• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخ رشید کی پیش گوئیاں ’’باہوبلی۔ٹو‘‘ کی طرح الیکٹرانک میڈیا میں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دوسال قبل جب سیاسی افق پر پانامہ کا نام ونشان بھی نہیں تھا شیخ رشید کہا کرتے تھے کہ وہ آنے والے وقت میں پاکستان کی سیاست میں شریف خاندان کا وجود نہیں دیکھتے ۔سیاست کی گلی میں بہت سارے معززین کی انٹری کے متعلق موصوف بتاتے ہیں کہ گیٹ نمبر 4سے ہوئی تھی ۔وہ کہاکرتے ہیں کہ میاں برادران سمیت متعدد سیاستدان عسکری گملوں میں اگے ہیں اورآج جمہوریت کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں۔شیخ صاحب کی مرزا غالب سے کوئی نسبت نہیں ہے لیکن ان کے خیالات زریں میں شریف خاندان کے سیاسی مستقبل سے متعلق اشارے کہاں سے ملے ہوںگے یہ کوئی پہیلی نہیں ۔۔۔آتے ہیں ’’غیب ‘‘سے یہ مضامین خیال میں
شیخ صاحب کی حیثیت پاکستانی سیاست میں 80سالہ سنیاسی باوا سے کم نہیں۔ فرماتے ہیں کہ 30دسمبر تک’’ آرپار‘‘ہوجائے گایعنی نون لیگ کی حکومت ختم ہوجائے گی۔موسم کے تیور دیکھیں تو لگتاہے کہ دسمبر تک واقعی رضائیاں نکل آئیں گی۔شیخ صاحب کے محکمہ موسمیات کی پیشین گوئیوں کے مطابق گرج چمک کے ساتھ ژالہ باری ہوتی ہے یانہیں اس کے بارے کچھ وثوق سے نہیں کہاجاسکتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ میاں نوازشریف وزارت عظمیٰ سے نااہل شیخ رشید کی رٹ پٹیشن کے نتیجے میں ہوئے ہیں۔اب وہ ببانگ دہل یہ کہہ رہے ہیںکہ دسمبر تک کھیل ختم ہوجائے گا توسوچنا پڑتاہے کہ واقعی شریف خاندان کے مقدر کا تارا سیاست کے گردوں سے ٹوٹ کربکھر تو نہیں جائے گا؟ تاہم حلقہ 120سے نون لیگ اور شریفوں کو نصیب ہونے والی کامیابی سے متعلق تو کہاجاسکتاہے کہ
ترے مقام کو انجم شناس کیاجانے
کہ خاک ِ زندہ ہے تو،تابع ستارہ نہیں
حلقہ 120میں کلثوم نواز کی کامیابی کو مریم نوازکی سیاسی لانچنگ بھی قراردیا جارہاہے۔مذکورہ انتخابی معرکہ کی وجہ سے ہی پہلی بار شریف فیملی میں پائی جانے والی سیاسی کشمکش کا ڈھنڈورا پیٹا گیا وگرنہ اس سے قبل نوازشریف اور شہبازشریف کے مابین محبت اور سیاست بھارتی فلم ’’بھائی بھائی ‘‘ کا پوسٹر دکھائی دیتی ہے ۔یہ وہ معرکہ ہے جس میں پہلی بار خادم اعلیٰ اور ان کے فرزند حمزہ شہباز دونوں دور رہے حالانکہ نون لیگ کی سیاسی سلامتی کے لئے یہ ضمنی انتخاب انتہائی اہم تھا۔شریف خاندان اور نون لیگ نے اتنا بڑا رسک کیوں لیا؟یہ ایسے ہی ہے جیسے پاکستان کی ٹیم بابراعظم ،حسن علی اور محمد عامر کے بغیر بھارتی کرکٹ ٹیم کے خلاف میدان میں اتر جائے۔ جیسے بھارتی کرکٹ ٹیم روہت شرما،شیکھر دھون اور ویرات کوہلی کوشامل کئے بغیر میچ میں جائے۔ نون لیگ کی’’ فلم‘‘ میں خادم اعلیٰ اور حمزہ کی حیثیت وہی ہے جو ’’شکتی ‘‘ میں امیتابھ بچن اور انیل کپور کی تھی جبکہ’’گاڈ فادر‘‘ میں ایل پاچینواور جمیز کان کی تھی ۔ دونوں فلموںکے مرکزی کردار دلیپ کمار اور مارلن برانڈو نے نبھائے تھے اگرچہ خادم اعلیٰ اور حمزہ بھی اسٹار کاسٹ میں شامل ہیں ۔ تاہم یہ بھی ملحوظ خاطر رکھاجانا چاہئے کہ میاں نوازشریف نون لیگ کے دلیپ کماربھی ہیں اور مارلن برانڈو بھی ۔
