• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم گھاس کھا لیں گے سر نہیں جھکائیں گے ... بسلسلہ میں تے منو بھائی

سلامت علی شاہ نے سرکاری رازوں کو افشا کرنے کے مقدمے سے نجات حاصل کی تو کچھ دنوں بعد کسی بیرونی اخبار نے جس کا کوئی کارکن پاکستان میں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کی سرگرمیوں سے بہت تنگ آیا ہوا تھا اپنی خبر میں ضیاء الحق کو ایک انتہائی ذلیل گالی سے منسوب کیا۔ یہ خبر ترجمے کے ساتھ بعض پاکستانی اخباروں میں بھی چھپی، جس میں حامد میر کا اخبار ’’پاکستان‘‘ کا اسلام آباد ایڈیشن بھی شامل تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کے ترجمان نے اخبار کے مدیر حامد میر سے پوچھا کہ یہنازیبا الفاظ آپ نے کیوں چھاپے؟ حامد میر نے کہا کہ ہم نے ملک سے باہر چھپنے والی خبر کا ترجمہ کیا ہے۔ کسی نے مجھ سے پوچھا کہ اگر یہ خبر چھاپنے والے بیرونی اخبار کے کارکن کے خلاف مقدمہ بنانے کا سبب بنی تو مقدمہ کیا ہو گا؟ میں نے کہا ’’سرکاری راز افشا کرنے کا مقدمہ‘‘۔ ضیاء الحق حکومت نے اس واردات پر مقدمہ قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ خوامخواہ مزید بدنامی ہو گی۔اس واقعہ کے کچھ عرصے بعد آغا مرتضیٰ پویا نے ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے مقابلے میں انگریزی اخبار ’’دی مسلم‘‘ شائع کرنا شروع کیا جس میں کرکٹ کے معروف کھلاڑی مقصود اسپورٹس کے صفحے کے انچارج تھے۔ کرکٹ کے ایک مقابلے میں مخالف ٹیم کی ڈیمانڈ پر مقصود کو ایمپائر نے انگلی اٹھا کر آئوٹ ہونے کا اشارہ دیا۔ مقصود نے تماشائیوں کی گیلری کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ ہزاروں لوگ تمہاری انگلی دیکھنے نہیں، میرا کھیل دیکھنے آئے ہیں۔ اخبار کے اسٹاف میں میرا بھتیجا صداقت پرویز (بلو) بطور کارٹونسٹ اپنی حس مزاح کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ مشہور پریس فوٹو گرافر ضیغم زیدی مسلم اخبار کے اسٹاف فوٹو گرافر تھے، جن کی ایک تصویر نے ملک گیر شہرت حاصل کی تھی۔ تصویر میں جب جنرل ایوب خان نے تاشقند کے بلاوے کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو ان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اچانک ان کی طرف نفرت سے دیکھا، یہ لمحہ ضیغم زیدی نے اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔ ضیغم زیدی کی ایک بہت ہی مشہور تصویر موسم بہار کی چھٹیوں کے بعد ’’طالبات کی ملاقات‘‘ کے عنوان سے تھی اور تصویر میں گیلے صحن میں اونچی ایڑھی کے نشانات دکھائی دے رہے تھے۔ دی مسلم ایک خوبصورت اخبار کے طور پر خاصا مشہور ہوا بلکہ پاکستان ٹائمز کی سیلز کو متاثر کرنے کا سبب بھی بنا۔پنجاب کی صوبائی حکومت کے جنرل ضیاء الحق کے ادھورے مشن کو مکمل کرنے کا ارادہ ظاہر کرنے والے وزیر خزانہ میاں محمد نواز شریف انڈیا کے دورے پر گئے تو واپسی پر بتایا کہ ہندوستان میں مسلمان سڑکوں کے فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں۔ میں نے اپنے کالم میں لکھا کہ ہندوستان میں تو بے گھر لوگوں کی اکثریت فٹ پاتھوں پر سوتی ہے۔ میاں صاحب ان کے اتنے قریب کیوں چلے گئے کہ انہیں سب کے مسلمان ہونے کا پتا چلا۔ اگلے روز میرے چیف ایڈیٹر میر خلیل الرحمٰن کا فون آیا کہ منو بھائی تم نے کیا لکھ دیا کہ میاں نواز شریف کو شکایت کا موقع ملا۔ میں نے کہا جی کوئی خاص بات نہیں لکھی۔ میر صاحب (مرحوم) نے کہا پڑھ کے سنائو۔ میرے پڑھنے کے بعد وہ ہنسے اور کہا ’’اقتدار میں آئے ہوئے لوگوں کو ایسی باتیں پڑھنے کا موقع مت دو‘‘۔ مجھے میاں نواز شریف کی شکایت کا بہت افسوس ہوا۔ اگلے روز میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ ’’ہم گھاس کھا لیں گے، مگر سر نہیں جھکائیں گے۔‘‘ میں نے لکھا ’’میاں صاحب! گھاس کھانے کے لئے بھی سر جھکانا پڑتا ہے، آپ گھاس کھانے کے لئے کونسا طریقہ اپنائیں گے، کہ جس میں سر جھکانا نہ پڑے‘‘۔

تازہ ترین