• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خالہ رشیدہ(مرحومہ) کے ہاں میں کیمبل پور کالج کے دنوں میں رہا کرتا تھا۔ ان کا چھوٹا بیٹا اور میرے دوسرے برادر نسبتی شفقت مسعود قریشی کا چھوٹا بھائی ارشد محمود قریشی بھی میری یادوں میں ہے۔بچپن میں ارشد کو پولیو ہوگیا تھا میں اس سے ملنے گیا تو میں نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے۔ اس نے کہا الف رے ار تے شد شد شد، لیکن اپنی کمزوری کو اس نے اپنے راستے کی رکاوٹ نہیں بنایا۔ اس نے تعلیم مکمل کرکے سی ایم ایچ میں ملازمت کی اور اپنے بچوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ بھائی سلیم کے بیٹے لیاقت سلیم قریشی عرف مٹھو کو بھی بچپن میں پولیو ہوا جس سے اس کا جسم تقریباً ناکارہ ہوگیا تھا لیکن اس نے ناقابل علاج قرار دی جانے والی مشینری کو اپنی ذہانت اور قابلیت سے قابل استعمال بنانے کی مہارت حاصل کی۔ وہ ایک ماہر الیکٹریشن تھا، اس نے پولیو کی بیماری کے اثرات کے باوجود ایک بہت اچھی زندگی گزاری اور اپنے پیچھے اپنے ہونہار بیٹے طلحہ لیاقت کو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ لالہ فیض اور میری خالہ فضل نور کی بیٹی زاہدہ کے بیٹے نومی کو بھی چھوٹی عمر میں پولیو ہوا تھا۔ وہ بھی اعلیٰ ذہانت کا مالک تھا، جو پولیو سے تو بچ گیا تھا لیکن بہت چھوٹی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ میری دعا ہے کہ میرے ملک سے پولیو اور بچوں کی ہر بیماری دور ہوجائے۔نوجوانی میں اچانک ہارٹ فیل ہونے سے میرے پھوپھی زاد بھائی الیاس صدیقی کے بیٹے حیدر صدیقی کی موت پر مجھے دھچکا لگا۔ میں الیاس صدیقی کے لئے صبر، ہمت اور صحت کی دعا کرتا ہوں۔ میری خالہ عائشہ بی بی کا بیٹا حفیظ اللہ(مرحوم)اور بچوں کا پھکی والا ماموں بھی میرے ہم عمر دوستوں میں سے ایک تھا۔ وہ حکمت کا ماہر اور نہایت نفیس طبیعت کا مالک تھا۔ ایک دن حفیظ بہت اداس تھا، میں نے پوچھا کیا ہوا، وہ بولا’’میرا ایک ہی مریض تھا اور وہ بھی فوت ہوگیا‘‘۔میری تایا زاد بہن خالدہ انور کے داماد اور منزہ ہاشمی کے شوہر زبیر ہاشمی(مرحوم) بھی جوانی میں فوت ہوگئے تھے۔ ہر طرف قہقہے بکھیرنے والے زبیر ہاشمی کی خاندان کے بزرگوں اور بچوں سے بہت دوستی تھی۔ وہ میرے والد محمد عظیم قریشی(مرحوم) سے بھی اکثر ملنے کے لئے آیا کرتے۔ والد صاحب اور زبیر ہاشمی بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ اچانک والد صاحب کو ہلکی سی ہچکی آئی اور وہ زبیر ہاشمی کے ہاتھوں میں دم توڑ گئے۔ میرے والد کو اپنے بھائی اور میرے تایا فضل کریم قریشی(مرحوم) کی وفات کا بےحد دکھ تھا۔ تایا جان 26رمضان کے شبینہ سے فارغ ہو کر گھرآئے اور یہ کہہ کر سوگئے کہ مجھے سحری میں جگادینا ، جب انہیں سحری میں جگانے کی کوشش کی تو وہ اس جان فانی سے کوچ کرچکے تھے۔ والد صاحب ان کے بعد صرف چالیس دن زندہ رہے۔میں اپنے استادوں کو بھی والدین کا درجہ دیتا ہوں، جن میں سرفہرست دو قرآن اور دو اسلام کے مصنف ڈاکٹر غلام جیلانی برق(مرحوم) تھے۔ انہوں نے اپنی یاداشتوں میں مجھے اپنے بہترین طالبعلموں میں شامل کیا ہے اور احمد ندیم قاسمی کے بعد دوسرے نمبر پر میرا نام لکھا ہے۔ ایک دن سپورٹس کے بعد میں امجد ننوکی بہن اور اپنی کلاس فیلو کے ساتھ باتیں کررہا تھا کہ آواز آئی’’اؤے منیرا ایدھر آ‘‘۔ یہ برق صاحب کی آواز تھی۔ میں پریشانی کی حالت میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے فرمایا’’یہ جو شہری عورتیں ہیں ان کو پہلے بچے کی پیدائش کے بعد دیکھو گے تو ڈر جائو گے‘‘۔ ننوکی بہن سے میں اس سے پہلے یہ وعدہ کرچکا تھا کہ میں تمہیں اپنے کالج میگزین کا سب ایڈیٹر بنائوںگا۔ دوسرے دن اس لڑکی نے میرا شکریہ ادا کیا تو میں حیران رہ گیا کہ کیا وجہ ہے تو مجھے ایک دوست نے بتایا کہ نوٹس بورڈ پر ایک نوٹس ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی طرف سے لگاہوا ہے، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ننوکی بہن کو کالج کے میگزین کا سب ایڈیٹر بنایا جاتا ہے۔ کالج کے زمانے میں میرا نام ’’ٹوئنٹی دو‘‘ پڑگیا تھا۔ میرا رول نمبر ٹوئنٹی ٹو تھا لیکن جب دو حرف ایک جگہ اکٹھے آجائیں تو میں لکنت کی وجہ سے ادا نہیں کرسکتا تھا ۔ ایک روز میں لڑکیوں کے کمرے کے باہر کھڑا تھا تو پرنسپل اشفاق احمد اچانک وہاں آموجود ہوئے اور پوچھا تیرا رول نمبر کیا ہے، تو میں نے ٹوئنٹی ٹو بتانے کی بجائے’’ٹوئنٹی دو‘‘ کہہ دیا چنانچہ کالج کی لڑکیوں نے مجھے ٹوئنٹی دو کا نام دے دیا۔ ان لڑکیوں کی وجہ سے ہی میں کالج یونین کا سیکرٹری بن گیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ میں نے اپنے کالج کے سامنے ایک شعر پڑھا تھا؎یہ لکنت تھی جو کام آئی، ہم کہتے کہتے رک سے گئےگر عرض تمنا کردیتے، وہ شرم کے مارے کیا کرتے(جاری ہے)

تازہ ترین