مریم نواز کا چچا خادم اعلیٰ اور بھیا حمزہ نواز کے ہاں آنا ایک اہم واقعہ ہے ۔اگرچہ مریم نے اپنے ٹوئٹ میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میڈیا نے اسے بڑھاچڑھاکر پیش کیاحالانکہ ایک بیٹی کا اپنے انکل اور کزن کے ہاں جانا معمول کا واقعہ ہے۔شریف خاندان میں پائے جانے والے سیاسی اختلافات کا تذکرہ ایک عرصہ سے کیاجارہاتھا لیکن کبھی کسی نے میاں نواز، میاں شہباز یا خاندان کے کسی رکن سے براہ راست سوال نہیں کیاتھا۔البتہ میڈیا میں پائے جانے والے جیمز بانڈوں نے اس موضوع پر کئی ٹاک شوزجھاڑ دئیے۔اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر بات پہنچانے والوں کی چونکہ کریڈبیلٹی نہیں ہوتی اسلئے اس واویلاکی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔شریف خاندان کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی بابت جیو کے شاہزیب خانزادہ نے براہ راست حمزہ سے نصف گھنٹہ تک گرماگرم انٹرویو کیا۔تاہم حمزہ اسے ’’میڈیا ہینڈلنگ ‘‘ کی اپنی غیر معمولی صلاحیت کے باعث ٹھنڈا ٹھار کرتے رہے۔شاہزیب نے سیدھا سوال کیاکہ آپ کے والد شہباز شریف صاحب نے آپ کے اور مریم نواز کے درمیان صلح کرادی ہے؟اس سیدھے سوال کا جواب دولفظوں میں دیاجاسکتاتھا لیکن حمزہ نے ہرسوال کاجواب سیاق وسباق سے ہٹ کردیا۔اکثر سوالوں کے جواب میں حمزہ نے کہاکہ میرے دادا مرحوم کہاکرتے تھے’’ مرغن غذا سے بہتر ہے کہ عزت کی دال روٹی کھائی جائے‘‘۔شریفوں کے خلاف لگائے گئے الزامات دیکھیں تو قوم کو یہ دال روٹی کروڑوں اور اربوں میں پڑی ہے۔حمزہ نے کہاکہ فوج میرے دل میں بستی ہے ہمیں اداروں سے ٹکرائوکی پالیسی ترک کرکے 2018کے انتخابات کے ذریعے قوم کو آگے لے جانا چاہئے۔اس موقع پر شاہزیب نے پیشہ ورانہ ذہانت کا ثبوت دیتے ہوئے حمزہ سے اقرار کروا لیاکہ نوازشریف اورمریم نواز یہ کہہ رہے ہیں کہ احتساب کو انتقام بنادیاگیاہے جبکہ آپ کے والد (شہبازشریف ) اور آپ کہہ رہے ہیںکہ فیصلوں کو تسلیم کرکے چپ سادھ لی جائے؟حمزہ سے آخری سوال کیاگیاکہ نوازشریف اور مریم نواز کب تک آپ کے موقف کودرست تسلیم کریں گے ؟جواب دیا گیاامید پر دنیا قائم ہے ۔ سیاسی جیمزبانڈوںکا کہنا ہے کہ نوازشریف کی سیاسی جانشین مریم نواز ہی ہوں گی تاہم شریفوں کی خاندانی تربیت اور بڑے چھوٹے کے درمیان پائے جانے والے احترام اور لحاظ کی روایت کے باعث ’’بٹوارہ‘‘کی تحریک کودباکر شراکت داری کی راہ پر چلتے رہنا میں عافیت محسوس کی ہے ۔مریم اور حمزہ کے درمیان گلے شکوے ختم کراتے ہوئے خادم اعلیٰ کے یقیناََ یہ جذبات ہوں گے کہ
ذراتم چل کے آجانا ،ذراہم جھک کے مل لیںگے
شراکت سے ہی دنیا کے یہ کاروبار چلتے ہیں
1930میں نہرونے جیل سے اپنی 13سالہ بیٹی اندراگاندھی کو جو خط لکھے تھے انہیں Letters from a Father to his Daughterکے عنوان سے کتابی شکل میں شائع کیا گیاتھا۔بھٹوصاحب نے اپنی زندگی میں پانچ کتابیں لکھیں ان میں جو جیل سے لکھا اسے دنیائے سیاست کا ایک عظیم سرمایہ قرار دیاجاتاہے۔ہمارے ہاں بے نظیر بھٹو، جہانگیر بدر،شیخ رشید ،جاوید ہاشمی، چوہدری اعتزاز احسن اور یوسف رضاگیلانی سمیت درجنوں سیاستدانوں ،شاعروں اور ادیبوں نے جیل اور قید وبند میں گزارے گئے لمحات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کیاہے۔میاں نوازشریف اور شہبازشریف کو بھی مشرف نے جیلوں میں ڈالاتھالیکن دونوں بھائیوں نے کتابی شکل میں روداد بیان نہیں کی ۔پاکستان میں طویل ترین سزاکاٹنے والے آصف علی زرداری کہاکرتے ہیں کہ انہوں نے دنیا داری جیل سے سیکھی ہے ۔جیل میں بہت سا وقت ہوتاہے آپ کتابیں پڑھ سکتے ہیں اور لکھ بھی سکتے ہیں۔ویسے تو میاں صاحب کو ستے ای خیراںہیں(مکمل خیریت) ،دشمنوں کے منہ میں خاک ،خدانخواستہ اگر وہ جیل گئے تو پھر نہرو،بھٹو،بے نظیر بھٹو اور نیلسن مینڈیلاکی آٹو بائیوگرافی Long Walk to Freedom کی طرح میاں صاحب کو اپنی خودنوشت بھی مارکیٹ میں لانی چاہئے۔ میاں صاحب کی آٹو بائیوگرافی سیاسی اتارچڑھائو کی عظیم داستان ہونے کے ساتھ ساتھ طنز ومزاح سے بھی بھرپور ہوگی اس کی وجہ ان کی ذاتی بذلہ سنجی اور مزاح نگارولئےں کی صحبت بھی ہے۔

تازہ ترین