• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آخری سین میں جب جلوس اپنی منزل کو بھول جاتا ہے تو ڈرامے کے تماشائیوں کی نشستوں سے ایک فوٹو گرافرا سٹیج پر آ جاتا ہے اور کہتا ہے ’’میں نے بڑے بڑے جلوس دیکھے ہیں ،مگر انتشار کا یہ لمحہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا‘‘ وہ کہتا ہے کہ ’’اتنا بڑا جلوس دوبارہ اکٹھا نہیں ہو سکتا اور اگر یہ جلوس منزل پر پہنچنے میں ناکام رہتا ہے تو پھر ...‘‘وہ اپنا کیمرہ اسٹیج پر پھینکتا ہے اور رونے لگتا ہے اور رندہی ہوئی آواز میں کہتا ہے کہ ’’منزل مقصود کو بھول کر آپ سب لوگ جلوس کو تباہ کر دیں گے اور شاہرائوں میں کھمبوں کے ساتھ تمہاری لاشیں لٹکی ہوئی ہوں گی ‘‘ایک کمسن بچی اسٹیج پر آتی ہے اورفوٹو گرافر کے آنسو پونچھتی ہے۔یہ ڈرامہ ایک دن سرکاری ملازمین اور افسروں کو دکھایا گیا جن میں کابینہ کے ارکان بھی شامل تھے۔ دوسرے دن پاکستان پیپلز پارٹی کے عہدیداروں کو دکھایا گیا۔ ڈرامہ کا آخری سین چل رہا تھا کہ میں نے بھٹو صاحب کو اسٹیج پر آتے دیکھا تو اداکاروں اور اداکارائوں کو منجمد ہو جانے کا اشارہ کیا۔بھٹو صاحب نے اسٹیج پر پہنچ کر کہا منوبھائی کہتا ہے کہ یہ جلوس آگے نہیں جائے گا مگر میں کہتا ہوں کہ ہم دائیں راستے سے یا بائیں راستے سے منزل تک پہنچیں گے ’’پھر مجھ سے کہا ’’ڈرامہ بہت اچھا ہے (دی پلے از گڈ)‘‘ میں نے کہا ’’پرائم منسٹر بلکہ مور دین اے پرائم منسٹر !یورپرفارمنس از ایون بیٹر ‘‘ اس وقت تک محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ اسٹیج پر آ چکی تھیں اور وہ مجھ سے ایک ماں کی طرح بغل گیر ہو گئیں۔اس کھیل میں ثروت عتیق ،سلیم ناصر، بدیع الزماں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے جبکہ افضال احمد نے وہیل چیئر کے ذریعے انقلاب برپا کرنے والا کردار ادا کیا۔بدیع الزماں ایک ایسے مذہبی رہنما کا کردار اد اکر رہے تھے جو جلوس کی منزل کو گمراہ کر دیتا ہے ۔ ثروت عتیق نے ایک طوائف کا کردار ادا کیا۔ ایک موقع پر پولیس آفیسر کہتا ہے کہ آپ دائیں بازو کا رخ اختیار کرکے جبر کی چھائونی تک پہنچ سکتے ہیں ۔یاور حیات نے اس کھیل کو پاکستان کے ٹیلی وژن کے لئے ریکارڈ کیا مگر بھٹو صاحب کی کابینہ کے وزیر اطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی نے اس ڈرامے کی اوریجنل ریکارڈنگ اسلام آباد طلب کی اور اس کے بعد یہ ڈرامہ معدوم ہو گیا کھیل پر تبصرہ نگاروں نے لکھا کہ فوٹو گرافر کے آنسو پونچھنے والی بچی بے نظیر بھٹو لگتی ہے ۔ایک روز آغا ناصر میرے پاس آئے اور مجھے ہوٹل میں اپنے کمرے میں لے گئے اور کہا کہ بھٹو صاحب نے تم سے نیا آئین پاکستان کے موضوع پر ٹی وی ڈرامہ لکھوانے کا مشورہ دیا ہے جس کی ڈائریکشن اور ریکارڈنگ میں خود کروں گا۔یہ ڈرامہ جس کی طوالت ایک گھنٹے کی تھی ’’رت بدل جائے گی ‘‘ کے عنوان سے لکھا اور ریکارڈ کیا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے ڈرامہ دیکھا اور آغا ناصر سے پوچھا کہ منوبھائی کو اس کا کیا معاوضہ ملے گا۔آغا ناصر نے انہیں بتایا کہ 75روپے فی منٹ ملیں گے جو منوبھائی کا آئوٹ اسٹینڈنگ ریٹ ہے ۔بھٹو صاحب نے فرمایا ’’میری طرف سے پچیس ہزار بھی دیئے جائیں ‘‘ اور یوں میں زندگی میں پہلی مرتبہ 25ہزار پتی بن گیا۔

تازہ ترین