• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 میرے دادا میاں غلام حیدر قریشی (مرحوم) شاعر و امام مسجد اور جلدساز تھے۔ وہ کتابت کے بھی ماہر تھے اور ان کے پاس ہاتھ سے لکھی کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تھا۔ کسی نے پوچھاکہ اتنی کتابوں کا کیا کریں گے؟ تو انہوں نے اپنے سامنے کھیلتے دو سال کے بچے منیر احمد اور آج کے منوبھائی کو ان کتابوں کا وارث قرار دے دیا۔ میاں جی میرے بعد سب سے زیادہ بھائی سلیم سے محبت کرتے تھے۔تایا جان کا چھوٹا بیٹا اور سلیم اختر کا چھوٹا بھائی جمیل اختر قریشی (مرحوم) کئی حوالوں سے میرے دل کے بہت قریب ہے۔ وہ بغیر کہے ہی میرے دل کی بہت سی باتیں جانتا اور سمجھتا۔ وہ میرے والد اور اپنے چچا محمد عظیم قریشی (مرحوم) سے کئی عادتوں میں مماثلت بھی رکھتا تھا۔ ہم عمر ہونے کی وجہ سے سکول کے دنوں میں میری اس سے لڑائی رہتی تھی۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محسوس ہوا کہ ایک ساتھ اور ایک سا بچپن گزارنے کی وجہ سے ہم پر فیض ؔ صاحب کا وہ مصرعہ مصداق ہے کہ؎ہم پر مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے
جمیل سے ہونے والی بچپن کی لڑائیاں پہلے احترام اور دوستی میں بدلیں پھر محبتوں کی حدود بھی پھلانگ گئیں اور وہ میرا سمدھی بن گیا۔ اس کا اکلوتا بیٹا ناصر میرا داماد ہے۔ جمیل نے بھی خالد قریشی کی طرح بہت سے کام کئےاور کھیتی باڑی سے لے ٹھیکیداری تک ہر کام میںاپنی پوری جان ماری لیکن جب بھی کسی کام سے کمائی آنا شروع ہوتی کسی نہ کسی وجہ اسے وہ کام چھوڑنا پڑ جاتا۔ اس نے دوستوں اور بزرگوں کی محبت میں بہت سے کام چھوڑے، بہت سے کاموں پر ابتدائی محنت کرکے اپنے شاگردوں کے حوالے کردیا۔ اس کے شاگرد اسے چاچا جی کہہ کر پکاراکرتے اور آج بھی چاچا جی کہہ کر یاد کرتے ہیں۔ماموں شریف کنجاہی (مرحوم) جنہیں پنجابی زبان کی خدمت کے صلے میں حکومت کی طرف سے صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی دیا گیا تھا اور جن کی ایک نظم میں ایک دیہاتی لڑکی پوچھتی ہے کہ؎ویرا تو کنجاہ دا ایں، تیرا ناں شریف اے؟ان کے داماد خالہ زینب بی بی کے دوسرے بیٹے اور محمد انور کے بڑے بھائی لالہ یوسف (مرحوم) نے ماموں شریف کنجاہی سے پہلے اس دنیا سےرخصت لے لی تھی۔ لالہ یوسف کے پاس بہت سے لطیفے ہوتے اوروہ ہر محفل میں اپنے اردگرد قہقہے بکھیرتے رہتے۔ انہو ں نے اپنے بھتیجے نوید ا نور کی شادی پرشادی شدہ لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شیروں کی شادی تھی اورشادی پرصرف شیر ہی انوائٹیڈ تھے لیکن وہاں ایک چوہا بھی گھوم رہا تھا۔ ایک شیر نے حیرت سے اسے دیکھا اور پوچھا کہ یہ توشیروں کا فنکشن ہے تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ اس نے مسکین سا منہ بنا کر جواب دیا ’’بھائیو! شادی سےپہلے میں بھی شیر تھا۔‘‘اپنے وقت سےپہلے جانے والوں میں ایک نام میری بیوی اعجاز کے بھائی اورشاعر ڈاکٹر محمود الحسن کنجاہی (مرحوم) کا بھی ہے۔ محمودالحسن کنجاہی حضرت طاہر القادری کے رت جگے میں ساری رات جاگنے کی وجہ سے اگلی صبح گاڑی چلاتے ہوئے نیند کاجھونکا آنے سے کامونکی کے قریب ایک تیل والے ٹرالے کے نیچے جاگھسے تھے۔ اس حادثے میں وہ اور ان کی سب سے بڑی بہن اور عامر سعید کی والدہ آپا ثریا (مرحومہ) بھی خالق حقیقی سے جاملیں۔ میرے سالے محمود الحسن کنجاہی نے ایک ضرب المثل اس طرح سے سنائی تھی کہ’’سالے، بہنوئی اوربے وقوف آدمی سے بحث نہیں کرنی چاہئے۔‘‘ چنانچہ انہوں نے اپنے سالے ہونے کا اور میں نے اپنے بہنوئی ہونے کا فرض اس طرح سے ادا کیا کہ ساری زندگی نہ کبھی آپس میں کوئی بحث کی اور نہ ہی کسی بے وقوف آدمی کو یہ موقع دیاکہ وہ ہم سے کوئی بحث کرسکے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین