• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں عالمی قیادت کے کچھ حالیہ بیانات کو پڑھ اور ان کا تجزیہ کر رہا تھا اور ان بیانات کا دنیا کے کچھ معروف رہنماؤں کے بیانات کے ساتھ موازنہ کر رہا تھا، ان رہنماؤں میں ونسٹن چرچل، ابراہم لنکن، نپولین بوناپارٹ، محمد علی جناح، نیلسن منڈیلا وغیرہ شامل ہیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ ان کی بصیرت اور شائستہ سیاست ہمیشہ قومی افق پر عالمی سیاسی جہات کے تعین میں رہنمائی کرتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ آج دنیا کے طاقتور ترین صدر پر نامناسب زبان استعمال کرنے پر تنقید کی جارہی ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ صدر ٹرمپ جو الزامات عائد کرنے والی ٹوئٹس کے حوالے سے معروف ہیں جو اکثر جھوٹی ہوتی ہیں لیکن اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوتی ہیں اور اکثر اوقات عوامی رائے کو خاص سمت میں موڑ دیتی ہیں اور ان کی وجہ سے بڑی خبریں دب جاتی ہیں۔ بدنام زمانہ ٹوئٹس سے حالیہ ٹوئٹ تک، جو شمالی کوریا کے خلاف تقریبا ًاعلان جنگ تھا، کی وجہ سے اکثر و بیشتر میڈیا میں اہم خبریں دھندلا جاتی ہیں۔ ان کی صدارتی مہم کو ان کے متنازعہ بیانات کی وجہ سے بلاوجہ بہت توجہ ملی۔ وہ اکثر غلط اطلاعات فراہم کرتے ہیں اور کئی اخباری ادارے ایسے ہیں جنہوں نے سابق رئیلٹی اسٹار کے بیانات کے لئے حقائق کی چھان بین کرنے والے مختص کیے ہوئے ہیں۔ میں صدر ٹرمپ اور کوریائی صدر کم جون ان کے مابین الفاظ کی حالیہ جنگ پر محظوظ نہیں ہوا بلکہ مجھے دھچکا پہنچا۔ اپنی پوزیشن اور بین الاقوامی حیثیت سے قطع نظر دونوں صدور نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا اور ایک دوسرے کی توہین کی۔ کم نے اپنےبیان میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ’’ڈوٹارڈ‘‘ ’’ایک خوفزدہ کتا‘ اور ’’آگ سے کھیلنے والا ایک جرائم پیشہ‘‘ قرار دیاجبکہ جواب میں ٹرمپ نے ’’چھوٹا اور موٹا اور پاگل کتا جو اپنے لوگوں کو قتل کرنے اور انہیں بھوکا رکھ کر ہلاک کرنے والا‘‘ قرار دیا۔ یہ دونوں کے لئے ہی نامناسب تھا۔ دونوں ہی عالمی سیاسی میدان کے بجائے کسی سرکس میں کام کرنے والے دکھائی دیتے تھے۔ سیاست کے موجودہ معیار کے ساتھ صدر ٹرمپ نے دنیا میں جس طرح اپنی سیاست متعارف کرائی ہے وہ انتہائی قابل اعتراض ہے۔ ان کے سابق قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلائن کے دین اسلام کے خلاف بیانات نہایت قابل اعتراض ہیں۔ بدقسمتی سے امریکی فوج کے ایک ذمہ دار جنرل نے اور بعد میں صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر نے دین اسلام کا مناسب علم نہ ہونے کی وجہ سے مذہبی منافرت پیدا کرنے کی کوشش کی اور کسی نے اس بارے میں کچھ نہیں کیا۔ اس طرح کے اندازے لگانے والے دنیا کے امن کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں اور سابق مشیر ہونے کی وجہ سے فیصلہ سازی میں ان کا کوئی کردار نہیں تھالیکن اس کے باوجود ایسے افراد جن میں مذہبی برداشت مفقود ہے اور عقائد کے مابین ہم آہنگی کے جذبات پائے جاتے ہیں، امریکی انتظامیہ میں کام کر رہے ہیں اور وہ تہذیبوں کے تصادم کرا سکتے ہیں۔ اس لئے مذاہب مخالف نظریات رکھنے والے ایسے افراد کو فیصلہ سازی کے عمل سے دور رکھنا چاہیے۔ ایک اور عنصر جو اس مساوات میں شامل ہے، وہ ون مین شو ہے۔ امریکی پالیسیاں اس وقت صرف صدر ٹرمپ کے کئے گئے فیصلوں پر منحصر ہیں جبکہ ان کا سیاست کرنے کا انداز ماضی کے لوگوں کے مقابلے میں کہیں مختلف اور خطرناک ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی دلچسپی سے امریکا آٹوکریسی اور انفرادی طور پر بااختیار ہونے کی جانب بڑھ رہاہے، جس کی وجہ زیادہ تر غیر جمہوری حکومتوں سے معاملات طے کرنا ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے ہی نظام انصاف کا مذاق اڑا رہے ہیں اور اپنے محکمہ خارجہ کو غیر ضروری اشارے دے رہے ہیں جو آٹوکریسی کی جانب ان کے بڑھتے ہوئے رجحان کا مظہر ہے۔ اپنی کتاب میں پال بروکر نے کہا ہے کہ جدید آٹوکریسی میں کوئی ایک شخص حکمران یا سربراہ نہیں ہوتا بلکہ یہ دنیا بھر کے طاقتور ترین لوگوں کا ایک مجموعہ ہوتاہے جو اچھے یا برے فیصلے کرتا ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے روس کے ساتھ رابطے اور مصر اور تھائی لینڈ میں بغاوتوں کی حمایت میں امریکا کا کردار اب انتہائی مشتبہ ہوچکا ہے۔ دنیا کی تقسیم کے اس سرکس کی بنیاد آٹو کریسی پر ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھے گی کیونکہ انفرادی طور پر طاقتور رہنما جمہوری طور طریقوں پر عمل کرنے کے بجائے اپنے ہی قواعد کی پیروی کررہے ہیں۔ اسی طرح ہمارے پڑوس میں بھارت میں سیاست کے معیارات میں ایک اور سطح آگئی ہے۔ 2014ء میں لوک سبھا کے انتخابات میں نریندر مودی کی کامیابی سے بھارتی عوام نے اس سیاست کا مزا چکھ لیا ہےجس میں انہوں نے قدم رکھا تھا اور یہ گالیاں دینے کا ہے ۔ زبان کا انتخاب الفاظ کچھ تو انتہائی گھٹیا معیار کے اور سخت الفاظ بھارتی سیاسی زبان میں داخل ہوچکے ہیں۔بھارت میں سیاست ، طاقت پر قبضہ کرنے کا کھیل بن چکی ہے۔ سیاست کاروبار بھی بن چکی ہےاور وہ بھی کھلم کھلا۔حال ہی میں مجھے ایک اور سرکس کے کردار کو دیکھنے کا موقع ملا جو بھارت کے وزیرخارجہ ہیں جو اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کی بجائے ناروے کے وزیر خارجہ کی تقریر پڑھ رہے تھے ان کے چہرے پر شرمندگی کے بھی کوئی آثار نہیں تھے۔جو بات سب سے زیادہ افسوسناک تھی وہ یہ تھی کہ اس فاش غلطی کے بعد ان کے اپنے وزیراعظم نریندر مودی نے، جو دہشت گردی کے کھیل کے ماسٹر سمجھے جاتے ہیں اور بھارت میں معصوم کشمیریوں اور مسلمانوں کے سروں پر سرکس کھیلنے کے حوالے سے معروف ہیں، ان کا خیر مقدم کیا۔ وہ ایک اور سرکس کے کردار ہیں جو کئی مواقعوں پر بھارتی عوام خاص طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دانشور افرادکے لئے شرمندگی کا باعث بن چکے ہیں۔متنازعہ بیانات کے حوالے سے بھی مودی جانے پہچانے ہیں اور ایک کے بعد ایک توپیں داغتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر 2012ء میں نریندر مودی نے ششی تھرور کے اوپر ذاتی قسم کا حملہ کیا اور ان کی اہلیہ ششنداپشکر کو 50؍ کروڑ کی گرل فرینڈ قرار دیا، اس پر میڈیا کا غصہ انتہا پر پہنچ گیا تھا ۔ تھرور نے خود اس کا جواب دیا، میری بیوی انمول ہیں۔ہم روز اس طرح کے بیانات دیکھتے ہیں اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ دنیا ایک تھیٹر بن چکی ہے جہاں قیادت اپنے عوام کی بہتری کے لئے حقائق کے بجائےگھٹیا پبلیسٹی کا کھیل کھیلتی ہے اسی طرح لبنان کے وزیراعظم کے اچانک پراسرار استعفیٰ نے بھی سیاسی بحران پیدا کردیا ہے جو سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کو بڑھا رہا ہے اور مشرق وسطیٰ کی دونوں طاقتوں کے مابین کھلی جنگ کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔یہ قضیہ 4؍ نومبر کو شروع ہوا جب لبنانی وزیراعظم سعدحریری نے سعودی عرب میں اچانک اپنے استعفیٰ کا اعلان کیا۔ سعودی عرب نے اپنے شہریوں کو لبنان چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ پانچ سال میں یہ چوتھا موقع ہے جب ریاض نے اپنے شہریوں سے اس طرح کی اپیل کی ہے۔ سعودی عرب کے اتحادیوں کویت اور متحدہ عرب امارات نے بھی اپنے شہریوں سے لبنان چھوڑنے کی اپیل کی ہے لہٰذا لبنان میں وہ سیاسی مسئلہ جو پہلے چھوٹا دکھائی دیتا تھا مشرق وسطیٰ میں بہت بڑے مسئلے میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ یہ اس خطے کے لئے بری خبر ہے جو پہلے ہی مسائل کا شکار ہے۔ دنیا کے ہر حصے میں جمہوریت کو شرمندہ کیا جارہا ہے اور غیر اخلاقی حرکتوں پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔یہ رہنما جمہوریت کے اصولوں پر صرف زبانی طورپر یقین رکھتے ہیں اور جب تیسری دنیا کے مسائل سامنے آتے ہیں تو وہ ان ہی اصولوں کی توہین کر کے سرکس کریسی کا ماحول پیدا کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ عالمی سیاست اخلاقیات کھوتی جارہی ہے، بدقسمتی سے گندی زبان کا استعمال بے بنیاد الزامات اور مخالفین کا مذاق اڑانا پاکستان کی سیاست میں پہلے ہی قبول کرلیا گیا ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اخلاقیات کو سربلند کرنے کے نام پر کیا جا رہا ہے ۔قانون کی حکمرانی علمی طور پر جمہوریت، انسانی حقوق اور سماجی انصاف سے ممتاز ہے۔ قانون کی حکمر انی، اخلاقیات کو چیلنج نہیں کرتی اور نہ ہی یہ سیاست یا جمہوری عمل میں مداخلت کرتی ہےلیکن بااختیار اشرافیہ نے قانون کی حکمر انی کو اخلاقیات سے کنفیوژ کردیا ہے ان کے خیال میں آمریت پسندانہ اسٹرکچر کو صرف اخلاقی بنیادوں پر ہی قائم رکھا جاسکتا ہے۔ قانون کی حکمرانی اور اخلاقیات پر ہونے والی بحث میں عوام کہاں کھڑے ہیں؟ پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت اس دلیل کواستعمال کررہی ہے کہ یہ عوام کا حق ہے کہ وہ انتخابی عمل کے ذریعے حکومت کی قسمت کا فیصلہ کریں تاہم عوام کی حمایت قانون کی بالادستی کا متبادل نہیں ہوسکتی کیونکہ عوام حکومت کواس لیے منتخب کرتے ہیں کہ وہ آئین کے تحت اور قانون کے مطابق حکومت کرے۔ دوسری بات یہ کہ انتخابی احتساب حکومت کی کارکردگی پر لاگو ہوتا ہے نہ کہ قانون کی خلاف ورزی میں کسی شخص کے انفرادی طرز عمل پر۔ رہنماؤں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نفیس طرز عمل اختیارکریں گے اور مسخروں کی طرح کا رویہ اختیار نہیں کریں گےجس میں لطیفوں، کسی کی جسمانی ساخت کے متعلق توہین آمیز ریمارکس اور گھٹیا کامیڈی تھیٹرکے مکالمات جیسی چیزیں نہیں ہوں گی۔ دنیا کی تو کیا بات کی جائے پاکستان میں بھی جمہوریت کو سرکس کریسی میں تبدیل کردیا گیاہے جس کی وجہ قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا اور لوگوں کا انفرادی طور پر نظام پر قبضہ کرلینا اور اپنی مرضی کے مطابق نظام سے کھیلنا شامل ہے۔ پارلیمنٹ کا مذاق اڑانا، عدلیہ کو شرمندہ کرنا، انتہائی معزز آئینی اداروں پر تنقید کرنا معمول بن چکا ہے جس نے ملک کو ایک ذمہ دار اسلامی ریاست کے بجائے کامیڈی تھیٹر میں بدل دیا ہے۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ بیانات اور رویئے دنیا میں بھی اور پاکستان میں بھی خراب ہوتے جارہے ہیں، میں اخبارات کے صفحہ اول پر سرکس جیسی صورتحال دیکھتا ہوں اور شام میں ٹی وی کی اسکرینوں پر اور جس انداز میں میں قیادت کو ایک دوسرے کے خلاف خراب زبان استعمال کرتے ہوئے دیکھتا ہوں وہ سرکس سے کم نہیں ہے ہم سب کے لئے شائستگی اور سیاسی پیرامیٹر کہاں چلے گئے؟ دونوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ بدزبانی اور گھٹیا زبان دنیا میں ترقی کے عمل میں منفی اثرات مرتب کرتی ہے لہٰذا میں عالمی رہنمائوں سے یہ مودبانہ گزارش کرتا ہوں کہ وہ جمہوریت کو جمہوریت رہنے دیں اور اسے سرکس کریسی بنا کر دنیا کو مایوس نہ کریں۔ مجھے امید ہے کہ میری ان باتوں کو موجودہ حکمرا ن اور ممتاز سیاسی جماعتیں سنجیدگی سے لیں گی تاکہ وہ اداروں کو برا بھلا کہنے اور اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بدزبانی کے اس سرکس کو روک سکیں۔ بصورت دیگر الفاظ کی یہ جنگ اور اداروں کی یہ شرمندگی جمہوریت کونقصان پہنچانے کا باعث بنے گی۔ سیاسی سرکس کریسی کے لئے مزید کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ جس انداز میں یہ کھیل کھیلا جارہاہے وہ سرکس سے کم نہیں ہے جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ دانش مندی، شائستگی اور اپنے اسٹیٹس کا احترام ختم ہوتا جارہا ہے۔

تازہ ترین