یقینی بنایا۔ اندھیرا پھیل جانے کے باوجود فورسز نے کوئی غلطی نہیں کی۔
امریکی حکومت، ان کے نظام عدل، سیکورٹی ایجنسیوں اور انسان دوستی کے دعوئوں کے لئے یہ عبرتناک مگر سبق آموز واقعہ ہے کہ مغوی کینیڈین شوہر، مغویہ امریکی بیوی اور ان کے تین بچے ان سب نے امریکہ کی طرف سے بھیجے جانے والےC130اسپیشل طیارے میں سوار ہونے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ وہاں جانے سے ہی منکر ہوگئے ۔ اب یہ جوڑا اور ان کے بچے عام مسافر جہاز سے برطانیہ اور وہاں سے کینیڈا جانے کے لئے رخصت ہوچکے ہیں۔ امریکی اداروں کی تفتیش، کھردرے رویے، کڑی نگرانی، غیر ضروری سوالات سے بچنے کے لئے ہی انہوں نے امریکہ جانے حتیٰ کہ خصوصی طیارے میں سوار ہونے سے بھی انکار کیا۔ امریکیوں کے لئے یہ بڑا تمغہ ہے اگر وہ سینے پر سجا سکیں۔

تازہ ترین