• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں دو بہنوں کابڑا بھائی ہوں۔ میرے اور چھوٹی بہن زاہدہ کے درمیان بہن فرخندہ ہے جس نے مجھ سے کہا کہ آپ نے بے شمار وفات پانے والے لوگوں پر کالم لکھے ہیں لیکن میرے مرحوم شوہر پر کالم نہیں لکھا تو اب جب تک میرے میاں کا ذکر کسی کالم میں نہیں آئے گا میں آپ کو کسی اور کے افسوس کا کالم نہیں لکھنے دوںگی۔ چنانچہ اس اسپیڈ بریکر سے بچنے کےلئے میں نے یہ کالم لکھناشروع کیا اور پھر میری تنہائی میں اور کئی جانے والے آتے چلے گئے اور یہ کالم کئی صفحات پر پھیلتا چلا گیا۔خالدقریشی (مرحوم) میرا برادر نسبتی ہونے کے ساتھ ساتھ میری بڑی پھوپھو کا بیٹا بھی تھا اور جب میں 1970کی دہائی میں لاہور آیاتو وہ بھی چند ماہ بعد میرے ساتھ ہی ’’امروز‘‘میں آگیا تھا۔ ’’امروز‘‘میں تو وہ زیادہ دیر نہیں رہا بلکہ اپنی غیرمعتدل طبیعت کے باعث کسی بھی ملازمت میں زیادہ دیر تک نہیں رہا لیکن وہ میرے چھوٹے بھائی کی طرح ساری زندگی میرے ساتھ ساتھ رہا۔ کبھی میری بات کو بڑے بھائی کا حکم سمجھ کر بلاچوں و چراں مان لیا اور کبھی ایک لاڈلے چھوٹے بھائی کی طرح کسی بات پر ناراض ہو گیا لیکن ہر خوشی و غم میں بھائی ہونے کافرض اور میرے بچوں کاشف اور گڑیا کے چچا ہونے کےسارے فریضے بڑی خوش اسلوبی سے ادا کرتا رہا۔ بچوں کے ساتھ کیرم بورڈ یا شطرنج کھیلتے ہوئے وہ جکارتہ چیمپئن ہوتا، کرکٹ کھیلتے ہوئے بشن سنگھ بیدی اور ہاکی میں اپنے آپ کو منظور سینئرسمجھا کرتا۔ خالد کے لئے زندگی کا مطلب سادگی تھا اور سادگی کا مطلب تین کپڑوں کی بجائے دو کپڑے اور اگر چوائس دی جائے تو دو کپڑوں کی بجائے ایک دھوتی ہی تھی۔ بہت سی ملازمتیں کرنے کے بعد آخر کار قانون کی کتابوں کے کام میں اس کا دل لگ گیا تھا لیکن اس نے اس کاروبارکوبھی بس ذاتی ضرورتوں کوپورا کرنے تک ہی محدود رکھااور زندگی سے ایک ہی خواہش کی، سستی اور آسان موت کی خواہش۔
اس کی یہ خواہش ایسے پوری ہوئی کہ اپنی آخری شام 31مارچ 2011وہ کتابوں کے کام کا سارا حساب کتاب کلیئر کرکے گھرپہنچا اور ہلکا سا سستانے کا کہہ کر لیٹ گیا اورپھر نہ جانے کس لمحے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ ہر 31مارچ اس کے لئے دکھ اور تکلیف لئے ہوئےہوتا ہے۔ یہ اس کی اپنے پوتے حم بلال سے جدائی کادن بھی تھا۔ اس کی موت کے وقت اس کا کل اثاثہ 50ہزار روپے تھے جواس نے اپنی بیٹی عائشہ حماد کے نام چھوڑے تھے۔خالد کو میں نے زندگی میں صرف ایک بارروتے ہوئے دیکھااور یہ اس کے جواںسال بھائی یونس قریشی (مرحوم) کی موت تھی۔ یونس قریشی کو پہلوانی کاشوق تھا لیکن اس کی موت کی وجہ کینسر جیساموذی مرض بنا۔ خالد کےبارے میں سوچتے ہوئے مجھے میری چھوٹی پھوپھو کا بیٹا معید ہاشمی (مرحوم) بھی یاد آرہا ہے۔ ان دونوں میں سادگی کا عنصر ملنگ ہونے کی حد تک تھا۔ معید ہاشمی نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے پروفیسر ہونے کے باوجود سادہ اور آسان زندگی کو اپنے لئے پسند کیا۔ میری بڑی پھوپھو کے بیٹوں میں یوسف قریشی (مرحوم) گجرات میں ایک مقامی اخبار سے منسلک رہا اور اپنے لمبے لمبے خطوط کے ذریعے ایک اخبار نویس کو ایڈیٹر اِن چیف ہونے کے بنیادی فرائض سمجھانے کی کوشش کرتا رہا۔ پھوپھو کے سب سے بڑے بیٹے عبدالرشید قریشی (مرحوم) میرے رشتے داروں میں سب سے زیادہ میرے دوست تھے۔ ان کو بچپن سے ہی فوٹوگرافی کا جنون کی حد تک شوق تھا چنانچہ میرے سکول کے دنوں سے لے کرجوانی اور جوانی سے لے کر بزرگی کے دوران آنے والے ہر دور کا ریکارڈ ان کی تصویروں میں محفوظ ہے۔ رشید کے کیمرے کی آنکھ سے خاندان کے چھوٹے بڑے، دوست احباب، ہمسائے اور یہاں تک کہ دور دراز کےملنے والے بھی محفوظ نہیں رہےبلکہ اس کی تصویروں کی زد میں آ کر انجان بھی دوست بن گئے۔عبدالرشید قریشی سے پہلے میرے تایا کے بڑے بیٹے سلیم اختر قریشی (مرحوم) میرے پسندیدہ دوستوں کی لسٹ میں شامل تھے۔ ان کی حلیم اور خاموش طبع، سکیچنگ، چائے اور موسیقی کےلئے محبت اور اپنے سب ملنے والوں سے ایک سی اُنسیت نے بہت سے لوگوں کو ان کا ہمیشہ گرویدہ کئے رکھا۔ میرے اکلوتے اور سب بھانجوں اور بھانجیوں کے دلدادہ ماما جی عبدالکریم (مرحوم) ہم سب سے پہلی لڑی میں وفات پانے والے آخری بزرگ تھے۔ ان کی تدفین کے بعد ہم سب خاندان والے بیٹھ کر سوچ رہے تھے کہ اب ہم میں سے کون خاندان کا بڑا ہے۔ تو میں نے ماموں شریف کنجاہی (مرحوم) کے سر پر بزرگی کی پگڑی رکھنا چاہی جس پر انہوں نے فوراً کہا کہ ’’میں اجے بڑے کم کرنے نے، میرے کول مرن دا ٹیم نئیں‘‘اس پر میں نے لالہ جی یعقوب (مرحوم) جو میری خالہ زینب بی بی (مرحومہ) کے سب سے بڑے بیٹے تھے، کی طرف دیکھا، انہوں نےکہا ’’نہیں بھائی! مجھے بھی بہت سے کام ہیں۔‘‘ اس پر میں نے کہا پھر تو بھائی سلیم ہی رہ جاتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ میرے ماماجی کے بعد فوت ہونے والوں میں سب سے پہلے بھائی سلیم ہی تھے.....(جاری ہے)

تازہ ترین